شادی
بلوغت کے بعد بیٹی کی شادی ایک اہم مسئلہ ہے، ہے تو نوجوان بیٹے کی شادی بھی اہم ، کیونکہ دونوں کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بالغ ہونے کے بعد شادی میں تاخیر نہ کی جائے۔ تا ہم مسلمان معاشرے میں نوجوان بیٹی کی شادی کا مسئلہ بہت زیادہ اہم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے پردے کی پابندی ہے، اپنے ابدی محرموں کے علاوہ دوسرے مردوں سے میل ملاقات پر پابندی ہے، فکر معاش سے اسلام نے اسے آزاد رکھا ہے، اس لئے معاشی جدوجہد کی خاطر بھی اسے باہَرجانے اور لوگوں سے میل جول کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اسلام کی ان تعلیمات کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی شادی کی تمام تر ذمہ داری اس کے اولیاء (GUARDIANS)پر ہو، وہی اس کے لیے مناسب بر (شوہر ) تلاش اور شادی کے جملہ انتظامات کا بندوبست کریں۔
والدین کے دل میں اولاد کی محبت، ایک فطری چیز ہے۔ یہ فطری محبت ہی والدین کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی نوجوان بیٹی کے لئے مناسب ترین رشتہ تلاش کریں جو ظاہری اور معنوی لحاظ سے موزوں تر ہو۔ والدین سے زیادہ اولاد کا کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا، چنانچہ وہ شادی کے موقعے پر اپنی خیر خواہی کا حق اس طرح ادا کرتے ہیں کہ بہتر سے بہتر رشتہ تلاش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر اسلامی معاشرے میں شادی کا مسئلہ خیر و خوبی کے ساتھ انجام پا جاتا ہے اور والدین اور اولاد کے درمیان کوئی اختلاف رونما نہیں ہوتا۔
کسی موقعے پر اس فطری داعیے میں کمی کا امکان بھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ والدین بعض دفعہ بیٹی کی خواہش اور جذبات کے مقابلے میں دوسرے عوامل و اسباب کو ترجیح دینا پسند کریں اور یوں نوجوان بیٹی کا مستقبل تاریک ہو جائے۔ ایسا اگرچہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے، تا ہم اس کے وقوع وظہور سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اسلام نے اس کے سد باب کے لئے نہایت واضح ہدایت دے دی ہے، اور وہ یہ کہ اولیاء (ذمہ داران )شادی کرتے وقت بیٹی کی رضا مندی بھی ضرور حاصل کریں ۔ اگر ایک رشتہ بیٹی کو پسند نہیں ہے تو اس کے لئے دوسرا ، تیسرا رشتہ تلاش کریںتاآنکہ وہ راضی ہو جائے یا اس کو قائل کر کے راضی کر لیا جائے۔
والدین کو ایسی جگہ شادی کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے جہاں بیٹی شادی کرنا پسند نہیں کرتی۔ انہیں جبر کے ذریعے سے شادی کرنے سے سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہے۔ حتی کہ اگر والدین بیٹی کی رضا مندی حاصل کئے بغیر جبر و اکراہ کے ذریعے سے اس کی شادی کر دیں تو شریعت نے نوجوان لڑکی کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے، وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے ایسا نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے اس طرح جبراً اپنی لڑکی کا نکاح، اس کی مرضی کے خلاف کر دیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو نکاح فسخ کر والے ۔
(صحیح بخاری کتاب النکاح و دیگر کتب حدیث)
تا ہم کسی نوجوان لڑکی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر گھر سے راہ فرار اختیار کر کے ، کسی عدالت میں یا کسی اور جگہ جا کر از خود کسی سے نکاح رچالے۔ ایسا نکاح باطل ہو گا، وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا، نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت، رضا مندی اور موجودگی ضروری ہے۔
اس اعتبار سے لَوّمیرج (LOVE MARRIAGE) ( محبت کی شادی ) کورٹ میرج
( عدالتی شادیCOURT MARRIAGE ) اور سیکرٹ میرج (خفیہ شادی
SICRET MARRIAGE ) قطعاً ناجائز ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں ان کا
کوئی جواز نہیں ہے۔ ان تینوں صورتوں میں اسلام کی واضح تعلیمات سے انحراف پایا جاتا ہے۔
