خودکش بمبار
“میں آٹھ منٹ میں زندہ انسان کی کھال کھینچ لیتا ہوں اس نے بڑ ے سکون سے مجھے دیکھتے ہوئے صاف الفاظ میں بتایا۔
دوبارہ سے میری ریڑ ھ کی ہڈی میں سرد لہر ڈوڑتی چلی گئی ، کوشش کے باوجود میں اپنے آپ کو سکون نہیں رکھ پایا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکن کی آواز محسوس ہو رہی تھی۔ میرے دونوں کانوں کے نیچے والے پور بھی دھڑکن کے ساتھ دھک دھک کئے جا رہے تھے۔میری نظروں کے سامنے انٹرنیٹ کی وہ فلم آ گئی جسے دیکھ کر کئی دنو ں تک میں بے چین اور بے قرار رہا تھا ۔ اس فلم میں افغان طالبان کے ایک رکن کو دکھایا گیا تھا۔ جس نے اسلام کے ایک دشمن کے گلے پر تیر دھار چاقو چلا کر اس کی کھال کو چاورں طرف سے گردن کے اوپر سے الگ کر لیا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منٹوں میں زندہ انسان کی کھال اس طرح سے کھینچ لی جیسے قصاب بکرے کی کھال کھینچ لیتا ہے۔ میں نے کسی قصاب کو بھی زندہ بکرے کی کھال کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا ۔یہاں تو زندہ انسان بغیر کھال کے لٹکا ہوا تڑپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کا کر ب میرے دماغ کے اندر بنے ہوئے بہت بڑے پردے پر بار بار جھما کے کے ساتھ آتا رہا۔ کئی دنوں تک میں سکون کی نیند نہیں سو سکا۔یہ شخص بھی اس طرح کا ایک آدمی تھا۔ ایک خود کش بمبار جو عام طور پر چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں۔ مگر اس کی عمر زیادہ تھی۔
ہوا یہ کہ سی او ڈی بلز کی جانب سے ملیر جاتے ہوئے شاہرا فیصل کےجکشن سے ملتے ہی سرخ بتی پر میں نے عام طریقہ کار کے خلاف گاڑی روک دی۔ ایک عام شکل و صورت کے خوبصورت سے درمیانہ قد کے آدمی نے کھڑکی کے شیشے پر دستک دی۔وہ صورت شکل سے شمالی صوبے سے تعلق رکھنے والا معلوم ہوتا تھا۔ میں نے اسے غور دیکھا، سفید اور کالی داڑھی کے ساتھ بظاہر وہ ایک سمجھدار آدمی لگتا تھا۔ میں نے عادت کے بر خلاف سنٹرل لاک کھول کر اسے اگلی نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ اسلام علیکم کہہ کر تیزی سے نشست پر بیٹھ گیا۔ “وعلیکم السلام ۔ میں ائیر پورٹ جا رہا ہوں ، آپ کہاں جا رہے ہیں۔ میں نے دھیمے سے لہجے میں اس سے سوال کیا۔ “تم دنیا کے راستے پر جا رہے ہوں اس نے بڑے دھیمے لہجے میں پر سکون انداز میں کہا۔ ” میں سمجھا نہیںابھی سمجھاتا ہوں،تم گاڑی آہستہ چلاو۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے گریبان کے بٹن کھول دیئے۔ یہ میرے نجات کا جیکٹ ہے اور شہادت کا راستہ ، تمہاری بھی شہادت کا راستہ یہی ہے۔ بہتر ہے کہ کلمہ پڑھ لو اور اللہ کی طرف جانے کی تیاری کر لو، اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ گاڑی آہستہ چلاو۔ اس نے سختی سے کہا ۔ پھر بتاتا ہوں کہ ہمیں کہاں پہنچنا ہے۔ سر سے نیچے تک میری ریڑ ھ کی ہڈی میں ٹھنڈک دوڑتی چلی گئی ، میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ کہ میرے ساتھ ایسا ہو گا، میں نے گاڑی آہستہ کرلی اور اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کے ساتھ اس کو نظر بھر کے دیکھا۔ اس کی شکل پر بلا اطمینان تھا۔ در حقیقت وہ دبلا پتلا آدمی تھا۔ مگر خود کش جیکٹ پر چادر اوڑھنے کی وجہ سے وہ تھوڑا وزنی سا لگ رہا تھا۔ میں نے پہلی دفعہ اس کے چہرے پر بھر پور نظر ڈالی، وہ چالیس سال سے زائد عمر کا مضبوط جسم کا مالک تھا۔ چہرے پر نو کیلی داڑھی تھی۔ جس کے زیادہ تر بال سیا ہ تھے۔سرخ و سفید رنگت کے ساتھ چوڑی پیشانی کے نیچے دو بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔جس میں سرمہ لگایا گیا تھا۔ اس کا چہرہ بشاشت سے بھر پور اور جاب نظر تھا مگر میرے اندر اس کیلئے نفرت کا جوار بھاٹا سا اُبل پڑا۔
اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کے ساتھ میں نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ “شہید ہونا اچھی بات ہے اور اگر اللہ کے راستے میں جان چلی جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔مگر میرے چار بچے ہیں میرے دو جڑواں بیٹے تو بہت ہی چھوٹے ہیں، میرے مرنے کے بعدان کا کیا ہو گا، کوئی بھی نہیں ہے کہ جو ان کا خیال رکھ سکے، یہ گاڑی وغیرہ میری ضرور ہے لیکن میرے جیسے ڈاکٹر کے پاس بچا ہوا کچھ نہیں ہوا ہے میری بیوی ایک گھریلو عورت ہے ” مجھے اپنی لرزتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
“اچھا تو تم ڈاکٹر ہو” ۔
یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگا پھر بولا کہ جو اللہ تمہیں شہادت کیلئے چن رہا ہے تمہیں اس پر بھروسہ نہیں ہے کہ تمہارے بچوں اور بیوی کا خیال رکھے ۔ تمہارے خیال میں وہ اتنا بے نیاز ہے کہ اسے تمہارے گھر والوں کی فکر نہیں ہو گئی۔ تم کیسے مسلمان ہو۔ ساتھ ہی اس نے کہا کہ ائیر پورٹ کے موڑ سے گاڑی کو واپس شہر کی طرف موڑ کر آہستہ آہستہ چلاؤ، میں بتاوں گا کہ کہاں کھڑا ہونا ہے۔
میرا گلا خشک تھا، جسم پسینے سے شرابور اور دل خوف کے مارے زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اسے اپنی گاڑی میں بٹھانے کی سنگین حماقت پر جیسے میرے دل و دماغ سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آج کل کسی کو بھی لفٹ نہیں دی جاتی ہے۔ خاص کر نا آشنا لوگوں کو۔ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سارے اصول از بر یاد مجھے مگر میں پھر بھی اسے لفٹ دے بیٹھا ۔مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ کہ یہ خود کش مجاہد کس جگہ پر پہنچنا چاہتا ہے۔ کسی اسکول کے سامنے ، کسی پولیس اسٹیشن کے ساتھ ، رینجر اور پولیس کی کسی موبائل کے اوپر یا اس کا ٹارگٹ کوئی ایسی مارکیٹ تھی جہاں بے شمار لوگ موت کے گھاٹ اُتر جائیں اور میڈیا کو زبر دست پروپیگنڈے کا موقع مل جائے۔ ہر صورت میں میری موت یقینی تھی۔ایسی موت کا نہ میں نے کبھی سوچاتھا اور نہ اس کی تیاری تھی۔ مجھے اپنے ہوش و حواس بر قرار رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہو رہا تھا۔
اب تک ملک بھر میں جتنے بھی خود کش حملے ہوئے ان کا یہی انداز تھا۔ لڑکیوں کے اسکول ، پولیس کے تھانے ، فائیو اسٹار ہوٹل ، غیر ملکی سفارت خانے ، پریس کلب، فوجیوں کی تنصیبات ، شیعوں ، سنیوں اور مزاروں کے مذہبی اجتماعات یا بازار جہاں زیادہ سے زیادہ اموات ہو سکے ، میں ان سر گرمیوں کے خلاف تھا، مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں، سب بے بس وبےکس تھے، اور ہماری طرح سرکار بھی بے بس تھی، ایسا لگتا تھا جیسے حکمرانی نام کی کوئی چیز نہیں ہے، پورا ملک دہشت گردی کی چراگاہ بن کر رہ گیا تھا۔ میں نے تھوڑی دیر سوچ کر بڑی لجاجت کے ساتھ کہا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں جو نہایت شرافت اور ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرتا ہوں ۔ میں بے شمار لوگوں کا مفت علاج کرتا ہوں ۔ نہ کسی مریض سے ناجائز فیس وصول کرتا ہوں اور نہ ہی دوائیں بنانے والی کمپینوں کے خرچے پر عیاشی کرتا ہوں ، اور نہ ہی اپنے مریضوں کو بڑے پرائیوٹ اسپتالوں میں بھیج کر کمیشن کی خیرات وصول کرتا ہوں ، نہ ہی میرا کسی لیبارٹری والے سے معاہدہ ہے،کہ میں اپنے مریضوں کو ضرور تمہارے پاس ضروری اور غیر ضروری ٹیسٹ کروانے کیلئے بھیج کر پیسے بٹورو گا۔ کچھ خاندانوں کی کفالت کی ذ مہ داری بھی میری ہے،۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا بے نیاز نہیں۔۔
خدا نہیں اللہ ۔۔۔اللہ کہو۔ اس نے مجھے بولتے ہوئے ٹوک دیا، “جو بہتر۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ بے نیاز نہیں ہے، اور یقیناً ان سب کے لیے اور میرے خاندان کیلئے کچھ نہ کچھ اسباب پیدا کر دے گا، مگر میرے بھائی کوئی بھی شخص میرے بچوں کی ذمہ داری نہیں لے گا اور نہ ہی ان کو محبت اور شفقت کے ساتھ پالے گا۔آپ جو کہوں میں کرنے کو تیار ہوں مگر اللہ کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ دو جانے دو میری گاڑی لے جاو۔ میں جب تک زندہ رہوں گا، تمہارا احسان مند رہو ں گا، آج کے بعد آپ لوگوں کے کسی کام آسکوں تو وہ کام بھی کروں گا۔ آ پ یقین کر و میرے بعد خاندان تباہ و برباد ہو جائے گا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری آواز اتنی درد بھری ہو جائے گی۔ وہ زیر لب مسکرایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ تم ڈر پوک ہو، مسلمان کو اتنا ڈر پوک نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے جہاں چاہے موت دے تمہاری موت نہیں آرہی ہے ۔ وہ جسے چاہے جہاں چاہے موت دے دے۔ تمہیں اپنی شہادت پر خوش ہونا چاے ناکہ اس طرح سے میری منت اور سماجت کرو۔
