میں چھوٹی سی اک بچی تھی

میں چھوٹی سی اک بچی تھی
تیری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسوں آنسو روتی تھی

خوابوں کا اک روشن بستا
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتی تھی میں رات کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی

ماں تو نے کتنے برسوں تک
اس پھول کو سینچا ہاتھوں سے
جیون کئی گہرے راز کو
میں سمجھی تیری باتوں سے

میں تیری یاد کے تکیہ پر
اب بھی رت کو سوتی ہوں
ماں میں چھوٹی سی اک بچی
تیری یاد میں اب بھی روتی ہوں . . . !