اسلام کی مذکورہ تعلیم میں بڑا اعتدال و توازن ہے، لڑکی کو تاکید ہے کہ والدین نے اسے پالا پوسا ہے، اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ہے، وہ مستقبل میں بھی جب کہ وہ اپنی نوجوان بیٹی کو دوسرے خاندان میں بھیج رہے ہیں، اس کے لئے روشن امکانات دیکھ رہے ہیں اور اس کی روشنی میں ہی انہوں نے اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا ہے، اس لئے وہ اپنے محسن ، خیر خواہ اور مشفق و ہمدرد والدین کے فیصلے کو رضا مندی سے قبول کر لے۔ دوسری طرف والدین کی لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضا مندی حاصل کئے بغیر اس کی شادی کرنے سے منع کر دیاہے۔ اگر کوئی ولی(GUARDIANS) بالجبر ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فقہاء نے ایسے ولی کو ولی عاضل( غیر مشفق ) قرار دے کر ولی ٔ ابعد کو آگے بڑھ کر اس کی شادی کرنے کی تلقین کی ہے، ولی ٔ ابعد بھی کسی وجہ سے اس کا اہتمام کرنے سے قاصر ہو تو عدالت یا پنجایت یہ فریضہ سر انجام دے گی۔ فقہاء کے اس فیصلے یا تلقین کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی طبرانی اوسط کی یہ حدیث ہے جس کی سند کو حسن قرار دیا گیا ہے:
’ لَا نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ مُرْشِدٍ أَوْ سُلْطَانٍ ‘
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، با ب السلطان ولی … )
’’ ولی مرشد یا سلطان کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔ ‘‘
اس کی دوسری دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے، جس میں ولی کی اجازت کے بغیر کئے گئے نکاح کو باطل کہا گیا ہے ، اس میں آگے یہ الفاظ ہیں :
’فَإِن اشْتَجَرُوْْا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہَا‘
(أبوداود ، ترمذی، ابن ماجہ، بحوالہ ارواء الغلیل ۶؍۴۶۰۔۲۴۳)
’’ اگر ولی آپس میں لڑیں تو اس عورت کا ولی سلطان ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔ ‘‘
اس جھگڑے سے مراد ایسا جھگڑا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اس کے نکاح میں رکاوٹ بن جائیں ۔تو ایسے اولیاء کو عاضل( غیر مشفق اور نااہل) قرار دے کر ولی ٔ ابعد یا سلطان ( قاضی ، یا حاکم مجاز ) کو ولی بنایا جائے گا۔ چنانچہ صاحب سُبُل السَّلام فرماتے ہیں:
’’ اولیاء (GUARDIANS)کے جھگڑے سے مراد ان کا عورت کا نکاح کرنے سے انکار کرنا ہے اور یہی عضل ہے جس کی وجہ سے ولایت، سلطان کی طرف منتقل ہو جائے گی ،اگر ولی ٔ اقرب غیر مشفقانہ رویہ اختیار کرے۔ بعض کہتے ہیں کہ ولایت، ولی ٔ ابعد کی طرف منتقل ہو گی اور سلطان ہر اس عورت کا ولی ہے، جس کا ولی نہ ہو ۔ وہ سرے سے ہی نہ ہو یا اس کے نکاح سے روکنے کی وجہ سے اس کو ولی بننے سے روک دیا گیا ہو، اسی طرح وہ ( ولی ) غیر موجود ہو ۔ ‘‘ ( تینوں صورتوں میں سلطان وقت ولی کے فرائض انجام دے گا۔)
(سبل السلام ۳؍۱۱۶، کتاب النکاح )
اس اعتبار سے جہاں والدین اور نوجوان لڑکی کے درمیان شادی کے مسئلے میں اختلاف ہو ، یا نوجوان لڑکی گھر سے فرار ہو کر کسی آشنا کے ساتھ شادی کر لے۔ اور معاملہ عدالت یا پنچایت میں پہنچے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ لڑکی کا یہ اقدام واقعی والدین کے ناجائز جبریا عضل کا نتیجہ ہے؟ یا لڑکی نا سمجھی، خود سَری اور بغاوت کا مظاہرہ کر رہی ہے؟ اگر پہلی صورت ہے تو یقینا اسے والدین کے ظلم و جبرسے بچا کر اس کی شادی کا ، اور اگر شادی کر چکی ہو تو اس کے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لیکن دوسری صورت میں وہ قطعاً کسی امداد و تعاون کی مستحق نہیں ہے، وہاں والدین کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے تا کہ معاشرہ انتشار سے محفوظ رہے ۔اور اگر اس نے والدین کی رضا مندی کے بغیر از خود کسی سے نکاح کر لیا ہے، جب کہ والدین اس کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں تو ایسے نکاح کو باطل قرار دے کر ایسی لڑکی کو والدین کے سپرد کیا جائے۔
