سنے سنے سے جملے
” اس کو کسی ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں داخل کرواویاتاکہ اس کا دماغ ٹھکانے آئے،وہاں جب بھینسوں کو لگنے والے دو دو بالشت کے موٹے موٹے انجکشن لگیں گے نا تو عقل آئے گی ، لگ پتا جائے گا کہ گھر اور گھر والے کیا نعمت ہیں۔
حد ہوتی ہے ضد اور ڈھٹائی کی،انٹر بورڈ میں ٹاپ تھری میں نام آیا ، گھر کے باہر میڈیا والے کھڑے ہیں کہ کسی طرح ” فیوچر ڈاکٹر” کے درشن ہو جائیں اور ان کے چار قیمتی لفظ سن کر وہ خبر بنا سکیں اور یہاں جناب کی ڈیمانڈ دیکھو کہ نہیں مجھے تو لٹریچر پڑھنا ہے ، مصنف بننا ہے ۔۔
کیا راتیں اسی لیے کالی کی تھیں ؟ کیا اسی لیے زولوجی اور بوٹنی کی موٹی موٹی اصلاحات رٹی تھیں ؟ اگر یہی چاند چڑھانے تھے تو ” نیماٹوڈا ” اور” آرتھوپوڈا ” جیسی عجیب الخلقت چیزیں گھول گھول کر پینے کی کیا ضرورت تھی ہاں؟کیوں پھر تیری مہنگی فیس بھری ہم نے ؟ کیوں ان سب کتابوں کو بوجھ لادا اپنے اوپر؟۔
کیا اسی لیے کہ آج جب ایس ایم سی اور ڈی ایم سی جیسے میڈیکل کالج کے دروازے تمھارے لیے کھلے ہیں تو تمھیں یہ “ادبی ” قسم کا دورہ پڑے اور تم لٹریچر پڑھنے چل پڑو ۔
” بولو جواب دو”آپ لوگ سننا چاہتے ہیں نا کہ کہ کیوں وہ سب کیا میں نے، کیوں راتوں کو نیند بھری آنکھوں میں سرمے اور کاجل کی جگہ کالی کڑوی کافی انڈیلی ، رٹے مار مار کر دماغ کو جام کرلیا، تو مجھے جواب دیں کہ کیا آپ لوگ مجھے اس لیے ڈاکٹر نہیں بنانا چاہتے کیوں کہ خاندان میں ڈاکٹر لڑکیوں کے رشتے آسانی سے مل جاتے ہیں(واہ خاندان ہے کہ دکان یا پھر کوئی تجارتی منڈی کہ جس پراڈکٹ کی ویلیو زیادہ اس کے طلبگار بھی زیادہ) ، کیا مجھے ڈاکٹر بنانا آپ کی ذاتی خواہش تھی ؟۔
نہیں ہرگز نہیں بلکہ مارکیٹ ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے آپ نے یہ سب کیا۔ کب پوچھا آپ نے مجھ سے کہ میں کیا بننا چاہتی ہوں ؟ ، کیا شوق ہے میرا ؟ ، خدا نے مجھے کیا خاص صلاحیت دی ہے ؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ میرے کس مضمون میں کتنے نمبر آئے ہیں اور ماضی میں کن گریڈز میں پاس ہوتی رہی ہوں ۔۔ نہیں معلوم نا ؟؟
ٹاپ تھری کا بھی صرف بارہویں کلاس کی حد تک ہی پتا ہے شاید آپ کو ۔
معاف کیجئے گا آپ لوگ مجھے ڈاکٹر اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ چچا کے” بڑے والے کو ڈاکٹر لڑکی پسند ہے ۔ تایا کا منجھلا بیٹا سرکاری ملازم بیوی چاہتا ہے اور خالہ ان کو “چاند سی ڈاکٹرنی ” چاہیےتاکہ سٹیٹس بڑھے۔
آج آپ مجھے پلیز یہ مت بتائیں کہ آپ کا خواب ہے میں ڈاکٹر بنوں خدا کی قسم اگر ایسا ہوتا تو میں ٹاپ آف دی ٹاپ سٹوڈنٹ ہوتی اپنے ماں باپ کی خواہش کے احترام میں ۔۔
لیکن میں کسی تایا چچا یا خالو کے بیٹے یا خاندان میں رشتے کی خاطر اپنا شوق قربان نہیں کر سکتی مجھے لٹریچر پڑھنا ہے لکھاری بننا ہے اپنا کنواں قلم سے کھودنا ہے تاکہ قوم میں شعور کاشت کر سکوں ۔
پلیز خدا کے لیے میری یہ بات مان لیں ، مجھے میری مرضی کا پڑھنے دیں ۔ پلیز مجھے ساری زندگی کا سکھ دے دیں۔
چلو بھئی اس کو نفسیاتی وارڈ میں داخل کروائو تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے آئے ۔ وہاں پاگلوں میں شعور بیدار کرے گی تو اس کو رشتے داروں کی قدر آئے گی ۔
کڑوا تھا نا ؟ ۔۔۔ہاں کیوں کہ یہ ایک سچائی ہے اور پاکستان کا ۲۰ فیصد نوجوان اسی دکھ اور ڈپریشن کا شکار ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں یا نا کریں ۔۔۔ سچ تو سچ یہ ہی ہے۔۔۔ شاید۔۔۔۔ آپ کا بھی یہی سچ ہو اور شاید میرا بھی