مجھے غصہ آگیا شاید ڈیپریشن صورت حال میں غصہ آ جاتا ہے۔ مجھے زندہ رہنے کا شوق ہے مجھے شہید نہیں ہونا ہے، مجھے نہیں مرنا ہے، اللہ کیلئے مجھے چھوڑو اور اگر نہیں چھوڑو گے تو گاڑی کو میں دیوار پر مار دو گا۔ نہ جانے تمہاراکیانشانہ ہے لیکن دیوار سے ٹکرانے سے تمہارا نشانہ بہر حال ضائع ہو جائےگا۔ میرے ساتھ تمہاری بھی موت ہو جائے گی۔ اور تمہاری موت ضروری ہے۔ کیونکہ تم مجھے طالبان مافیا کے پہلے سر غنہ لگتے ہو خود خود کش بن کر آیا ہے۔ ورنہ تم لوگ تو سولہ سترہ یا آٹھارہ سال کے بچوں کے اپنا نشانہ بناتے ہوں ۔ جو معصوم ہوتے ہیں جنہیں زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہے، جنہیں دھوکہ دینا نہیں آتا ہے۔ تم جیسی عمر کے لوگ پہاڑوں میں بیٹھ کر بزدلی کے ساتھ بچوں کو آلہ کار بناتے ہو، انہیں دوسری دنیا میں حوروں کا جھانسہ دیتے ہو اور خود عیش کرتے ہو۔ یہ اچھا جہاد ہے تمہارا ،میں نےغصے سے مگر دھیرے دھیرے کہا تھا۔
” مجھے غصہ نہیں آئے گا”اس نے مسکراتے ہوئے کہا،میں اور میرا ساتھی غصہ نہیں کرتے ہیں۔ ہم لوگ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، ہم نے روسیوں کو کابل سے باہر نکال دیا، ہم امریکہ کو بھی افغانستان سے نکال کر باہر پھینک دیں گے، امریکہ کی حمایت کرنے والوں کو چن چن کر ختم کر دیں گے۔ یہ سب کچھ بہت اطمینان سے ہو گا۔ اگر تم کو گاڑی کسی دیوار سے ٹکرانی ہے تو ضرور ٹکرا دو، میرا مشن تو شہید ہونا ہے وہ ہو جائے گا۔ تم ہلاکت کے بعد کہاں جاو گے، تمہیں پتہ نہیں ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ شہادت بچے جوان
اور بوڑھے کی نہیں ہوتی ہے۔ شہادت تو کسی مقصد کیلئے ہوتی ہے۔مجھے تم سے یہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں کہ میں آج شہید ہونے کیلئے کیوں آیا ہوں تم دنیا داروں کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ تم لوگوں نے جس طرح ذلت کی زندگیوں کو اپنایا ہے گوروں اور اللہ کے دشمنوں کے ہاتھوں سے ذلیل ہو رہےہو تمہیں کیا پتا شہادت کیا ہوتی ہے۔تم ہمیں مافیا کہو یا شدت پسند اور ہمارے بارے میں مغرب کے اس گھٹیا پروپیگنڈے کو پھیلاؤ کہ ہم حوروں کیلئے لڑرہے ہیں ، اور لڑکوں کو، حوروں کا جھانسہ دے رہے ہیں ۔ مگر سب کو پتہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اللہ کیلئے جنگ کر رہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے، کہ ہم یہاں بھی جیت رہے ہیں اور وہاں پر بھی جیت رہے ہیں، ہماری شہادت کے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے، ان کیلئے جو یہاں رہ جائیں گے۔ اور ہمارے لیے بھی جو وہاں چلے جائے گئے، مجھے کالج کے زمانے کے ڈائی لوگ یاد آگئے تھے۔ مگر مجھے یہ کہنےمیں کوئی عار نہیں ہے۔ کہ اس کے لہجے میں سکون تھا، اور غضب کا اعتماد اور اس کے چہرے پر کوئی نفرت نہیں تھی۔ درحقیقت یہ سب کچھ اس کے مسکراتے ہوئے بڑے نپے تلے انداز میں آہستہ آہستہ کہا تھا۔ میں نے سوچا تھا۔ کہ یہ شخص ضرور کسی خاص مشن پر نکلا ہے مجھے موت سامنے نظر آنے لگی تھی۔
