دسواں باب: حساب کتاب اور اہل جہنم
اہل بدعت کی پٹائی کے واقعے کے بعد میں بہت دل گرفتہ ہوچکا تھا۔ کیونکہ میں نے اس واقعے میں اپنے زمانے میں موجود اپنے کئی جاننے والوں کو دیکھا تھا۔ میری طبیعت بحال کرنے کے لیے صالح مجھے واپس حوض کوثر کی طرف لے گیا تھا۔ وہاں کے پرفضا ماحول میں کچھ وقت تنہائی اور خاموشی میں گزار کر میں بہتر ہوگیا تو وہ دوبارہ مجھے میدان حشر میں لے آیا۔
راستے میں وہ مجھے بتانے لگا کہ جب ہم یہاں نہیں تھے تو اس عرصے میں تمام انبیا کی شہادت کا عمل پورا ہوگیا۔ جس کے بعد عمومی حساب کتاب کا مرحلہ شروع ہوچکا تھا۔ اس کا آغاز بھی امت محمدیہ سے ہوا جس کا بڑا حصہ حساب کتاب سے گزر کر اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سن چکا ہے۔
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک انتہائی اہم موقع پر میں یہاں موجود نہیں تھا؟‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہے، لیکن جنت میں جانے کے بعد جب چاہو، اس حساب کتاب کی آڈیو وڈیو ریکارڈنگ دیکھ سکو گے۔‘‘، اس نے ہنستے ہوئے میری بات کا جواب دیا۔
’’مگر بھائی لائیو مشاہدہ تو لائیو ہی ہوا کرتا ہے۔‘‘، میں نے بھی مسکراتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا۔
’’ایک بڑی دلچسپ چیز جو یہاں ہوئی وہ میں تمھیں بتادیتا ہوں۔ ہوا یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مشرکین کو ان کے شرک پر پکڑا گیا تو ان کی ایک بڑی تعداد نے صاف انکار کردیا کہ وہ کسی شرک میں مبتلا تھے۔ ان انکار کرنے والوں میں بعد کے زمانے کے لوگ ہی نہیں کفار مکہ بھی تھے جو بتوں کی پوجا کرتے تھے۔‘‘
’’اس کا سبب؟‘‘
’’اس کا سبب یہ تھا کہ آج سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ ان لوگوں نے پہلے پہل تو اپنے دیوی دیوتاؤں اور بزرگوں کو پکارا اور ان کو تلاش کیا۔ ظاہر ہے کہ نہ کوئی تھا اور نہ کسی نے جواب دینا تھا۔ فرشتے اور صالح بزرگ، جنھیں اللہ کو چھوڑ کر پکارا جاتا تھا، انھوں نے تو ان لوگوں کے شرک سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ایک ہی چارہ بچا تھا کہ یہ لوگ اپنے شرک کا صاف انکار کردیں، مگر ظاہر ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے تمام مجرموں کے لیے جہنم کا فیصلہ ہوگیا۔‘‘
’’اس وقت کس کا حساب کتاب ہورہا ہے؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’اس وقت تمھارے زمانے کے لوگوں کا نمبر آچکا ہے۔ اسی لیے میں تمھیں یہاں لے آیا ہوں۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ ایک ایک کرکے لوگ حساب کتاب کے لیے بلائے جارہے ہیں۔ ہر شخص دو فرشتوں کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پیش ہوتا ہے۔ ایک فرشتہ پیچھے پیچھے چلتا اور اپنی نگرانی میں اسے عرش تک پہنچاتا ہے جبکہ دوسرا فرشتہ بندے کے ساتھ اس کا نامۂ اعمال اٹھائے چلتا ہے۔ ان میں سے پیچھے والے فرشتے کو ’سائق‘ اور نامۂ اعمال لے کر ساتھ چلنے والے کو ’شہید‘ کہا جاتا ہے۔ ’سائق‘ وہ فرشتہ ہے جو بندے کو حشر کے میدان سے عرش الٰہی تک پہنچانے کا ذمے دار ہے جبکہ ’شہید‘ اس کے اعمال کی گواہی دیتا ہے۔ یہ وہی دو فرشتے ہیں جو زندگی بھر انسان کے دائیں اور بائیں سمت موجود رہے۔ دائیں والا نیک اعمال اور بائیں والا بداعمالیاں لکھتا تھا۔ ان کو قرآن مجید میں کراماً کاتبین کہا گیا تھا۔‘‘
’’مگر یہاں آکر ان میں سے کون سائق اور کون شہید بنتا ہے؟‘‘، میں نے پوچھا۔
’’اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ وہی بندے کی پیشی سے قبل کراماً کاتبین کو مطلع کرتے ہیں کہ دونوں میں سے کس کو کیا کرنا ہے۔‘‘
ہم وہاں پہنچے تو ایک سرکاری افسر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش تھا۔ اس سے پوچھا گیا:
’’کیا عمل کیا؟‘‘
اس نے لرزتے ہوئے جواب دیا:
’’پروردگار مجھ سے زندگی میں کچھ غلطیاں ہوئی تھیں، مگر بعد میں میں نے تیرے لیے بہت عبادت و ریاضت کی۔ اپنی زندگی تیرے دین کے لیے وقف کردی۔‘‘