آج کل عدالتوں میں نوجوان لڑکیوں کے از خود نکاح کرنے کے جو مقدمات پیش ہو رہے ہیں ، ان میں مذکورہ دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا تعین اور تحقیق کئے بغیر، صرف اس بنیاد پر فیصلہ کرنا یا بعض علماء کا فتویٰ دینا کہ نوجوان لڑکی ولایت کی محتاج نہیں ہے، اس لئے یہ نکاح جائز ہے۔ قرآن و حدیث کی رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جمہور علماء و فقہاء کے مسلک کی ر وشنی میں بالکل غلط (اور سنگین جرم)ہے۔ عدالتیں، اگر قرآن و حدیث کو اپنا حَکَمْ(ثالِث و فیصل ) مانتی ہیں تو وہ ایسا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں ہیں اور علماء بھی اگر { فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ }[النسائ:۵۹] ’’ اگر تمہارے درمیان کسی چیز کی بابت جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ‘‘ پر صدق دل سے عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی مذکورہ نکاحوں کے جواز کا مطلقاً فتویٰ دینے سے گریز کرنا چاہیے ، کیونکہ ولی کی اجازت کے بغیر کوئی نکاح صحیح نہیں ہے۔ ولی ، جابر یا عاضل ہو گا تو ’’ولی ٔ ابعد ‘‘یا عدالت نکاح کرائے گی۔ لیکن کسی بالغ لڑکی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھاگ کر یا چھُپ کر اپنا نکاح خود کر لے۔
قرآنی دلائل:
—————
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے میں قرآن کریم میں واضح طور پر رہنمائی نہیں ملتی۔ لیکن ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ قرآنِ کریم سے استدلال کا جو طریقہ اور اسلوب ہے، اس کی رو سے یقینا ہمیں قرآن کریم سے پوری رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے :
{وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا } [البقرۃ۲:۲۲۱]
’’تم مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح مت کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں … اور ( اپنی عورتوں کو ) مشرک مردوں کے نکاح میں مت دو ، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں کو حکم فرمایا کہ تم مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو۔ ہاں اگر وہ ایمان قبول کر لیں تو اور بات ہے، اس وقت ان سے تمہارا نکاح کر لینا صحیح ہو گا۔ لیکن جب مسلمان عورت کو یہ حکم دینے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ وہ بھی مشرک مردوں کے ساتھ نکاح نہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی بجائے ان کے اولیاء کو خطاب فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کریں۔ ہاں اگر وہ اسلام قبول کر کے مومنین میں شامل ہو جائیں تو پھر تم اپنی بیٹیوں کو ان کے عقد نکاح میں دے سکتے ہو۔ قرآنِ کریم کے اس اندازِ بیان سے واضح ہے کہ مسلمان عورت اپنے نکاح کا معاملہ از خود طے نہیں کر سکتی۔ اس کے نکاح کا معاملہ اس کے ولی کی وساطت سے ہی انجام پائے گا۔ مفسرین امت نے اس آیت کو اس مسئلے میں ’’ نص ‘‘ قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام ابن حبان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’{ولا تُنْکِحُوْا}بالاتفاق تاء کے ضمے ( پیش ) کے ساتھ ہے اور یہ عورتوں کے اولیاء سے خطاب ہے اور دوسرا مفعول ’’المومنات ‘‘ محذوف ہے۔ ( یعنی مومن عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو ) اس خطاب سے استدلال کیا گیا ہے کہ نکاح میں ولی کی اجازت ضروری ہے اور یہ آیت اس مسئلے میں نص کی حیثیت رکھتی ہے ‘‘
(تفسیر البحر المحیط ۲؍۱۶۵)
’’ یہ آیت بطور نص اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح ولی کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں۔ ‘‘ (تفسیر قرطبی ۳؍۴۹، طبع بیروت)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: {وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوْمِنُوْا}اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول : {وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ }جو ( فعل لازم اور متعدی کا ) فرق ہے، اس سے بھی بعض سلف نے یہ حجت پکڑی ہے کہ عورت از خود نکاح نہیں کر سکتی ، ان کے نکاح کا بندوبست کرنا اولیاء کی ذمے داری ہے ۔
(فتاویٰ :۳۲؍۱۳۲)
’ لَا نِکَاحَ إِلاَّ بِوَلِیٍّ‘
