رپورٹ: منصور مہدی

صبح سے ہی کئی فون آ چکے تھے اور اب سمجھ نہیں آ رہی تھی کسے پہلے ڈیل کیا جائے ۔ شمع کے والد نے ایک قومی اخبار میں لڑکی کے رشتے کا اشتہار دیا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ ایک اچھے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والی انتہائی نیک اور پاکباز لڑکی، سفید رنگ، لمبا قد، خوش باش، صوم و صلواة کی پابند،اعلیٰ تعلیم یافتہ ، کنواری دوشیزہ کے لیے رشتہ چاہیے، لڑکے کے لیے خاندان اور عمر کی کوئی قید نہیں،دوسری شادی کرنے والے اور رنڈوے بھی رجوع کر سکتے ہیں ۔ اشتہار کے نیچے گھر کا فون نمبر دیا تھا ۔دو کنال کا یہ فرنشڈ گھر ابھی کوئی ایک ہفتہ قبل ہی انھوں نے کرایہ پر لیا تھا۔
فون کی گھنٹی بجتے ہی شمع کا والد بولا کہ ایک اور شکار آیا۔” شمع کی ماں تو اسے ڈیل کر کیونکہ میں تو صبح سے تین امیدواروں کو ڈیل کر چکا ہوں”۔ ماں بولی کہ” میں بھی تو چار کو ڈیل کر چکی ہوں اور اب مجھ سے کوئی بات نہیں ہو سکتی”۔
ماں نے کہا کہ “اے شمع تو خود ہی بڑی بہن بن کر بات کر لے” ، شمع نے آگے بڑھ کر فون اٹھا لیا اور بڑی مترنم آواز میں بولی ہیلو۔
جب کافی دیر ہوگئی تو شمع کی ماں نے کہا کہ کیا اب تو اس سے رشتہ پکا کر کے چھوڑے گی ، شمع نے ریسورپر ہاتھ رکھ کر کہا کہ وہ تو ٹائم مانگ رہا ہے کہ میرے بیٹے نے اسی ماہ کے آخر میں تین ماہ کے لیے یورپ چلے جانا ہے اور میں چاہتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی رشتے کی بات ہوجائے۔
اچھا اسے اتوار کا ٹائم دے دو، اتوار کو تو پہلے ہی دو امیدواروں کو ٹائم دے چکے ہیں ۔ اچھا چل پیر کا دن دے دے، مگرپیر کا دن تو بہاولنگر والوں کو وقت دے چکے ہیں منگل کو ہمیں خود چچا کی طرف جانا ہے جو اپنے بیٹے کی چوتھی مرتبہ شادی کر رہا تھا۔ اچھا چل بدھ کا وقت دے دے، بدھ تے کم سدھ۔شمع نے کہا کہ آپ بدھ کو آجائیں۔
شمع اصل میں بھائی پھیرو کے قریبی گاﺅں کی رہنے والی تھی۔یہ کنواری بھی نہیں تھی ، اس کی پہلے بھی تین مرتبہ شادی ہو چکی تھی مگر تھی وہ بہت حسین اور خوبصورت، پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے یا کنواری، بڑے بڑے دھوکہ کھا جاتے تھے۔ شمع اصل میں نوسربازوں کی فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔اس کا بھائی، باپ، ماں اور دیگر خاندان کے لوگ نوسر باز تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس خاندان کا کاروبار ہی نوسربازی کرنا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
نوسربازوں کو ٹھگ بھی کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں میںیہ کمال ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں لوٹے جانے والے لوگ اپنی رضامندی سے ہی لٹتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انھیں بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ لٹ چکے ہیں۔ ٹھگ یا نوسربازانتہائی چاپلوس اور گفتگو کے ماہر ہوتے ہیں ۔انہیں چور ، ڈاکویا رہزن نہیںکہا جا سکتا ۔یہ نہ تو چوروں کی طرح رات کو چوری کرتے ہیں اور نہ ہی ڈاکوو¿ں یا راہزنوں کی طرح لوگوں کو لوٹتے ہیں بلکہ یہ انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے کیے گئے شکار کے ساتھ ہنسی خوشی باتیں کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیںاور اسے لوٹ کر چلے جاتے ہیں ۔
