حجاج بن یوسف
عراق پر 20 برس حکومت کرنے کے بعد 54 برس کی عمر میں حجاج بن یوسف بیمار ہوا ہے اس کے معدے میں بے شمار کیڑے پیدا ہو گئے تھے اور جسم کو ایسی سخت سردی لگ گئی تھی کہ کہ آگ کی بہت سی آنگھیٹیاں بدن سے لگا کررکھ دی جاتی تھیں پھر بھی سردی میں کمی نہیں ہوتی تھی ـ جب زندگی سے نا امیدی ہو گئی تو حجاج نے گھروالوں سے کہا کہ مجھے بٹھا دو اور لوگوں کو جمع کرو ـ لوگ آئے تو اس نے حسب عادت ایک بلیغ تقریر کی ، موت اور سختیوں کا ذکر کیا ، قبراور اس کی تنہائی بیان کی ، دنیا اور اس کی بے ثباتی یاد کی ـ آخرت اور اس کی ہولناکیوں کی تشریح کی اپنے گناہوں اور ظلموں کا اعتراف کیا ـ پھر یہ شعر اس کی زبان پر جاری ہو گئے ـ
إن ذنبي وزن السماوات والأرض
وظني بربي أن يحابي
میرے گناہ آسمان اور زمین کے برابر بھاری ہیں ـ مگر مجھے اپنے خالق سے امید ہے کہ رعایت کرے گا ـ
فلئن منّ بالرضا فهو ظني
ولأن مر بالكتاب عذابي
اگر اپنی رضامندی کا احسان مجھے دے تو یہی میری امید ہے ـ لیکن اگر وہ عدل کرکے میرے عذاب کا حکم دے ـ
لم يكن منه ذاك ظلماً وبغياً
وهل يهضم رب يرجى لحسن الثواب ـ
تو یہ اس کی طرف سے ہر گز ظلم نہیں ہو گا کیا یہ ممکن ہے کہ وہ
رب ظلم کرے جس سے صرف بھلائی کی توقع کی جاتی ہے ـ
پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا ـ موقعہ اس قدر عبرت انگیز تھا کہ مجلس میں کوئی بھی شخص اپنے آنسو روک نہ سکا ـ
اس کے بعد اس نے اپنا کاتب طلب کیا اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کو حسب ذیل خط لکھوایا ـ
كنت أرعى غنمك، وأحوطها حياطة الناصح الشفيق برعية مولاه، فجاء الأسد -قصده بالأسد ملك الموت- فبطش بالراعي ومزق المرعى، وقد نزل بمولاك ما نزل بأيوب الصابر، وأرجو أن يكون الجبار أراد بعبده غفراناً لخطاياه، وتكفيراً لما حمل من ذنوبه.
” امابعد! میں تمہاری بکریاں چراتا تھا ایک خیرخواہ گلہ بان کی طرح اپنے آقا کے گلے کی حفاظت کرتا تھا ، اچانک شیر آیا ، گلہ بان کو طمانچہ مارا اور چراگاہ خراب کر ڈالی ـ آج تیرے غلام پر وہ مصیبت نازل ہوئی ہے جو ایوب پر نازل ہوئی تھی ـ مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح اپنے بندے کی خطائیں بخش اور گناہ دھونا چاہتے ہیں ـ “پھر خط کے آخیر میں یہ شعر لکھنے کا حکم دیا ـ
إذا ما لقيت الله عني راضياً
فإن شفاء النفس فيما هنا لك
اگر میں نے اپنے خدا کو راضی پایا توبس میری مراد پوری ہوگئی
فحسبي بقاء الله من كل ميت
وحسبي حياة الله من كل هالك
سب مرجائیں مگر خدا کا باقی رہنا میرے لیے کافی ہے ! سب ہلاک ہوجائیں مگر خداکی زندگی میرے لیے کافی ہے ـ
لقد ذاق هذا الموت من كان قبلنا
ونحن نذوق الموت من بعد ذلك
ہم سے پہلے یہ موت چکھ چکے ہیں ، ہم بھی ان کے بعد موت کا مزہ چکھیں گئے
فإن مت فاذكرني بذكر محبب
فقد كان جماً في رضاك مسالكي
اگر میں مر جاؤں تو مجھے محبت سے یاد رکھنا ، کیونکہ تمہاری خوشنودی کے لیے میری راہیں بے شمار تھیں ـ
وإلا ففي دبر الصلاة بدعوة
يلقى بها المسجون في نار مالك
یہ نہیں تو کم ازکم ہر نماز کے بعد دعامیں یاد رکھنا جس سے جہنم کے قیدی کو کچھ نفع پہنچے
عليك سلام الله حياً وميتاً
ومن بعدما تحيا عتيقاً لمالك
تجھ پر ہر حال میں اللہ کی سلامتی ہو ـ جیتے جی ، میرے پیچھے اور جب دوبارہ زندہ کیاجاؤں ـ
