کچھ وضاحتیں کچھ معذرتیں
والٹیئر (1694-1778) کا شمار یورپ کے دورِروشن خیالی کے ان اہم ترین لوگوں میں ہوتا ہے جن کے افکار وخیالات پر مغربی تہذیب کی موجودہ عمارت کی بنیادیں قائم ہیں۔ والٹیئر کے زمانے میںپرتگال کے شہر لزبن میںایک زلزلہ آیا جس کے ساتھ آنے والے سونامی طوفان اور پھرشہر میںپھیلنے والی آگ نے قیامت مچادی ۔ لاکھوں کی آبادی کا شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ اس سانحے نے یورپ بھر کو ہلاکر رکھ دیا۔ نہ صرف سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطحوں بلکہ فلسفہ و افکار کی دنیا پر بھی اس تباہی کے زبردست اثرات ہوئے۔روایتی مذہبی قیادت نے حسب عادت اسے خدا کا عذاب قرار دیا۔مگر اب زمانہ بدل رہا تھا۔ چنانچہ زبردست ردعمل ہوا۔اس واقعے کے پس منظر میں والٹیئر نے پہلے ایک نظم Poem on the Lisbon Disaster اور پھر Candide کے نام سے ایک ناول لکھا۔ اس کابنیادی پیغام یہ تھا کہ نئی دنیا میں مسیحیت کے پیش کردہ ایسے خدا کے تصور کی کوئی گنائش نہیں جس کے نازل کردہ عذاب میں بے گناہ اور گناہ گاربلا تفریق مارے جاتے ہیں۔
ابتدا میں والٹیئر کا یہ کام پابندیوں کاشکار ہوا ، مگر جلد ہی اس میں پیش کردہ افکار وقت کی زبان بن گئے۔ آہستہ آہستہ خدا سے منسوب کردہ غلط تصورات کا ردعمل لوگوں کو انکار خدا کی منزل تک لے گیا۔ پھرایک زمانہ ایسا آیا کہ مغربی معاشروں میں خدا کانام لینا ایک احمقانہ بات بن گئی۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے اس صورتحال کو اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
بعد کے زمانوں میں خدا کا تصور تو کسی نہ کسی طور قبول کرلیا گیا لیکن آخرت کا وہ تصور جو خدا کے عدل کامل کا ثبوت اور دنیا میں پائی جانے والی ناہمواریوں کی حقیقی توجیہہ ہے، کبھی عام نہ ہوسکا۔والٹیئرایک مسیحی پس منظر رکھتا تھا جہاں آخرت کے تصورات انتہائی مبہم اور غیر معقول ہیں۔ اس لیے اسے اپنے ذہن میں پید ا ہوانے والے سوالات کا صحیح جواب نہ مل سکا اوروہ انکار خدا و آخرت کی اس تحریک کا بانی بن گیا جو اب دھرتی کے خشک و تر پر حکمران ہے۔
خوش قسمتی سے مسلمانوں کے پاس قرآن مجید جیسی کتاب ہے جو یہ بتاتی ہے کہ دنیا کی کہانی کا دوسرا اور آخری باب آخرت ہے جس کے بغیر حیات و کائنات کے بارے میں کسی حقیقت کو درست طور پر نہیں سمجھا جاسکتا۔آج مسلم معاشروں میںیورپ کے دور روشن خیالی کی طرح مذہبی انتہا پسندی اور بے لگام روشن خیالی کے درمیان ایک تصادم بپاہے۔ قبل اس کے کہ اس تصادم میں ہماے ہاں کوئی والٹیئر اٹھے ،پروردگار عالم کی عنایت سے ناول ہی کی زبان میں انسانی کہانی کے دوسرے اور آخری باب کی کچھ تفصیلات قارئین کے پیش خدمت ہیں۔
مجھے اس تفصیل کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اردو ادب کے قارئین عام طور پر جاسوسی، رومانوی، تاریخی اور معاشرتی حوالوں سے لکھے گئے ان ناولوں ہی سے واقف ہیں جو روایتی طور پر ہمارے ہاں لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ تاہم ناول نگاری کا دائرہ درحقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ ہر ایک ناول کا پلاٹ، اس کی اٹھان، اس کے کردار، واقعات اور مکالموں کا انحصار ناول نگاری کی اُس خاص صنف پہ ہوتا ہے جس پر وہ ناول مبنی ہوتا ہے۔ پیش نظر ناول ’’جب زندگی شروع ہوگی‘ ‘ایسا ہی ایک غیر روایتی ناول ہے۔ مگر غیر روایتی ہونے کے باوجود یہ ایک فکشن ہی ہے۔ ہر ناول ایک فکشن ہوتا ہے جو تصورات کی دنیا میں امکانات کے گھروندے تعمیر کرتا ہے۔ تاہم یہ گھروندے ممکنات کے کتنے ہی آسمان چھولیں، ان کی بنیاد حقیقت کی زمین ہی پر رکھی جاتی ہے۔ میرا یہ ناول اپنے مرکزی کردار اور اُس کے ساتھ پیش آنے والے متعین واقعات کے لحاظ سے ایک فکشن ہے، مگر یہ فکشن امکانات کی جس دنیا سے آپ کو روشناس کرائے گا وہ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بدقسمتی سے آج یہ حقیقت انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہے، مگر اب وہ وقت دور نہیں رہا جب امکانات کی یہ دنیا ایک برہنہ حقیقت بن کر ظاہر ہوجائے گی۔
