ہم اپنے چولھے میں، خود کو ایندھن، بنا کے کب سے جلا رھے ہیں
غریب ننگے یہ بھوکے اِک دن، تمہاری ہنڈیا بھی پھوڑ دیں گے
کتابیں لے کے مری نسل سے، نشہ و اسلحہ تھما رھے ہو
تم اِرتقا کے ہزار زینے بھی پار کر کے وہیں کھڑے ہو
بموں کے تحفے نے اِس زمیں کو، سِوا زہر کچھ نہیں دیا ھے
لہکتے کھیتوں کو تم نے آخر، ویرانیوں میں بدل دیا ھے
ہمارے آٹے کے ٹین میں اَب، فقط ہی کیڑے براجماں ہیں
اُٹھو کے اَب کے نہیں بچا کچھ کہ جس کے کھونے کا ڈر رہا ہو

لہو کی بھٹی، جنوں کے جبڑے، جواں نسل کو نِگل رھے ہیں
جمودِ شب ظلمتوں کے سائے بھی تھک کے آخر پگھل رھے ہیں
مِرے وطن کے خزانے تم نے، بارود ڈھیروں میں گُم کیئے ہیں
ہمیں نہ جنگ سے ڈرا کے اَب کے، مزید روٹی پہ حق جتاؤ
ہماری نسلوں نے پیٹ کاٹا، تو تُم کو آیا غرور کرنا
تمہارے بُوٹوں نے روند ڈالی ھے آج خستہ اَنا ہماری
گر آج دیکھو حساب مانگیں، یہ بھوکے تو تُم خفا تو ہو گے
تُم آخر اِتنی ہو شان والے، عوام کتنے “حقیر” دیکھو

مِرے مقدر غریبی لکھ دی، مجھے شُکر کا سبق پڑھایا
ہاں کھوج سچ کی زہر پیالے میں ڈُوب کر ہی سدا ملی ھے
ہمارے بچو سکول جاؤ تو خود بھگت کا ظہور پاؤ
وگرنہ اِن کے نصاب تم کو، گھڑا گھڑایا شعور دیں گے
تم “اِن کی اپنی تریخ” پڑھ کے، قصیدہ گوئی نہ پیشہ کرنا
وگرنہ قسمت پہ پہرہ دیتی، بیچاری سوچوں کی حَد مقرر
شعور کے بَس ہیں قید خانے، یہ درس گاہیں تمہاری دیکھو
ہماری نسلوں کے پَر ہیں کاٹے، ہمیں فقط رینگنا سکھایا