اسی اثنا میں اس کے ساتھ کھڑے فرشتے کو اشارہ ہوا۔ اس نے کہا:
’’پروردگار! اس نے سچ کہا ہے۔‘‘
پوچھا گیا:
’’تم ایک سرکاری ملازم تھے۔ کیا تم نے رشوت لی؟ لوگوں کو تنگ کرکے ان سے پیسے کھائے۔ ناجائز طریقے سے قانون سخت کرکے لوگوں کو رشوت دینے کے لیے مجبور کیا؟‘‘
اس نے عرض کیا:
’’یہ میں نے کیا تھا لیکن میں نے توبہ کرلی تھی۔‘‘
’’تو نے توبہ کرلی تھی؟‘‘، انتہائی غضبناک آواز میں سوال کیا گیا۔
اس کے منہ سے جواب میں ایک لفظ نہیں نکل سکا۔ فرشتہ آگے بڑھا اور اس نے اس کے نامۂ اعمال کو پڑھنا شروع کیا۔ جس کے مطابق اس نے حرام کی کمائی سے گھر بنایااور ساری زندگی اسی گھر میں رہا، انویسٹمنٹ کرکے مال کو خوب بڑھایا، بچوں کو اسی پیسے سے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ بیوی کو خوب زیورات بناکر دیے۔یہ اس مال سے اپنی موت تک فائدہ اٹھاتا رہا۔ البتہ زبان سے توبہ ضرور کی تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاڑھی، ٹوپی، نماز وغیرہ سب شروع کردی تھی۔
جیسے ہی فرشتے کا بیان ختم ہوا حکم ہوا:
’’اس کا نامۂ اعمال میزان میں رکھو۔‘‘
دائیں ہاتھ کے فرشتے نے اس کی نیکیاں الگ کرکے میزان عدل میں دائیں طرف رکھ دیں اور بائیں ہاتھ کے فرشتے نے اس کی برائیاں بائیں طرف رکھ دیں۔ وہ سرکاری افسر انتہائی بے بسی اور خوف کے ساتھ یہ سب ہوتا دیکھ رہا تھا۔
فرشتوں نے اپنا کام جیسے ہی ختم کیا نتیجہ سامنے آگیا۔ الٹے ہاتھ کا پلڑا مکمل طور پر جھک گیا تھا۔ اس نے ظلم و ناانصافی اور رشوت سے جو کچھ حرام کمایا تھا اور لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں کی تھیں وہ اس کے سارے نیک اعمال پر غالب آگئیں۔ یہ دیکھ کر وہ شخص چیخنے چلانے لگا اور رحم کی درخواست کرنے لگا۔ ارشاد ہوا:
’’جن لوگوں سے تو رشوت لیتا اور انھیں تنگ کرتا تھا کبھی ان پر تجھے رحم آیا۔ دیکھ تیری کمائی آج تیرے کچھ کام نہ آئی۔ تیرا انجام جہنم ہے۔ پھر ایک فرشتے نے اس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں تھمادیا۔‘‘
وہ شخص چیخ چیخ کر کہنے لگا:
’’میں نے اپنے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب میں نے اپنی بیوی بچوں کے لیے کیا تھا۔ اللہ کے واسطے مجھے چھوڑدو۔ میرے بیوی بچوں کو پکڑو۔‘‘
فرشتوں نے جواب دیا:
’’تیرے بیوی بچوں کا حساب بھی ہوجائے گا پہلے تو تو چل۔‘‘
پھر دونوں فرشتے اسے مارتے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلا شخص پولیس کا ایک سینئر افسر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب ہی نہیں کیا۔ اس کے ساتھ آنے والے فرشتے سے پوچھا کہ اس کے نامۂ اعمال میں کیا درج ہے۔ اس کے جواب میں فرشتے نے اس کی ساری زندگی کے جرائم بیان کردیے۔ جن میں بے گناہ لوگوں پر ظلم، بعض معصوموں کا قتل، جوئے اور بدکاری کے اڈوں کی سرپرستی، بدکاری اور شراب نوشی، رشوت اور عیاشی جیسے سنگین جرائم شامل تھے۔ جبکہ نیکیوں میں صرف عید کی وہ نمازیں تھیں جو حالت مجبوری میں حکمرانوں کے ساتھ عید گاہ میں ادا کی جاتی تھیں۔
پوچھا گیا:
’’تمھیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے۔‘‘
اس نے کہا:
’’پروردگار! میرے حالات ہی ایسے تھے۔ ہر طرف رشوت کا ماحول تھا۔ میں یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا مگر افسران کا دباؤ اور ماحول کے جبر کی بنا پر مجبور ہوگیا۔‘‘
انتہائی سخت آواز میں کہا گیا:
’’تو تم مجبور ہوگئے تھے؟‘‘
پھر حکم ہوا کہ اس کے ماتحت کام کرنے والے ایک جونیئر افسر کو پیش کیا جائے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک انتہائی خوش شکل شخص بہت اعلیٰ اور نفیس لباس زیب تن کیے ہوئے حاضر ہوا۔ اس سے پوچھا گیا:
’’میرے بندے تو نے بھی پولیس میں کام کیا۔ پھر ماحول سے مجبور ہوکر ظلم اور رشوت کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’میرے رب مجھے آج کے دن تیرے حضور پیش ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے میں نے کبھی رشوت نہیں لی۔ جب ساتھ کام کرنے والوں نے مجھے مجبور کیا تو میں نے صاف انکار کردیا۔ میں نے ساری عمر بہت غربت کی زندگی گزاری لیکن کبھی پیسے لے کر انصاف کا خون نہیں کیا۔‘‘