میرے ذہن نے کام کرنا شروع کر دیا، مجھے پتہ تھا۔ کہ آگے ٹیپو سلطان روڑ تک کوئی جنکشن نہیں ہے لہٰذا گاڑی اسی طرح سے چلتی رہے گی۔ میں نے سوچا کہ میں گاڑی یکایک روک دوں اور باہر نکل کر بھاگ جاو،اگر اس جہادی نے اپنے آپ کو اُڑا بھی لیا تو شاید میں بچ جاو گا۔ اگر اس نے کسی جگہ گاڑی رکوا کر خود کو اُڑا لیا تو پھر شاید کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ اس شخص سے بات چیت بھی جاری رکھنی چاہیے شاید میں اسے قائل کر سکوں کہ وہ مجھے چھوڑ دے۔
آپ کا یقین اپنی جگہ پر شاید درست ہو”میں نے یہ الفاظ کہے تھے کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی ۔ کچھ لمحوں کیلئے میں نے سوچا کہ جیسے ہی وہ فون سے بات کرنے کیلئے بٹن دبا ئے گا بم پھٹ جائے گا۔ آج کل اسی طرح سے ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا یہ استعمال نیا تھا۔ جلسوں میں اسٹیج کے نیچے، کسی بازار میں کسی اسکوٹر پر بم فٹ کر دیا جاتا۔جس کے ساتھ موبائل فون لگا ہوتا ہے۔ جس وقت دھماکہ کرنا ہو فون کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہاں بھی یہی ہو، مگر ایسا نہیں ہوا ۔ اس نے فون پر دھیمے لہجے میں پستو میں مختصر بات کی۔
ہم لوگ اب پاکستان ائیر فورس بیس کے پاس پہنچ گئے تھے۔ اور غیر ارادی طور پر ایکسی لیٹر پر میرا دباو بڑھ گیا اور گاڑی تھوڑی تیز ہو گئی۔ ” گاڑی آہستہ چلاو”اس نے دھیرے سے کہا۔ میں نے ایکسی لیٹر پر دباو کم کر دیا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ: میں آپ کی ہمت اور بے خوفی کا معترف ہو گیا ہوں ۔ مگر ایک بار کہہ رہا ہوں کہ اللہ کے لیے مجھے گاڑی سے اُتار دیں اور گاڑی جہاں بھی لے جانی ہے لے جائیں ، میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔ ” اللہ کی راہ میں جو نکلتے ہیں وہ بے خوف ہو جاتے ہیں ہم صرف اللہ سے ڈرتے
ہیں، کسی سپر طاقت سے نہیں۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے یہ صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو انصاف اور اللہ کے راستے پر ہیں “اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“مگر اللہ کی راہ میں جان دینے والے لوگ معصوم عورتوں اور بچوں کی جانیں کیوں لیتے ہیں ، یہ کوئی انصاف نہیں ہے اور اللہ کا حکم بھی نہیں ہے کہ عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جائے جو بے چارے کاموں کے سلسلے میں گھر سے نکلتے ہیں اور واپس ان کی لاشیں لائی جاتی ہیں ” میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
یہ جنگ ہے اور جنگ میں یہی ہوتا ہے جب وہ حملہ کرتے ہیں زمین پر ہتھیاروں سے اور جب بم برساتے ہیں ہم لوگوں پر تو وہ صرف نشانہ دیکھتے ہیں، ان معصوموں کو نہیں دیکھتے ہیں ، جن کی جان چلی جاتی ہیں “اس کی آواز میں درد اور غصہ دونوں واضح تھا۔
