منٹو اور شلوار: افسانے پر ایک ادبی اضافہ
اب تمہیں کیا سمجھائیں تم خود پنجاب کے سپوت تھے تم نے اپنی تحریروں میں جب جب عورت کو سکرٹ، ساڑھی پہنائی ہم نے کہا یہ عورتیں تو ہیں ہی آوارہ کوئی یہودن، کوئی بنگالن، کوئی ہندو تو کوئی نورجہاں لیکن شلوار تو ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں پہنتی ہیں ۔حالانکہ میرے معزز جج ساتھیوں نے تمہیں کالی شلوار کے مقدمے میں بری کردیا لیکن ایک سوال جو مقدمے کے دوران تم سے پوچھنا چاہیئے تھا وہ یہ تھا کہ منٹو میاں آپ بار بار شلوار میں کیوں گھستے ہیں۔کالی شلوار کی مرکزی کردار سلطانہ اداس ہے۔ شاید اِس لیئے اُداس ہے کہ بڑے شہر میں تنہا ہے۔ اپنا جسم بیچ کر زندہ ہے۔ بس اُسے ایک دھن ہے کہ کسی طرح ایک کالی شلوار مل جائے تو عزت سے عاشورہ تو ہو سکے۔
منٹو میاں اگر آپ آج وہ کہانی لکھ رہے ہوتے تو سلطانہ اب بھی اداس ہوتی۔ اُسکی زندگی کو بڑے خطرے ہوتے کیونکہ عورت ذات ہے، اکیلی ہے، اوپر سے بیسوا ہے۔لیکن اس کو سب سے بڑا خطرہ اِس لیئے ہوتا کہ عاشورہ منانے کا شوق ہے اور کالی شلوار پہننے پر بھی مصُر ہے۔ کالی شلوار کا شوق ہی اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوتا۔کچھ ایسے لوگ بھی اِس افسانے کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے جنہیں افسانے پڑھنے یا لکھنے کا شوق نہیں ہے۔ وہ کہتے کہ دیکھا ہم نے جو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ عاشورہ منانے والے سب (نعوذبااللہ) سلطانہ کی طرح کی رنڈیاں ہیں۔ عاشورہ منانے والے کہتے کہ منٹو کو کروڑوں مومنین میں صرف ایک بیسوا ہی نظر آئی۔دیکھو عدلیہ تو فرقہ واریت کے چکر میں پڑتی نہیں ہمارے پاس تو اگر کوئی پیش بھی کیا جاتا ہے تو ہم تو یہ ہی سمجھتے ہیں کہ اللہ کا کام ہی کر رہا ہے اور رہا کردیتے ہیں۔ہمیں کالی شلوار پر جو اعتراض تھا وُہ نہ عاشورہ پہ تھا، نہ کالے رنگ پر۔ اگر عتراض تھا تو شلوار پہ تھا۔اب تمہیں کیا سمجھائیں تم خود پنجاب کے سپوت تھے تم نے اپنی تحریروں میں جب جب عورت کو سکرٹ، ساڑھی پہنائی ہم نے کہا یہ عورتیں تو ہیں ہی آوارہ کوئی یہودن، کوئی بنگالن، کوئی ہندو تو کوئی نورجہاں لیکن شلوار تو ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں پہنتی ہیں اب تم کالی سکرٹ کہہ دیتے، کالی ساڑھی یا کالا غرارہ بھی چل جاتا۔ کالی دھوتی بھی کہہ دیتے تو ہم سمجھتے کہ کوئی گاؤں کی الہڑ دوشیزہ صراطِ مستقیم سے ہٹ گئی ہے۔ لیکن شلوار تو نہ صرف ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں بلکہ ہمارے ہمسایوں، ہمسایوں کے ہمسایوں کی بھی مائیں بہنیں، بیٹیاں بھی پہنتی ہیں۔اب یہ کون چاہے گا کہ کہانی تو ایک بیسوا کی پڑھ رہا ہو اور ذہن میں اپنی ماؤں بہنوں کی شلواریں لہرا رہی ہوں۔چلو مانا کہ تم کہتے ہو کہ تمہاری بیسوا سلطانہ ایک اُداس عورت ہے صبح سویرے ریل کی پٹریوں کو دیکھتی ہے پھر اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر اُسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کانٹے کوئی اور بدل رہا ہے۔سلطانہ جو مرضی سوچ لے، رہے گی تو رنڈی ہی۔تم بار بار پوچھتے ہو کہ اس زندہ لاش کی کہانی کو کوئی فحش کیسے سمجھ سکتا ہے۔ کون ہے جو اس کہانی کو پڑھ کر سوچے گا کہ کہیں سے سلطانہ جیسی بیسوا ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ منٹو میاں دلوں کا حال تو وہ قادر مطلق ہی جانتا ہے ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ جب ہم سلطانہ کی کالی شلوار کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں صرف اپنی ماؤں، بہنوں کی شلواریں ذہن میں آتی ہے۔اور بات جب شلوار سے شروع ہو تو وہاں پر نہیں رکتی، ’ کھول دو‘ تک جا پہنچتی ہے