اُمید کے صحرا میں جو برسوں سے کھڑا ہے
حالات کی بے رحم ہواؤں سے لڑا ہے

رُسوائی سے بھاگے تو یہ محسوس ہوا ہے
تنہائی کی منزل کا سفر کتنا کڑا ہے

ہیرے کی کنی ہو تو تبسم بھی بہت ہے
لو سامنے اک کانچ کا مینار کھڑا ہے

یوں ذہن پہ برسا ہے تری یاد کا بادل
جیسے کہ کوئی کوہِ الم ٹوٹ پڑا ہے

گزرے ہوئے لمحے کبھی واپس نہیں آتے
کیوں صورتِ دیوار اندھیرے میں کھڑا ہے

اک وجہہ مبہم ہوں بظاہر میں اُفق پر
کہتے ہیں مرا نام مرے قد سے بڑا ہے

اک میں ہی اکیلا نہیں اس دشتِ خلش میں
جلتا ہوا سورج بھی مرے سر پہ کھڑا ہے

ناقدریٔ جذبات کے اس عہد میں
آ جائے اگر راس تو پتھر بھی بڑا ہے