بات اگر صرف اتنی ہی ہوتی تب بھی اس ناول کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوتا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر اس ناول کا ہر قاری اور اس دنیاکا ہر باسی خود اس فکشن کا حصہ بننے والا ہے اور اس کے کسی نہ کسی کردار کو نبھانا اس کا مقدر ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے مجھے قلم اٹھاکر اس میدان میں اترنے پر مجبور کیا ہے۔
میرا مقصود صرف یہ ہے کہ غیب میں پوشیدہ امکانات کی اس دنیا کو فکشن کے ذریعے سے ایک زندہ حقیقت بناکر عام لوگوں کے سامنے پیش کردیا جائے۔ یہ ایک بہت مشکل اور نازک کام ہے۔ اس لیے کہ آنے والی اس دنیا کی کوئی حقیقی تصویر ہمارے سامنے نہیں اور نہ اس مقصد کے لیے تخیل کے گھوڑے بے لگام دوڑائے جاسکتے ہیں۔ مگر خوش قسمتی سے پیغمبر آخر الزماں علیہ الصلوۃ والتسلیم کی تعلیمات میں ہمیں آنے والی اس دنیا کی وہ تصویر مل جاتی ہے جس کی بنیاد پر میں نے اس دنیا کی ایک منظر کشی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس عمل میں ناول نگاری کے تقاضوں کی بنا پر مکالمہ نویسی اور تصور آرائی دونوں ناگزیر تھے۔ تاہم یہ نازک کام کرتے وقت ہر قدم پر پروردگارعالم کی صفات عالیہ سے متعلق قرآنی بیانات اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میرے پیش نظر رہے۔ پھر بھی یہ ایک نازک معاملہ ہے جس میں سہو کا امکان پایا جاتا ہے۔ میں اپنے پروردگار سے اس کی شان کریمی کی بنا پر درگزر کی توقع رکھتا ہوں۔
یہاں قارئین کو میں اپنے اس احساس میں بھی شریک کرنا چاہتا ہوں کہ میں ابتدا میں اس ناول کو عام لوگوں کے لیے شائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں تو بس روز قیامت کے حوالے سے اپنے کچھ احساسات کو الفاظ کے قالب میں منتقل کرنے بیٹھا تھا، مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس ناول کے ابتدائی آٹھ ابواب چند ہی دنوں میں مکمل ہوگئے۔ اس کے بعد انھیں پڑھنا شروع کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جو کچھ لکھا ہے اس کی عام اشاعت مناسب نہیں۔ البتہ چند احباب کو یہ صفحات مطالعے کے لیے دیے۔ ان کی رائے مجھ سے نہ صرف قطعاً برعکس تھی بلکہ پڑھنے والوں پر اس کے غیر معمولی اثرات ہوئے۔ ان میں سے بیشتر کے لیے یہ ایک جھنجھوڑ کر رکھ دینے اور زندگی بدل دینے والا تجربہ تھا۔ ان کا بے حد اصرار تھا کہ اس ناول کو مکمل کرکے شائع کیا جائے۔
تاہم میں ذہناً اس کی تکمیل پر خود کو آمادہ نہیں کرپارہا تھا۔ مگر جب احباب کا اصرار بے حد بڑھا تو میں نے باقی ناول مکمل کرنے سے قبل استخارہ کرنا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں ذہن ایک دفعہ پھر یکسو ہوگیا اور میں نے ناول مکمل کرلیا۔ احباب کے اصرار پر یہ ناول مکمل تو ہوگیا، مگر اس کی عام اشاعت کے لیے میں پھر بھی تیار نہ تھا۔ مگر ناول کی تکمیل کے چند دنوں بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایک مہلک مرض نے وجود ہستی کے دروازے پر موت کی دستک دے دی ہے۔ اسی وقت یہ فیصلہ ہوگیا کہ یہ ناول انشاء اللہ اب ضرور شائع ہوگا۔
لوگ مجھے عالم اور ادیب سمجھتے ہیں، مگر درحقیقت میرے پاس کسی ادیب کا قلم ہے اور نہ کسی عالم کا دماغ۔ میرا کل سرمایہ بس ایک درد دل ہے۔ یہ درد جب بہت بڑھا تو اس ناول کے قالب میں ڈھل گیا۔ اس نازک میدان میں اترنے کے لیے یہی میرا واحد عذر ہے۔ یہ عذر بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوسکتا ہے، اگر میں کُل عالم کے نگہبان کو اس کی کھوئی ہوئی بھیڑیں لوٹانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ آج کے دور میں لوگ غیب کی کسی پکار کو سننے کا وقت رکھتے ہیں نہ دلچسپی، مگر شاید یہ فکشن ہی انہیں اپنے رب کی بات سننے کے لیے آمادہ کردے۔ شاید اسی طرح خدا کو اس کا کوئی بندہ یا بندی مل جائے۔ شاید جہنم کی طرف بڑھتے ہوئے کسی کے قدم واپس لوٹ آئیں۔ شاید جنت کی دنیا میں ایک باسی اور بڑھ جائے۔ ایسا ہوا تو یہ میری محنت کا حاصل ہوگا۔
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائگاں تو ہے
ابویحییٰ