” مگر وہ اللہ کیلئے نہیں لڑ رہے ہیں ، آپ اللہ کیلئے لڑ رہے ہیں ، آپ میں اور ان لوگوں کی جنگ میں فرق ہونا چاہیے ۔ وہ باطل ہیں آپ حق ہیں ،وہ جھو ٹے ہیں،آپ سچ ہیں ، ان کا مطعع نظر دنیا ہے آپ کی منزل دین ، پھر یہ کہ وہ اپنے لوگوں کو نہیں مارتے ہیں ان کا نشانہ بھی
مسلمان بن رہے ہیں اور آپ کا نشانہ بھی مسلمان بن جاتے ہیں ، دونوں میں کوئی فرق تو ہونا چاہیے “میں نے بہت احتیاط سے ان جملوں کی ادائیگی کی۔
گاڑی کا رساز کے موڑ سے آگے گزر چکی تھی ، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ شخص کیا کر رہا ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ جنگ صرف جنگ ہوتی ہے۔ اور جنگ کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور دونوں جانب سے جنگ میں یہی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہ بھی ہم نے امریکیوں سے سیکھتا ہے اس وقت سیکھا ہےجب روس کے خلا ف جنگ میں وہ ہمارے ساتھ تھے ۔ میں آٹھ منٹ میں انسان کی کھال کھینچ لیتا ہوں۔انسان زندہ رہتا ہے مگر اس کی کھال باہر آجاتی ہے ۔ وہ مجھے ہمارے امریکی دوست نے سکھایا تھا۔ ہم لوگوں کی تربیت کی تھی اس نے۔ سب اسے ڈائمنڈ کہتے تھے برادر ڈائمنڈ ، نہ جانے اس کا اصلی نام کیا تھا۔ وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ ہم لوگ روسی سپاہیوں ، افغانستان میں موجود روسی شہریوں یا ان کے جاسوسوں کو اغوا کرتے پھر انہیں لٹکا کر ان کی کھال کھینچ لیتے تھے۔اور بغیر کھال کے زندہ آدمی اس کو کابل کی سڑکوں پر پھینک دیتے تھے ۔ یہ ایک غیر انسانی فعل ہے مگر اس کا مقصد دشمن کو خوفزدہ
کرنا ہے اسی طرح سے جس شہر،محلہ اور گاؤں کےلوگ ہمارے خلاف ہوتے ہیں ہم وہاں کےمشہور لوگوں کو پکڑ کر ان لوگوں کو پکڑ کر انکی گردنیں کاٹ کر ان کے جسم اور گردن کو شہر کے چوک میں لٹکا دیتے۔ اس کے بعد لوگ خاموشی سے ہمارے سامنے سر جھکا دیتے، وہی کرتے جو ہم چاہتے تھے۔یہ موجود ہ زمانے کی جنگی حکمت عملی ہے یہ نیا انداز ہے جنگ کرنے کا ، نیا طریقہ ہے دشمنوں سے نمٹنے کا”۔ یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوا کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔”ایک دن پانچ روسی فوجی اور ان کے خاندان کے دو شہری پکڑے گئے اور مجھ سے کہا گیا تھا کہ ان میں سے ایک کی کھال کھینچنی ہے یہی میرا متحان تھا۔ ان کے ہاتھ پیر باندھ کر کھڑا کیا گیا۔ پھر ان میں ایک کو میں نے اپنی مرضی سے چنا اور پھر ان کے سامنے اس زندہ آدمی کو لٹکا دیا اور اس کی گردن کے نیچے سے اس کے کھال کھینچ دی میں نے ۔ جیسے قصاب بکرے کی کھال کھینچتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ دنبہ یابکرا مرا ہوتا ہے مگر یہ زندہ تھے۔ دس بارہ منٹ لگے ہو گے مجھے ،ان کی شکل دیکھنے لائق تھی۔ ایک تو فوراً مر گیا وہ دونوں اور بقیہ لاشیں ہم نے روس پہنچا دی تھیں۔ یہی طریقہ تھا دشمنوں میں دہشت پھیلا نے کا اور اسی طریقے سے روسی بھاگے تھے افغانستان سے یہاں بھی یہی کریں ہم لوگ کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کتنے معصوم مرتے ہیں اور کتنے مجرم،مقصد تو امریکیوں اور ان کے پٹھوؤں کو نکالنا ہے یہی کریں گے،اور ایسا ہی پاکستانی حکومت کے کرتو توں کی وجہ سے پاکستانیوں کے ساتھ بھی یہی کرنا پڑ رہا ہے ۔