(سنن أبی داود، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ )
’’ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔ ‘‘
یہ روایت جسے متواتر تک کہا گیا ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابوہریرہy چار صحابہ سے مروی ہے، اس کی پوری تفصیل ، ان کی اسنادی تحقیق اور حدیث کی کن کن کتابوں میں مذکورہ اصحاب کی روایات ہیں، شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے(ارواء الغلیل:۶؍۲۳۵۔۲۴۳)میں درج کی ہیں اور انہیں صحیح قرار دیا ہے ۔ شیخ البانی ( المتوفیٰ۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ئ) عصرحاضر کے عظیم محدّث تھے۔ اس دور میں انہوں نے احادیث کی تحقیق اور چھان پھٹک کا جو عظیم الشان اور بے مثال کا م کیا ہے، اہل علم اس سے واقف ہیں۔ ہم ان کی اسی کتاب سے اس موضوع کی چند اور احادیث ، جنہیں انہوں نے صحیح قرار دیا ہے، نقل کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ان کے مکمل حوالے اور ان پر اسنادی بحث موجود ہے جسے اہل علم و تحقیق ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہ صفحات ان تفصیلات کے متحمل نہیں، اس لئے ہم یہاں صرف احادیث صحیحہ نقل کر کے دوسرے نکتوں پر بحث کریں گے:
’عَنْ عَائِشَۃَ مَرْفُوْعًا أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نکَحَتْ بِغَیْرِ اِذْنِ وَلِیِّھَا فَنِکَاحُھَا بَاطِلٌ فَنِکَا حُہَا بَاطِلٌ ، فَنِکَاحُھَا بَاطِلٌ فَإِنْ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الْمَہْرُ بِمَا اسْتحََلَّ مِنْ فَرْجِہَا وَاِنِ اشْتَجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہَا ‘
(ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرھم )
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوع روایت ہے ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو وہ نکاح باطل ہے، وہ نکاح باطل ہے، وہ نکاح باطل ہے، اگر ان کا آپس میں ملاپ ہو گیا ہے تو اسکی وجہ سے حق مہر اس عورت کو دیا جائے گا، اگر ( اولیاء کا ) اختلاف اور جھگڑا ہو تو سلطان وقت ہر اس عورت کا ولی ہو گا جس کا کوئی ولی نہ ہو ۔‘‘
یہ روایت سنداً صحیح اور مسئلہ زیر بحث میں واضح اور فیصلہ کن ہے۔
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ مَرْفُوْعًا لَا تُزَوِّجِ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ وَلَا تُزَوِّجِ الَْمَرْأۃُ نَفْسَہَا ‘(سنن ابنِ ماجہ ، دارقطنی)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کوئی عورت، عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔ ‘‘
اس حدیث میں ولایت کے لئے مَرد کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یعنی باپ کی بجائے ماں ولی نہیں بن سکتی ، نہ لڑکی از خود اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ باپ نہ ہو تو اس کا چچا، بھائی وغیرہ ولی بنے گا، کوئی بھی نہیں ہو گا تو حاکم وقت یا قاضی اس کا ولی ہو گا، جیسا کہ اس سے ما قبل کی حدیث میں ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’زمانہ جاہلیت میں نکاح کی چار قسمیں تھیں، ایک قسم وہ جو لوگوں میں آج کل رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو اس کی کسی عزیز یا بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ہے، وہ اسے قبول کر کے اس کے لیے حق مہر کا تعین کر دیتا ہے اور نکاح کر دیتا ہے۔ ( اس کے بعد نکاح کی تین قسمیں اور بیان کیں اور آخر میں فرمایا ) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو ختم کر دیا اور صرف آج کل کے رائج نکاح کو باقی رکھا۔ ( صحیح بخاری ، کتاب النکاح ، باب من قال لا نکاح الا بولی )اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے صرف اس نکاح کو جائز رکھا ہے جو ولی کی وساطت سے کیا گیا ہو۔ باقی تمام نکاح باطل کر دئیے ۔
