جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے
Written by:Ghulam Rasool
یہ چندسال پہلے کا واقعہ ہے لیکن آج بھی یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔موت کو قریب دیکھ کر جو کیفیت ہوتی ہے اسے صرف وہ لوگ بیان کر سکتے ہیں جو اس کیفیت سے گزرے ہوں۔ جولوگ ہوائی سفر سے لطف اندوز ہو چکے ہیںوہ یہ جانتے ہوںگے اور جو قارئین اس سے قبل ہوائی سفر سے ناواقف ہیں، ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ جب ہوائی جہاز ون وے پر ٹیک آف کے لیے دوڑتا ہے تو تمام مسافروں کو سیٹ بیلٹ باندھنے کا کہا جاتا ہے اور جب جہاز ایک خاص بلندی پر پہنچ جائے تو آپ کو سیٹ بیلٹ کھولنے کی اجازت ہوتی ہے۔ تب جہاز کا عملہ کھانا، چائے یا کولڈڈرنکس سے مسافروں کی تواضع کرتا ہے۔اُس دن بھی جہاز کا عملہ مسافروں کو چائے دے کر فارغ ہی ہوا تھا کہ اچانک جہاز اپنی بلندی کھوتا ہواکئی سو فٹ نیچے آگیا۔ کسی مسافر نے کہا کہ ایئر پاکٹ تھی جس کی وجہ سے جہاز یک دم نیچے گیا۔ کسی نے کچھ اور کسی نے کچھ کہا لیکن مسافر جو اس سب کے لیے قطعی تیار نہیں تھے اور ان کے سیٹ بیلٹ بھی کسے نہیں تھے،جہاز کی چھت کے ساتھ جاٹکرائے۔ چائے کی پیالیاں ایک دوسرے پر جاگریں اور تمام مسافر پریشانی اور غیریقینی صورتحال سے دوچار تھے۔اتنے میں پائلٹ نے اطلاع دی کہ اب سب ٹھیک ہے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ لیکن ابھی اس بات کو چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ جہاز ایسے تھرتھرانا اور اوپر نیچے ہلنا شروع ہوگیا جیسے کوئی بچہ کھلونے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اوپر نیچے کر رہا ہو۔ مسافروں کا سامان اُن کے سر پر گرنا شروع ہوگیا۔ جن لوگوں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی تھی، وہ دوبارہ جہاز کی چھت سے جا ٹکرائے۔ میری چائے میرے ساتھ بیٹھے مسافر پر گر گئی۔ جہاز تھا کہ ٹین کے ڈبے کی طرح تیزی سے زمین کی طرف جارہا تھا۔ عجب قیامت خیز منظر تھا۔ ہر مسافر کی زبان پر کلمہ طیبہ تھا۔ نیچے دور دور تک پہاڑ ہی پہاڑ تھے اور زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔مجھے صاف لگ رہا تھا کہ اب چند لمحوں بعد اس زندگی کا تکلیف دہ انجام ہونے والا ہے۔ میں بھی بآوازِ بلند کلمہ پڑھ رہا تھا۔ میری گناہ آلود زندگی میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔ اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ ہم سب کو اس تکلیف اور آزمایش سے نجات دے۔ خدا خدا کرکے ہوائی جہاز کا زمین کی طرف گرنا ختم ہوا۔ کیپٹن نے جہاز اسلام آباد کے بجائے پشاور میں بحفاظت اُتار لیا اور تمام مسافروں کی جان بچ گئی۔ دراصل جہاز ایک ہوائی طوفان میں پھنس گیا تھا جس سے تمام مسافروں اور عملے کا بحفاظت نکلنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔یہ سچا واقعہ اسلام آباد کے قریب مارگلہ کی پہاڑیوں میں گرنے والے ایئربس ۷۴۷ والے حادثے سے چند ماہ پہلے پیش آیا۔ تب ٹی وی چینلوں پر تباہی کے ہولناک مناظر دیکھ کر بہت افسوس ہوا تھا اور ساتھ خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ اگر اُس دن ہمارا پائلٹ ہوش و حواس قائم نہ رکھتا اور درست فیصلہ نہ کرتا تو شاید ہم سب مسافروں کا بھی یہی حال ہوتا۔ کسی نے سچ کہا ہے
! ….جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے