بھگتو۔ اب
بھگتو۔ اب
تحریر: انجینئر زوہیب اکرم
دیکھ لیا۔۔ اپنے جذبات کو بے لگام چھوڑ نے کا انجام ، کیا ملا، سمندر سے پیاس ، جدائی کی آس، ملن کی پیاس ۔ ہونہہ محبت کی شادی کرو نگا کیاہوا ؟ ہوگئی نہ کسی اور کی وہ ؟ اس نے کہا تھا نا اپنا بنا کر چھوڑے گی ؟ تو چھوڑدیا ۔۔
گن بیٹھ کر اب ستارے ، اوہنہ نہیں بڑا ماہر ہے نا تو تو اپنے آپ کو سنبھالنے میں ، کیا کہتا تھا ؟ سارے غم سارے دکھ دو پیکٹ سگریٹ کی مار ہیں ۔ کیا ہو ا؟ سگریٹ کیوں نہیں پی رہا، نہیں بھولتی نا کومل سی وہ لڑکی جو چودہ افئیرز کے بعد تری زندگی میں آئی اور تری روح لے کر اب ایک دن بعد چلی جائے گی ۔۔
آیا مزا بڑا چلا تھا محبت کرنے ۔ کہا بھی تھا سنبھل جا ٹھیر جا ۔۔
نہ شکل نہ عقل بس زبان کے بل بوتے پر سارے عہدو پیمان کر بیٹھا ۔
جائو جا کر خودکشی کرو نا ۔۔
اوہ نہیں بزدلوں کا کام نہیں ہے ۔
کام کرو اب اپنا۔۔
کسی اور چھت پر برس گئی وہ محبت کی بارش
تیرا آنگن سوکھا تھا ہے اوررہے گا
ہنہ عاشق مائی فٹ
انا کے چکر میں نہیں پڑنا تھا اس کو کہ دینا تھا کے پہیلی نظر میں ہی میں دل تیرے تل کو دیے بیٹھا ہوں
تیری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جاگتا رہتا ہوں لیکن انا پرست ہوں نہ بولتا ہوں نا سوتا ہوں
تو بس پھر اپنی انا اپنی ایگو کو پوجو اور بھول جائو اس کو
وہ تمھاری تھی لیکن تم اس کے نہیں تھے ۔۔
کیوں کہ تم نے دیر کردی اور ویسے بھی حوریں فقیروں کو نہیں ملتی وہ حور تھی سو چھین لی گئِ تجھ جیسے گناہ گار سے
ہونہہ محبت ، انا کے تلے دبی خاموش محبت کرنے چلا تھا
بھگتو اب ۔