میرے دل میں شدید نفرت کا جوار بھاٹا سا اُبلا اور سارے جسم پر رعشہ سا طاری ہو گیا۔ جنگل میں یہ سوچ نہیں ہوتی ہے جانور جانور کے ساتھ یہ نہیں کرتا ہے جو انسان انسان کے ساتھ کرتا ہے یہی کچھ اسرائیلیوں نے فلسطینوں کےساتھ کیا راتوں کو گولیاں چلا کر معصوم بچوں اور عورتوں کی جانہیں لی۔ زبر دستی زمین خالی کرا کر اپنے گھر بسا لئے ، خان یونس کی داستان پرانی نہیں ہے اس رات نہتے فلسطینوں کوان کے گاوں میں گھس کر قتل کیا گیا۔ یہ صہیونیوں کا ٹولہ تھا جس نے نہ بچے چھوڑے نہ عورتیں ، نہ بوڑھوں کو بخشا اور نہ جوانوں کو زندہ رہنے دیا۔اسرائیل کی مملک بنانے کیلئے نہ جانےایسے کتنے گاوں، دیہات تا راج کر دئیے گئے، انہیں بے دخل کیا گیا ، لاشوں کے ڈھیر بنائے گئے اور سینی کاگ کی عمارتیں کھڑی کی گئیں ، یہی کچھ امریکیوں نے وتینا م اور کمبوڈیا میں کیا تھا۔
اور افغانستان کی جنگ میں مجاہدوں کو یہی سکھایا تھا کہ کس طرح روسیوں کوخوف زدہ کرنا ہے۔ اور اب ان کے سکھائے ہوئے مجاہدین پاکستانیوں کے ساتھ یہی کر رہے ہیں ۔
شہریوں میں بم پھوڑ رہے ہیں۔ سر تن سےجدا کرتے لاشیں لٹکا رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنے کیے کی سزا مل رہی ہے ، میرے ذہن میں خیالات کے طوفان اُٹھ رہے تھے۔ ہم لوگ شاہراہ قائدین کےموڑ سے آگے بڑھ گئے تھے، مجھے خیال آیا کہ کہیں وہ کانٹی نینٹل ہوٹل یاگورنر ہاوس یا وزیر اعظم ہاوس پر جا کر نہیں پھٹنا چاہتا۔ ایک بار پھر خوف نے میرے پورے جسم کا محاصرہ کیا ، عائشہ باوانی اسکول کے آگے جناح ہسپتال کے موڑ سے اس نے گاڑی واپس شاہراہ فیصل پر موڑ نے کو کہا۔ دم بھر کیلئے میرے ذہن میں آیا کہ گاڑی موڑتے وقت چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر چھلانگ گلا دوں ۔ گاڑی جس طرف جاتی ہے چلی جائے،اس طرح سے میری جان بچ جائے گی۔میں نے یہ سوچتے ہوئے گاڑی کو آہستہ کیا۔ اتنی دیر میں اس کے فون کی گھنٹی دوبارہ بج اُٹھی۔فون پر اس نے مشکل سے دو منٹ بات کی ، اس دوران میں گاڑی موڑ کر دوبارہ ائیر پورٹ کی طرف سفر شروع کر چکا تھا۔ اس نے بھر پور نظر مجھ پر ڈالی اور دھیرے سے کہا۔ تم شہید ہونے کو تیار ہو نا، کلمہ پڑھنے کا وقت آگیا ہے اور ایک دن ہم سب کو اسی طرف واپس جانا ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو شہادت کے مرتبے ہر فائز ہوتے ہیں ان کیلئے اللہ تعالیٰ نے وعدے کیے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے چھوٹے نہیں ہوتے ہیں۔ اس کی آواز میں غضب کا ٹھہراو اور اعتماد تھا۔
” نہیں میں مرنے کو تیار نہیں ہوں، مجھے نہیں مرنا ہے میں مرنا نہیں چاہتا ہوں۔ ایک ایسی بے کار کی جنگ میں جس کا سر ہے نہ پیر، جو کوئی بھی نہیں جیتے گا،اللہ کیلئے مجھے چھوڑ رو، مجھ ہر رحم کرو، میرے بچوں پر رحم کرو۔”مجھے اس طرح یاد ہے کہ یہ سب کچھ میں نےروتے ہوئے بے اختیار ی کے ساتھ چیخ چیخ کر کہا تھا۔
بڑے بزدل ہو تم۔ تمہارے جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی آج دنیا میں مسلمانوں کا کوئی مقام نہیں ہے تمہارا تو دین میں بھی کوئی مقام نہیں ہے تم ان بچوں کی فکر کر رہے ہوں، جو تمہیں اللہ نے دیے ہیں ، تمہیں یہ بھروسہ نہیں ہے کہ اوپر والا ہی ان کا خیال بھی رکھے گا۔ تمہارے جیسے ہی مسلمان ہیں ، جنہوں نے جہاد کا، دین کا، رسول کا، اللہ کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ تمہیں تو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے تمہیں چنا ہے ابھی فون پر مجھے خبر ملی ہے م چیف منسٹر ائیر پورٹ سے نکلنے والا ہے جیسے ہی وہ سڑک کے دوسری طرف پہنچے گا میں اپنے کو تم اور تمہاری گاڑی سمیت تباہ کر دوں گا۔ وہ امریکہ کا یار جہنم پہنچے گا۔ تم اور میں جنت میں پہنچ جائیں گے۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے ۔ ” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔اس کے چہرے پر بلا کا سکون تھا اور آنکھوں میں اطمینان ،اس کی شکل دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں کر سکتا تھا۔ کہ یہ شخص زندہ انسانوں کی کھال کھینچ لیتا ہے، بکرے کی طرح انہیں ذبح کر سکتا ہے۔ ملبے میں زندہ دفن ہو سکتے ہیں، یہ سارے خیالات میرے ذہن میں ایک تیز ریل گاڑی کی طرح سے چھک چھک کرتے چلے گئے۔
میری آنکھوں کے سامنے میری بیوہ بیوی کا آنسووں بھرا چہرا آگیا، میرے بچے آگئے۔ ننھے ننھے یتیم بے یار مددگار نہ جانے کیسی گزرے گی، میرے دل میں آیا کہ میں گاڑی دیوار سے ٹکرادوں ، یا روک کر گاڑی سے اتر بھاگ جاوں ، میں سوچ ہی رہا تھا کہ پھر اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے اسلام علیکم کہہ کر فون اپنے کانوں سے لگا لیا۔ میں نے کن انکھیوں سے اُسے دیکھا وہ سامنے دیکھ رہا تھا۔ مجھے پہلی دفعہ ایسا لگا جیسے اس کے چہرے ہر مایوسی ہے، اس نے فون بند کیا اور بغیر کچھ بولے سامنے غور سے دیکھنے لگا۔ گاڑی تھا خان کا پل پار کرکے نیچے اُتر رہی تھی۔ سامنے بس اسٹاپ پر پانچ چھ منی بس کھڑی ہوئی تھیں۔ جن میں مسافر اُتر اور چڑھ رہے تھے اس نے یکایک کہا کہ بس اسٹاپ پر گاڑی روک دومجھے پتہ تھا کہ میری ہلاکت کا وقت آگیا ہے ۔ پھر گاڑی کا دروازہ دھڑسے بند ہوا۔ میں نے فوراً آنکھیں کھول دیں ،دیکھا وہ تیزی سے دوڑتا ہوا لانڈھی جانے والی بس میں سوار ہو گیا ہے۔
مجھے ایسا لگا جیسے میں بے ہوش ہو جاوں گا۔ مجھے اپنے آپ پر قابو پانے میں کئی منٹ لگے۔ اس کے بعد میں نے گاڑی پوری رفتار سے بھگا دی۔