ہم نے بھی رکھے درد کے مینار بیچنے
کل تک جو اُن کا مان تھا، غربت نگل گئی
بازارِ شب میں آئے وُہ، دستار بیچنے
جس نے لڑی لڑائی تھی، کل قوم کےلئے
منڈی میں آگیا لو تلوار بیچنے
غاصب نے جال روٹی کا، پھیلایا اس طرح
عِصمت کو لے کے چل دیا، خوددار بیچنے
محافظ تھے میرے دین کے، کل تک جو شہر میں
دکانیں سجا کے بیٹھے ہیں، اوتار بیچنے