حضرت بصری عیادت کو آئے تو حجاج نے ان سے اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا ـ حسن نے کہا ” میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوکاروں کو نہ ستا مگر افسوس تم نے نہیں سنا ـ”حجاج نے خفا ہو کر جواب دیا ـ” میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے دعا کرو ، میں تم سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ خدا جلد از جلد میری روح قبض کرے اور اب زیادہ عذاب نہ دے ”
اسی اثباء میں ابومنذر یعلی بن مخلد مزاج پرسی کو پہنچے ـ
” حجاج ـ ! موت کے سکرات اور سختیوں پر تیرا کیا حال ہے ؟”
انہوں نے سوال کیا ـ
” ائے یعلٰی ! ” حجاج نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ” کیا پوچھتے ہو ، شدید مصیبت ! سخت تکلیف ! ناقابل بیان الم ، ناقابل برداشت درد! سفر دراز! توشہ قلیل ! آہ ! میری ہلاکت ! اگر اس جبار و قہار نے مجھ پر رحم نہ کھایا ! ”
یہ سن کر ابومنذر نے کہا ” ائے حجاج! خدا اپنے انہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں ـ اس کی مخلوق سے بھلائی کرتے ہیں ـ محبت کرتے ہیں ـ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون اور ہامان کا ساتھی تھا کیونکہ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی ، تو نے اپنی ملت ترک کر دی تھی ـ راہ حق سے کٹ گیا تھا ـ صالحین کے طور طریقوں سے دور ہو گیا تھا تو نے نیک انسان قتل کر کے ان کی جماعے فنا کر ڈالی ، تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا ، افسوس تو نے خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی ـ تو نے خون کی ندیاں بہا دیں ، جانیں لیں ، آبروئیں برباد کیں ، قہر و جبر کی روش اختیار کی ـ تو نے نہ اپنا دین ہی بچایا ، نہ دنیا ہی پائی ـ تونے خاندان مروان کو عزت دی ـ مگر اپنا نفس ذلیل کیا اور ان کا گھر برباد کیا ، مگر اپنا گھر ویران کر لیا ، آج تیرے لیے نہ نجات ہے نہ فریاد ، کیونکہ تو آج کے دن اس کے بعد غافل تھا ، تو اس امت کے لئے مصیبت او رقہر تھا ، اللہ کا ہزار ہزار شکرہے کہ اس نے تیری موت سے امت کو راحت بخشی اور تجھے مغلوب کر کے اس کی آرزو پوری کر دی ـ ”
راوی کہتا ہے کہ حجاج یہ سن کر مبہوت ہو گیا ، دیر تک سناٹے میں رہا ، پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی ـ آنسو ڈبڈبا آئے اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ ” ائے الہٰی ! مجھے بخش دے ، کیونکہ لوگ کہتے ہیں تو مجھے نہیں بخشے گا ـ پھر یہ شعر پڑھا :
رب إن العباد قد أيأسوني
ورجائي لك الغداة عظيم
الٰہی ! بندوں نے مجھے ناامید کر ڈالا ـ حالانکہ میں تجھ سے بڑی امید رکھتا ہوں –
یہ کہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں ـ ”
اس میں شک نہیں ، رحمت الہٰی کے بے کنار وسعت دیکھتے ہوئے اس کا یہ اندازا طلب ایک عجیب تاثیر رکھتا ہے اور اس باب میں بے نظیر مقولہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت حسن بصری سے حجاج کا یہ قول ذکر کیا گیا تو وہ پہلے متعجب ہوئے ـ” کیا واقعی اس نے یہ کہا ـ” ہاں ! اس نے ایسا ہی کہا ہے ” فرمایا ” تو شاید ! یعنی اب شاید اللہ اسے بخش دے ـ
البدایة والنہایة ج 9 ص 138