٭ بعض کہتے ہیں کہ یہ روایات سنداً کمزور ہیں، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں کہ عصر حاضر کے عظیم محدّث شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان روایات پر مفصل بحث کر کے ان کو صحیح قرار دیا ہے، جس کی پوری تفصیل کتاب (ارواء الغلیل:۶) میں موجود ہے۔ گویا تحقیق حدیث کے محدثانہ اصول کی روشنی میں یہ روایات صحیح ہیں، جس کے بعد کسی کو مجال انکار نہیں ۔ علاوہ ازیں علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمۃ نے (فیض الباری ) میں یہ روایات نقل کی ہیں اور ان کے حسن یا صحیح ہونے کو تسلیم کیا ہے، علامہ کاشمیری کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں، علمائے احناف کے ہاں ان کی عظمت اور محدّ ثانہ حیثیت مسلَّم ہے، موجودہ علمائے احناف کی اکثریت بالواسطہ یا بلاواسطہ انہی کی شاگرد ہے اور ان کی علمی عظمت کی وجہ سے ان سے غایت درجہ عقیدت رکھتی ہے۔ علامہ کاشمیری علیہ الرحمۃ کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان احادیث کی تضعیف کرے جن کو انہوں نے رد نہیں کیا، جب کہ دیگر محدّثین کے ہاں ان کو پہلے ہی درجۂ قبولیت حاصل ہے۔
٭ بعض حضرات نے ان احادیث کو نابالغ اور مجنون ( پاگل، دیوانہ ) لڑکیوں کے ساتھ خاص کیا ہے، یعنی ان کا نکاح ولی کے بغیر صحیح نہیں، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں۔یہ احادیث عام ہیں، ان میں بالغ اور نابالغ ، عاقل اور مجنون ( پاگل) سب شامل ہیں، سب میں ولی کی ولایت (GUARDIAN SHIP)ضروری ہے۔
کیونکہ ا س کی وجہ عورت کی یہ فطری کمزوری ہے کہ وہ مرد کے مقابلے میں جذباتی ہوتی ہے، بالخصوص جوان اور بالغ عورت ، وہ جذبات میں اکثر غلط فیصلہ کر لیتی ہے اور اپنا اختیار صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرسکتی اور مستقبل کے لئے جس بالغ نظری، دور اندیشی اور گہرائی میں اتر کر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، عورت کے جذباتی فیصلوں میں اکثر ان کی کمی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی اجازت کے بغیر لَوّ میرج( محبت کی شادی ) کی عمر دیر پا نہیں ہوتی، جذبات کا یہ جوش جلد ہی سرد پڑ جاتا ہے اور جب ہوش آتا ہے تو سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے اور پھر معاملہ ؎
نہ خدا ہی ملا ، نہ وصال صنم
کے مصداق، ایسی عورتیں گھر کی رہتی ہیں نہ گھاٹ کی ۔
اخبارات میں آئے دن اس کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ میاں صلاح الدین کے بیٹے یوسف کا اس کی بیوی انبساط کے ساتھ یہی معاملہ ہوا، یحییٰ بختیار کی اداکارہ بیٹی زیبا بختیار کی لَوّمیرج کا انجام بھی ایک بیٹے کی ولادت کے بعد ہی سخت عبرت ناک ہوا، حتیٰ کہ اس کے شوہر کا بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ لوگ لو میرج (LOVE MARRAIGE) سے بچیں، اس کا انجام اچھا نہیں اور والدین کی رضا مندی سے طے پانے والی شادیاں ہی صحیح اور دیر پا ہوتی ہیں ۔
(روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور۔ جون ۱۹۹۷)
٭ اس کے برعکس مرد کے فیصلے بالعموم جذباتیت کی بجائے ، عقل و دانش اور دور اندیشی پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے طلاق کا حق صرف مرد کو دیا ہے، عورت کو نہیں، اگر عورت کو بھی طلاق کا حق حاصل ہوتا تو وہ اکثر جذبات میں آ کر مرد کو طلاق دے دیا کرتی ، بہت سے جاہل اور شریعت سے ناواقف مرد بھی اگرچہ اپنا حقِ طلاق غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں، لیکن عورتوں کو اگر یہ حق حاصل ہوتا تو شرح طلاق اتنی زیادہ ہوتی کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے (البتہ مغربی معاشرے میں عورت کو بھی حق طلاق حاصل ہے، وہاں کی شرح طلاق سے ہماری بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے )
اسلام ایک دین فطرت ہے، جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس میں انسانی فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ عورت کے اندر جو فطری کمزوریاں ہیں، اس کے پیش نظر شریعت اسلامیہ نے بعض احکام میں مرد و عورت کے درمیان امتیاز کیا ہے، انہی امتیازی احکام میں یہ حقِ ولایت اورحقِ طلاق بھی ہے جو صرف مرد کو حاصل ہے، عورت کو نہیں۔
(واللہ اعلم بالصواب )