آجکل ایسے نوسربازوں کی کئی قسمیں ہو چکی ہیں۔کوئی پیتل کے زیوارات کو سونے کے زیورات بنانے کا جھانسہ دیکر لوٹتے ہیں، کوئی رقم ڈبل کرنے کا چکر دیکر لوٹ لیتا ہے اور کوئی مسافروں کو راستہ بتلانے کے چکر میں لوٹ لیتاہے ، کوئی بے گھر لوگوں کو مکان یا پلاٹ دلوانے کے سلسلے میں لوٹ لیتا ہے۔
بہرحال شمع کے خاندان کے لوگ بھیپہلے پہل کچھ ایسی ہی وارداتیں ڈالتے تھے مگر جب سے شمع جوان ہوئی تو اس کے والد نے اس کی جوانی اور خوبصورتی سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔اور شمع کے رشتے کا جھانسہ دیکر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ اب تک شمع کی تین شادیاں اور چھ کے قریب منگنیاں ہوچکی تھی مگر کوئی بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی۔ دراصل ان کا طرز عمل یہ تھا کہ مالدار پارٹیاں دیکھ کر رشتہ طے کرتے، منگنی اور دیگر رسومات کے نام پر لاکھوں کے تحفے تحائف سمیٹتے، حق مہر، زیورات نام کراتے، شادی کے فوری بعد فتنہ و فساد برپا کرتے اور طلاق لے لیتے۔
یہ لوگ پہلے اپنے گاﺅں یا گاﺅں کے قریبی علاقوں تک ہی محدود تھے مگر جب گوجرانوالہ کا ایک پہلوان نما تاجر جو پنکھوں کا کاروبار کرتا تھا اور اس کی پہلی بیوی فوت چکی تھی ، اور وہ دوسری شادی کا خواہشمند تھا ۔ شمع کے خاندان کا شکار بنا تو انھیں اس واردات میں بہت زیادہ سونے کے زیورات ، تحفے تحائف اور نقد رقم ہاتھ لگی تو انھوں نے یہی کام شروع کر دیا۔اب انھوں نے ایک نئی واردات کے لیے لاہور کے علاقے جوہر ٹاﺅن میں یہ مکان لیا ہے ۔
اصل میں ہمارے شادیوں کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں ،لڑکوں بالخصوص لڑکیوں کے لیے موزوں رشتوں کا نہ ملنا آج ہر گھر کا مسئلہ بن چکا ہے۔اکثر گھر وں میں شادی کے قابل لڑکوں کی موجودگی کے باوجود ان کی شادی میں تاخیر صرف اس وجہ سے ہو جاتی ہے کہ گھر میں ابھی بہنیں موجود ہیں۔ بہنیں چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں ان کی عمر نکل جانے کے خوف سے بڑے بھائیوں کی شادی اکثر غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی جاتی ہے۔ اگرچہ دیکھا جائے تو یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں کیونکہ لڑکوں کے نسبت لڑکیوں کی شادی کا معاملہ اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا لیکن جب معاشرے کی اکثریت یہی روش اختیار کرلیتی ہے تولڑکیوں کے لیے دستیاب رشتوں کی تعداد خود بخود کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنی بہن ، بیٹی کی شادی کے لیے تو تیار ہے مگر دوسروں کی بیٹیوں کو اپنے گھر لانے کے لیے آمادہ نہیں۔ آخر کار وہی مشکل سامنے آجاتی ہے جس سے لوگ بچنا چاہتے ہیں یعنی لڑکیوں کی عمر گزر جاتی ہے۔
