اس گھٹن کے عالم میں، حق نہیں نہاں رکھنا
لب اگر سلے بھی ہوں، جاری یہ بیاں رکھنا

تم فقط ہی لفظوں کے، بت نہیں کھڑے کرنا
ایک سچ ہنر کرنا، حرف حرف جاں رکھنا

ہم کو تو نہیں آتے، طور بزم شاہی کے
جرم ہوگیا دیکھو، منہ میں اب زباں رکھنا

عزم کے چراغوں کو خوں سے زندگی دینا
اور ہر ایک منزل پہ، راہ کا گماں رکھنا

تم جنون ساحل پہ، کشتیاں جلادینا
واپسی کی اُمیدیں ، نہ کوئی نشاں رکھنا

زہر کے پیالے کا، گھونٹ گھونٹ پی لینا
آگ میں اُتر جانا، سر کو آسماں رکھنا