پھر فریقین کے مطالبے بھی اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ لوگ شادی کو ملتوی کر دیتے ہیں۔ذات پات ، برادری ، قومیت اور زبان وغیرہ کے مسائل بھی شادیوں میں دیری کا سبب بنتے ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے حوالے سے بہت سے غلط تصورات پائے جاتے ہیں خصوصاً ملازمت پیشہ لڑکیوں کے حوالے سے ، اس وجہ سے بھی شادیاں نہیں ہوتی۔شادیوں میں تاخیر کی ایک اور اہم وجہ اخلاقی اقدار کا زوال ہے، جبکہ نفسیاتی ،معاشی معاشرتی اور سماجی مسائل علیحدہ سے ہیں۔ پھر سب سے اہم ایک اور بات ہے وہ ہے خوب سے خوب تر کی تلاش، لڑکی والے بھی اور لڑکے والے بھی یہی کرتے ہیں۔ دولت اور امارت کی طلب میںہر کوئی ہی سرکرداں نظر آتا ہے۔ظاہری شان وشوکت اور بڑے مکانات (چاہے وہ کرایے پر ہی ہو)دیکھ کر ہی لڑکے اور لڑکی والے ایک دوسرے پر یقین کر لیتے ہیں۔جبکہ ماضی کی طرح خاندان، حسب و نسب، تحقیق اور نیک نامی کی بنیاد پر کوئی تحقیق نہیں کرتا۔ بلکہ موبائل فون یا انٹر نیٹ پر ہی تصویر دیکھ کر ہاں کر دیجاتی ہے چاہے وہ تصویر کسی اور کی ہو۔پھر بیرون ملک لیجانے کا جھانسہ بھی دیا جاتا ہے جبکہ ایک لڑکی دکھا کر دوسری بھی بیاہ دی جاتی ہے۔
چنانچہ ایسے میں نوسربازوں کی چاندی ہوگئی ہے۔جبکہ بعض نوسربازوں نے کچھ رقم یا حصے کے عوض ماں ، بیوی اور بیٹی بن کر خاندان بنایا ہوتا ہے اور مل کر اس انداز میںواردات ڈالتے ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ بھی بے وقوف بن جاتے ہیں اور بعد میں یہ اپنے اپنے طے شدہ حصے کی رقم لے کر جگہ چھوڑ دیتے ہیں اورنئے شکار کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔
یہ نوسر باز خاندان کبھی لڑکا دکھا کر لڑکی والوں کو لوٹ لیتے ہیں اور کبھی لڑکی دکھا کر لڑکے والوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ ایسے واقعات میں اضافہ کا صرف اور صرف یہی ایک سبب ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چھوڑ دیا ہے حالانکہ بحیثیت مسلمان ہم سب کا اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ ہر کام کا ایک وقت معین ہوتا ہے خصوصاً پیدائش ، نکاح اور اموات جیسے معاملات پر اللہ پر توکل کرنا ہی ایک بہترین عمل ہے۔
ہاں البتہ والدین کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد رشتہ طے کرنے کی بجائے پوری طرح جانچ پھٹک ضرور کریں اور دوسرے رشتہ تلاش کرتے وقت چاہے لڑکے کا ہو یا لڑکی کا شرافت ضرور دیکھی جائے کہ خاندان کون ہے اور یہ لوگ کیسے ہیں۔رہا دولت و امارت کا تعلق تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جیسے اولاد مرد کی قسمت کی ہوتی ہے ویسے ہی رزق لڑکی کی قسمت کا ہوتا ہے۔یہ بات ایک طے شدہ بات ہے جس کی صداقت میں کوئی انکار نہیں۔
صرف معاشی خوشحالی ہی خانہ آبادی کے لیے ضروری اور لازم نہیں۔اگرچہ معیشت کو خانہ آباد ی کاایک لازم جز تو کہا جا سکتا ہے مگر کلی طور پر دولت ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا حل بادشاہوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ مثلا اولاد کا ہونایا نہ ہونا۔ باہمی محبت و الفت،اولاد کی فرمانبرداری۔یہ تمام معاملات پیسے سے حل نہیں ہوتے۔قرآن کریم میں اللہ نے فرمایاہم جسے چاہیں اولاد دیں اور جسے چاہیں محروم رکھیں اور جس کو چاہیں بیٹے دیں اور جسے چاہیں بیٹیاں دیںاور جسے چاہیں دونوں عطا کردیں۔ یہ معاملہ توخالصتاً عطیہ خداوندی ہوتا ہے۔پھر جیسے کہا جاتا ہے کہ رشتے تو آسمانوں پر ہوجاتے ہیں دنیا میں تو صرف تجدید عہد ہی کیا جاتا ہے مگر اب ان سب باتوں پر ہمارا اعتقاد نہیں رہا۔