جواب ملا :
’’ہاں! اسی کا بدلہ ہے کہ تیرے بہت کم عمل کو میں نے بہت زیادہ قبول کیا ہے اور تجھے ہمیشہ رہنے والی جنت کی سرفرازی نصیب کی ہے۔‘‘
پھر دوسرے پولیس والے سے کہا گیا:
’’تیرے پاس انتخاب یہ نہیں تھا کہ تو رشوت، ظلم اور زیادتی کے راستے پر چلے یا غربت کی زندگی گزارے۔ تیرے پاس انتخاب یہ تھا کہ ظلم کرے یا جہنم میں جائے۔ سو تو نے جہنم کو پسند کرلیا۔ یہی ہمیشہ کے لیے تیرا بدلہ ہے۔‘‘
وہ پولیس والا ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ روتے ہوئے کہنے لگا:
’’پروردگار! مجھے شیطان نے گمراہ کیا تھا۔‘‘
جواب ملا:
’’نہیں! اصل میں تو خود ایک شیطان تھا۔ حالانکہ تو میرے سامنے ایک معمولی چیونٹی سے زیادہ بے بس تھا۔ اے بے وقعت انسان! جس وقت تو انسانوں پر ظلم کرتا تھا اس وقت بھی تو میرے سامنے ہوتا تھا، لیکن میں نے تجھے مہلت دی۔ تو نے اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تو نے یہ سمجھا تھا کہ تجھے میرے حضور پیش نہیں ہونا۔ دیکھ تیرا گمان غلط ثابت ہوا۔‘‘
اِدھر غیض و غضب کے یہ الفاظ بلند ہورہے تھے، اُدھر میدان حشر کے بائیں جانب سے جہنم کے شعلوں کے بھڑکنے کی آوازیں تیز ہورہی تھیں۔ ان آوازوں نے ہر دل کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ہر شخص پر سخت ہول کا عالم طاری تھا۔ کلیجے منہ کو آرہے تھے۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ لوگوں کے چہرے بالکل سیاہ پڑچکے تھے۔ دل کی دھڑکنیں اتنی تیز تھیں کہ گویا دل سینہ توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ مگر آج کوئی جائے فرار نہ تھی۔ ایک مجرم کا فیصلہ ہورہا تھا اور دیگر مجرموں کی حالت خراب ہورہی تھی۔ وقت کے فرعون، طاقتور ہستیاں، جابر حکمران، بے انتہا دولت کے خزانوں کے مالک، مشہور ترین سیلیبریٹی، انتہائی اثر و رسوخ والے لوگ، سب معمولی غلاموں بلکہ بھیڑ بکریوں کی طرح بے بسی سے کھڑے اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر تھے اور آج انھیں بچانے والا کوئی نہ تھا۔
پھر اس کا اعمال نامہ تولا گیا جس میں حسب توقع الٹے ہاتھ کا پلڑا بھاری ہوگیا۔ فرشتے نے آگے بڑھ کر نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں تھمانا چاہا، مگر اس نے ڈر کے مارے ہاتھ پیچھے کرلیا۔ فرشتے کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت تھی۔ فرشتے نے اس کے ہاتھ پیچھے ہی کی سمت باندھ کر ان بندھے ہوئے ہاتھوں میں سے الٹے ہاتھ میں نامۂ اعمال تھمادیا۔ پھر دونوں فرشتے اسے مارتے پیٹے ان شعلوں کی طرف بڑھ گئے جہاں بدترین انجام اس کا منتظر تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلا شخص ایک بہت دولتمند آدمی تھا۔ پوچھا گیا:
’’دولت کے خزانے تو پیچھے چھوڑ آئے ہو۔ یہ بتاؤ کہ مال کیسے کمایا اور کیسے خرچ کیا تھا؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’پروردگار! میں کاروبار کرتا تھا۔ اس سے جو مال کمایا وہ غریبوں پر خرچ کیا۔‘‘
فرشتے کو اشارہ ہوا۔ اس نے تفصیل بیان کرنا شروع کی جس کے مطابق اس شخص نے زندگی میں کھربوں روپے کمائے۔ ابتدائی زندگی میں چھوٹے کاروبار سے آغاز کیا۔ چینی، آٹا اور دیگر بنیادی ضرورت کی اشیا میں ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ کی بنا پر بہت منافع کمایا اور اس کا بزنس تیزی سے پھیل گیا۔ اس کے بعد اس نے کئی اور کاروبار کرلیے۔ مگر اس دفعہ مال کمانے کے لیے اس نے اپنے جیسے کئی دوسرے لٹیروں کو ساتھ ملاکر ایک کارٹل بنالیا۔ کارٹل کا کام ہی یہ تھا کہ مارکیٹ کو کنٹرول کرکے اپنی مرضی کی قیمت پر اشیا فروخت کی جائیں۔ یہ کارٹل جو انتہائی بارسوخ افراد پر مشتمل تھا اپنے سیاسی رابطوں اور رشوت کے ذریعے سے اپنی مرضی کی قیمتیں طے کراتا۔ یوں غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہے اور ان کا سرمایہ کروڑوں سے اربوں اور اربوں سے کھربوں میں بدلتا گیا۔ معاشرے میں اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے یہ اپنے خزانوں میں سے چند سکے خیرات کرتا اور ڈھیروں واہ واہ کماتا۔
فرشتے کے بیان کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش ختم ہوگئی، مگر یہ سیٹھ بہت چالاک شخص تھا۔ اس نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا کہ یہ سارا بیان بالکل غلط ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں نے ہر چیز قانون کے مطابق کی ہے۔ مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق کاروبار کیا۔ میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ فرشتہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ مسلسل چیخے جارہا تھا۔
آواز آئی:
’’تو تجھے ثبوت چاہیے۔ وہ بھی مل جائے گا۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ ہی سیٹھ کی آواز بند ہوگئی۔ یکایک اس کے ہاتھ سے آواز آنا شروع ہوگئی۔ کم و بیش وہی بیان دہرادیا گیا جو فرشتے نے دیا تھا۔ پھر ایسی ہی گواہی اس کے پیروں سے آنا شروع ہوگئی۔ اور رفتہ رفتہ پورے جسم نے اس کے خلاف گواہی دے دی۔ حتیٰ کہ اس کے سینے نے اس کے دل کی وہ نیت بھی بیان کردی جو فرشتوں کے ریکارڈ میں درج نہ تھی۔
اس گواہی کے بعد کہنے سننے کی ساری گنجائش ختم ہوگئی اور وہی انجام سامنے آگیا جو پچھلوں کے سامنے آیا تھا۔ صرف ایک اضافی بات ہوئی وہ یہ کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ جہنم میں دیگر عذابوں کے ساتھ اس کے مال و دولت اور خزانوں کو آگ میں دہکایا جائے اور اس سے اس کی پیٹھ، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو بار بار داغا جائے۔ اس کے بعد فرشتے اسے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک ایک کرکے لوگ آتے جارہے تھے اور ان کے معاملات نمٹتے جارہے تھے۔ چند لوگوں کا معاملہ بڑا ہی عبرتناک تھا۔ ان میں سے پہلا شخص آیا تو محسوس ہوا کہ اس کے نامۂ اعمال میں نیکیوں کے پہاڑ ہیں۔ عبادت، ریاضت، نوافل، اذکار، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کی قطار تھی جو اس کے نامۂ اعمال سے ختم ہی نہیں ہورہی تھی۔ مگر اس کے بعد فرشتے نے ا س کے نامۂ اعمال میں موجود ان اعمال کو پڑھنا شروع کیا جن کا تعلق مخلوق خدا کے ساتھ تھا تو معلوم ہوا کہ کسی کو گالی دی ہے، کسی کا مال دبایا ہے، کسی پر تہمت لگائی ہے، کسی کو مارا پیٹا ہے۔ چنانچہ بارگاہ الٰہی سے فیصلہ ہوا کہ سارے مظلوموں کو بلالو۔ اس کے بعد ہر مظلوم کو اس کے حصے کی نیکیاں دے دی گئیں۔ کچھ مظلوم پھر بھی رہ گئے تو حکم ہوا کہ ان کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دو۔ اس کے بعد جب اعمال کا وزن ہوا تو الٹے ہاتھ کا پلڑا بالکل جھک گیا۔ وہ شخص چیختا چلاتا رہا، مگر اس کی ایک نہ چلی اور فرشتے اسے کھینچتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے۔
کچھ لوگ ایسے آئے جن کا انجام دیکھ کر مجھے اپنی فکر پڑگئی۔ ان میں سے ایک عالم تھا۔ وہ پیش ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی ساری نعمتیں یاد دلائیں اور پھر اس سے پوچھا کہ تم نے جواب میں کیا کیا۔ اس نے اپنے علمی اور دعوتی کارنامے سنانے شروع کیے۔ جواب میں اسے کہا گیا کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ تجھے عالم کہا جائے۔ سو دنیا میں کہہ دیا گیا۔ فیصلے کا نتیجہ صاف تھا۔ چنانچہ فرشتے اسے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے۔ ایسا ہی معاملہ ایک شہید اور ایک سخی کے ساتھ ہوا۔ ان سے بھی وہی سوال ہوا۔ انہوں نے بھی اپنے کارنامے سنائے۔ مگر ہر دفعہ یہی جواب ملا کہ تم نے جو کچھ کیا دنیا میں لوگوں کو دکھانے اور ان کی نظروں میں مقام پانے کے لیے کیا۔ سو وہی تعریف تمھارا بدلہ ہے۔ نہ میرے لیے کچھ کیا نہ میرے پاس دینے کے لیے کچھ ہے۔ انہیں بھی جہنم کی سمت روانہ کردیا گیا۔ ان لوگوں کا حساب کتاب ہورہا تھا اور میں حساب لگارہا تھا کہ میں نے کتنے کام اللہ کے لیے کیے اور کتنے لوگوں کی نظروں میں مقام و بڑائی پانے کے لیے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
احتساب اور فیصلوں کے عمل میں بعض عجیب و غریب اور ناقابل تصور باتیں سامنے آرہی تھیں۔ دنیا میں ہونے والی سازشوں، معروف لوگوں کے قتل، گھریلو، دفتری، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل، ان میں ملوث افراد، خفیہ ملاقاتوں کی روداد، بند کمروں کی سرگوشیاں، غرض ہر چیز آج کے دن کھل رہی تھی۔ عزت دار ذلیل بن رہے تھے، شرفا بدکار نکل رہے تھے، معصوم گناہ گار ثابت ہورہے تھے۔ لوگ زندگی بھر جس پروردگار کو بھول کر جیتے رہے، وہ ان کے ہر ہر لمحے کا گواہ تھا۔ کوئی لفظ نہ تھا جو ریکارڈ نہ ہوا ہو اور کوئی نیت اور خیال ایسا نہ تھا جو اس کے علم میں نہ آیا ہو۔ رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل نہ تھا جو کیا گیا اور اس کا اندراج ایک کتاب میں نہ کرلیا گیا ہو۔ اور آج کے دن یہ سب کچھ سب لوگوں کے سامنے اس طرح کھول دیا گیا تھا کہ ہر انسان گویا بالکل برہنہ کھڑا ہوا تھا۔
میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا اور دل میں لرز رہا تھا کہ اگر میری غلطیاں اور کوتاہیاں بھی آج سامنے آگئیں تو کیا ہوگا؟ کوئی اور سزا نہ ملے، انسان کو صرف بے پردہ ہی کردیا جائے، یہی آج کے دن کی سب سے بڑی سزا بن جائے گی۔ صالح نے غالباً میرے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔ وہ میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا:
’’پروردگار عالم کی کریم ہستی آج اپنے نیک بندوں کو رسوا نہیں کرے گی۔ اس کی کرم نوازی اپنے صالح بندوں کی اس طرح پردہ پوشی کرے گی کہ ان کی کوئی خطا اور گناہ، کوئی لغزش اور بھول لوگوں کے سامنے نہیں آئے گی۔ تم بے فکر رہو۔ خدا سے زیادہ اعلیٰ ظرف ہستی تم کسی اور کی نہ دیکھو گے ۔‘‘
’’بے شک۔ مگر اس وقت تو میں خدا کی گرفت دیکھ رہا ہوں۔ اس طرح کہ جہنم کی سزا سنانے سے قبل بدکاروں کے چہرے سے شرافت اور معصومیت کا نقاب نوچ کر پھینکا جاتا ہے اور پھر ان کو عذاب کی نذر کیا جاتا ہے۔‘‘، میں نے اندیشہ ناک لہجے میں جواب دیا۔
صالح نے مجھے اطمینان دلاتے ہوئے کہا:
’’یہ صرف مجرموں کے ساتھ ہورہا ہے۔ جسمانی عذاب سے قبل انہیں رسوائی کا ذہنی عذاب دیا جاتا ہے۔ صالحین کے ساتھ یہ ہرگز نہیں ہوگا۔‘‘
ہم یہ گفتگو کررہے تھے کہ ایک اور شخص کو بارگاہ الوہیت میں پیش کیا گیا۔ اس نے پیش ہوتے ہی بارگاہ ایزدی میں عرض کیا:
’’پروردگار! میں بہت غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن بہت غربت میں گزرا۔ جوانی میں مجھ سے کچھ غلطیاں ہوگئیں تھیں، لیکن تو مجھے معاف کردے۔‘‘
فرشتے سے مخاطب ہوکر پوچھا گیا:
’’کیا واقعی اسے میں نے غربت سے آزمایا تھا؟‘‘
فرشتے نے ادب سے عرض کیا:
’’مالک! یہ ٹھیک کہتا ہے، لیکن یہ جنھیں غلطیاں کہہ رہا ہے وہ اس کے بدترین جرائم ہیں۔ یہ ایک رہزن بن گیا تھا۔ چند روپوں، نقدی اور موبائل جیسی معمولی چیزیں چھیننے کے لیے اس نے کئی لوگوں کو مار ڈالا اور کئی لوگوں کو زخمی کیا تھا۔‘‘
’’اچھا!‘‘، مالک ذوالجلال نے فرمایا۔
اس اچھا میں جو غضب تھا، اس میں اس شخص کا انجام صاف نظر آگیا تھا۔ پھر قہر الٰہی بھڑک اٹھا:
’’اے ملعون شخص! میں نے تجھے غریب تو پیدا کیا تھا لیکن بہترین جسمانی صحت اور صلاحیت سے یہ موقع دیا تھا کہ توزندگی میں ترقی کی کوشش کرتا۔ تو یہ کرتا تو میں تجھے مال سے نواز دیتا۔ کیونکہ تجھے اتنا ہی رزق ملنا تھا جو تیرے لیے مقدر تھا۔ مگر تو نے اس رزق کو خون بہاکر اور ظلم کرکے حاصل کیا۔ آج تیرا بدلہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کو تونے قتل کیا اور جس پر ظلم کیا، اس کے گناہوں کا بوجھ بھی تجھے اٹھانا ہوگا۔ تیرے لیے ابدی جہنم کا فیصلہ ہے۔ تجھ پر لعنت ہے۔ تیرے لیے ختم نہ ہونے والا دردناک عذاب ہے۔‘‘
یہ الفاظ ختم ہوئے ہی تھے کہ فرشتے تیر کی طرح اس کی طرف لپکے اور اسے انتہائی بے دردی سے مارتے پیٹتے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلی شخصیت جسے حساب کے لیے پیش کیا گیا اسے دیکھ کر میری اپنی حالت خراب ہوگئی۔ یہ کوئی اور نہیں میری بیٹی لیلیٰ کی سہیلی عاصمہ تھی۔ اس کی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر تھی۔ اسے بارگاہ احدیت میں پیش کیا گیا۔
پہلا سوال ہوا:
’’پانچ وقت نماز پڑھی یا نہیں؟‘‘
اس کے جواب میں وہ بالکل خاموش کھڑی رہی۔ دوبارہ کہا گیا:
’’کیا تو مفلوج تھی؟ کیا تو خدا کو نہیں مانتی تھی؟ کیا تو خود کو معبود سمجھتی تھی؟ کیا تیرے پاس ہمارے لیے وقت نہیں تھا؟ یا ہمارے سوا کوئی اور تھا جس نے تجھے دنیا بھر کی نعمتیں دی تھیں؟‘‘
عاصمہ کو اپنی صفائی میں پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
اس کی جگہ فرشتے نے کہا:
’’پروردگار! یہ کہتی تھی کہ خدا کو ہماری نماز کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’خوب! اس نے ٹھیک کہا تھا۔ مگر اب اس کو یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ نماز کی ضرورت ہمیں نہیں خود اس کو تھی۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ اس کے بغیر کوئی جنت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے۔‘‘
اس کے بعد عاصمہ سے اگلے سوالات شروع ہوئے۔ زندگی کن کاموں میں گزاری؟ جوانی کیسے گزاری؟ مال کہاں سے کمایا کیسے خرچ کیا؟ علم کتنا حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟ زکوۃ، انسانوں کی مدد، روزہ، حج۔ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات ایک کے بعد ایک کیے جاتے رہے۔ مگر ہر سوال اس کی ذلت اور رسوائی میں اضافہ کرتا گیا۔
آخرکار عاصمہ چیخیں مار کر رونے لگی۔ وہ کہنے لگی:
’’پروردگار! میں آج کے دن سے غافل رہی۔ ساری زندگی جانوروں کی طرح گزاری۔ عمر بھر دولت، فیشن، دوستیوں، رشتوں اور مزوں میں مشغول رہی۔ تیری عظمت اور اس دن کی ملاقات کو بھولی رہی۔ میرے رب مجھے معاف کردے۔ بس ایک دفعہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے۔ پھر دیکھ میں ساری زندگی تیری بندگی کروں گی۔ کبھی نافرمانی نہیں کروں گی۔ بس مجھے ایک موقع اور دے دے۔‘‘، یہ کہہ کر وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگی۔
’’میں تمھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دوں تب بھی تم وہی کروگی۔ اگر تمھیں ایک موقع اور دے دوں تب بھی تمھارے رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ میں نے اپنا پیغام تم تک پہنچادیا تھا۔ مگر تمھاری آنکھوں پر پٹی بندھی رہی۔ تم اندھی بنی رہی۔ اس لیے آج تم جہنم کے تاریک گڑھے میں پھینکی جاؤگی۔ تمہارے لیے نہ کوئی معافی ہے اور نہ دوسرا موقع۔‘‘
پھراس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو اس سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہوچکا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عاصمہ کا انجام دیکھ کر میری حالت دگرگوں ہوگئی۔ میرے لاشعور میں یہ خوف پوری طرح موجزن تھا کہ اگر اسی طرح میرے بیٹے جمشید کے ساتھ ہوا تو یہ منظر میں دیکھ نہ سکوں گا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’میں اب یہاں ٹھہرنے کی ہمت نہیں پاتا۔ مجھے یہاں سے لے چلو۔‘‘
صالح میری کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔ وہ بغیر کوئی سوال کیے میرا ہاتھ پکڑے ایک سمت روانہ ہوگیا۔ راستے میں جگہ جگہ انتہائی عبرتناک مناظر تھے۔ ان گنت صدیوں تک میدان حشر کے سخت ترین ماحول کی اذیتیں اٹھاکر لوگ آخری درجے میں بدحال ہوچکے تھے۔ دولتمند، طاقتور، بارسوخ، ذہین، حسین، صاحب اقتدار اور ہر طرح کی صلاحیت کے حاملین اس میدان میں زبوں حال پھررہے تھے۔ ان کے پاس دنیا میں سب کچھ تھا۔ بس ایمان و عمل صالح کا ذخیرہ نہیں تھا۔ یہ پائے ہوئے لوگ آج سب سے زیادہ محروم تھے۔ یہ خوشحال لوگ آج سب سے زیادہ دکھی تھے۔ یہ آسودہ حال لوگ آج سب سے زیادہ بدحال تھے۔ ہزاروں برس سے خوار وخراب یہ لوگ موت کی دعائیں کرتے، رحم کی امید باندھے، کوئی سفارش اور شفاعت ڈھونڈتے ہوئے پریشان حال گھوم رہے تھے۔ کہیں عذاب کے فرشتوں سے مار کھاتے، کہیں بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے، کہیں دھوپ کی شدت سے بے حال ہوتے یہ لوگ نجات کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ اپنی اولادوں کو، اپنے بیوی بچوں کو، اپنی ساری دولت کو، ساری انسانیت کو فدیے میں دے کر آج کے دن کی پکڑ سے بچنا چاہتے تھے۔ مگر یہ ممکن نہ تھا۔ وہ وقت تو گزرگیا جب چند روپے خرچ کرکے، کچھ وقت دے کر جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں کا حصول ممکن تھا۔ یہ لوگ ساری زندگی، کیرئیر، اولاد اور جائیدادوں پر انویسٹ کرتے رہے۔ کاش یہ لوگ آج کے اس دن کے لیے بھی انویسٹ کرلیتے تو اس حال کو نہ پہنچتے۔
میدان حشر میں بار بار لوگوں کا نام پکارا جاتا۔ جس کا نام لیا جاتا دو فرشتے تیزی سے اس کی سمت جھپٹتے اور اس کو لے کر پروردگار کے حضور پیش کردیتے۔ لگتا تھا کہ فرشتے مسلسل اپنے شکار پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کے اس مجمع سے بلا تردد اپنے مطلوب شخص کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ میری متلاشی نگاہیں لاشعوری طور پر جمشید کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ مگر وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔ صالح میری کیفیت کو بھانپ کر بولا:
’’میں جان بوجھ کر تمھیں اس کے پاس نہیں لے جارہا۔ اس کی بیوی، بچے، ساس، سسر سب کے لیے پہلے ہی جہنم کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ اس کا کیا انجام ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود کوئی فیصلہ کردیں۔‘‘
اس کی بات سن کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میری کیفیت بہت اداس اور غمگین ہوجاتی۔ لیکن نہ جانے کیوں میرے دل میں ایک احساس پیدا ہوا۔ میں صالح سے کہنے لگا:
’’میرے رب کا جو فیصلہ ہوگا وہ مجھے قبول ہے۔ میں اپنے بیٹے سے جتنی محبت کرتا ہوں میرا مالک میرا ان داتا اس سے ہزاروں گنا زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ بلکہ ساری مخلوقات اپنی اولاد کو جتنا چاہتی ہے، میرا رب اس سے بڑھ کر اپنے بندوں پہ شفقت فرمانے والا ہے۔ جمشید کی معافی کی اگر ایک فیصد بھی گنجائش ہے تو یقینا اسے معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر وہ کسی صورت معافی کے لائق نہیں تو رب کے ایسے کسی مجرم سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں۔ چاہے وہ میرا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
میری بات سن کر صالح مسکرایا اور بولا:
’’تم بھی بہت عجیب ہو۔ اتنے عجیب ہو کہ بس۔ ۔ ۔ ‘‘
’’نہیں عجیب میں نہیں میرا رب ہے۔ اس نے میرے قلب پر سکینت نازل کردی ہے۔ اب مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں۔ ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں؟‘‘
’’یہ ہوئی نا بات۔ اب تم لوٹے ہو۔ اب تم دوبارہ ایک باپ سے عبد اللہ بنے ہو۔ لیکن میں تمھیں یہ بتادوں کہ ابھی بھی لوگوں کی نجات کا امکان ہے۔ اللہ تعالیٰ میدان حشر کی اس سختی کو بہت سے لوگوں کے گناہوں کی معافی کا سبب بناکر ان کے نیک اعمال کی بنا پر انھیں معاف کررہے ہیں۔ تم نے اتفاق سے سارے مجرموں کا حساب کتاب ہوتے دیکھ لیا، مگر کچھ لوگوں کو ابھی بھی معاف کیا جارہا ہے۔ اس لیے کہ خد اکے انصاف میں کوئی سچی نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔‘‘
میں نے صالح کی بات کے جواب میں کہا:
’’بے شک میرا رب بڑا قدردان ہے، مگر ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’ہم دراصل جہنم کی سمت جارہے ہیں۔ میں تمھیں اب اہل جہنم سے ملوانا چاہ رہا ہوں۔‘‘
’’تو کیا ہم جہنم میں جائیں گے؟‘‘
’’نہیں نہیں۔ یہ بات نہیں۔ اس وقت اہل جہنم کو جہنم کے قریب پہنچادیا گیا ہے۔ یہ جو تم میدان دیکھ رہے ہو اس میں الٹے ہاتھ کی سمت ایک راستہ بتدریج گہرا ہوکر کھائی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جہنم کے ساتوں دروازے اسی کھائی سے نکلتے ہیں۔ جیسا کہ تم نے قرآن میں پڑھا ہے کہ ان سات دروازوں میں سات مختلف قسم کے مجرم داخل کیے جائیں گے۔‘‘
صالح مجھے یہ تفصیلات بتا ہی رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ میدان میں نشیب کی سمت ایک راستہ اتررہا تھا۔ ہم اس راستے پر نہیں گئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جو بلند زمین تھی اس پر چلتے رہے۔ تھوڑی دیر میں یہ راستہ تنگ ہوکر کھائی کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ ہم اوپر ہی تھے جہاں سے ہمیں نیچے کا منظر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ اس راستے پر جگہ جگہ فرشتے تعینات تھے جو مجرموں کو مارتے گھسیٹتے ہوئے لارہے تھے۔
تھوڑا آگے جاکر اس تنگ راستے یا کھائی پر رش بڑھنے لگا۔ یہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ بدہیبت اور بدشکل مرد و عورت اس جگہ ٹھسے پڑے تھے۔ یہ وہ ظالم اور فاسق و فاجر لوگ تھے جن کے انجام کا اعلان ہوچکا تھا اور جہنم میں داخلے سے قبل انہیں جانوروں کی طرح ایک جگہ ٹھونس دیا گیا تھا۔
وقفے وقفے سے جہنم کے شعلے بھڑکتے اور آسمان تک بلند ہوتے چلے جاتے۔ ان کے اثر سے یہاں کا سارا آسمان سرخ ہورہا تھا۔ جبکہ ان کے دہکنے کی آواز ان مجرموں کے دلوں کو دہلارہی تھی۔ کبھی کبھار کوئی چنگاری جو کسی بڑے محل جتنی وسیع ہوتی اس کھائی میں جاگرتی جس سے زبردست ہلچل مچ جاتی۔ لوگ آگ کے اس گولے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو کچلتے اور پھلانگتے ہوئے بھاگتے۔ ایسا زیادہ تر اس وقت ہوتا جب کچھ بڑے مجرم اس گروہ کی طرف لائے جاتے تو آگ کا یہ گولہ ان کا استقبال کرنے آتا۔ جس کے نتیجے میں ان لوگوں کی اذیت اور تکلیف میں اور اضافہ ہوجاتا۔
صالح نے ایک سمت اشارہ کرکے مجھ سے کہا:
’’وہاں دیکھو۔‘‘
جیسے ہی میں نے اس سمت دیکھا تو مجھے وہاں کی ساری آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔ یہ کچھ لیڈر اور ان کے پیروکار تھے جو آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ پیروکار اپنے لیڈروں سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے تمھارے کہنے پر حق کی مخالفت کی تھی۔ تم کہتے تھے کہ ہماری بات مانو تمھیں اگر کوئی عذاب ہوگا تو ہم بچالیں گے۔ کیا آج ہمارے حصے کا کوئی عذاب تم اٹھاسکتے ہو یا کم از کم اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی بتادو؟ تم تو بڑے ذہین اور ہر مسئلے کا حل نکال لینے والے لوگ تھے۔
وہ لیڈر جواب دیتے: اگر ہمیں کوئی راستہ معلوم ہوتا تو پہلے خود نہ بچتے۔ ویسے ہم نے تو تم سے نہیں کہا تھا کہ جو ہم کہیں وہ ضرور مانو۔ ہم نے زبردستی تو نہیں کی تھی۔ ہمارے راستے پر چلنے میں تمھارے اپنے مفادات تھے۔ اب تو ہم سب کو مل کر اس عذاب کو بھگتا ہوگا۔ اس پر پیروکار کہتے: اے اللہ ہمارے ان لیڈروں نے ہم کو گمراہ کیا۔ ان کو دوگنا عذاب دے۔ اس پر وہ لیڈر غصے میں آکر کہتے کہ ہمیں بد دعا دے کر تمھاری اپنی حالت کونسی بہتر ہوجانی ہے۔
اس گفتگو پر صالح نے یہ تبصرہ کیا:
ان سب کے لیے ہی دوگنا عذاب ہوگا کیونکہ جو پیروکار تھے وہ بعد والوں کے لیڈر بن گئے اور ان کو اسی طرح گمراہ کیا۔ دیکھو ان کے مزید پیروکار آرہے ہیں۔
میں نے دیکھا تو واقعی اس ہجوم میں دھکم پیل شروع ہوگئی کیوں کہ کچھ اور لوگ ان کی طرف آئے تھے۔ وہ لیڈر بولے۔ ان بدبختوں کو بھی یہیں آنا تھا۔ پہلے ہی جگہ اتنی تنگ ہے یہ بدبو دار لوگ اور آگئے۔ نئے آنے والے اس بدترین استقبال پر آپے سے باہر ہوگئے اور ایک نیا جھگڑا شروع ہوگیا۔ جو تھوڑی دیر میں مار پیٹ میں تبدیل ہوگیا۔ اہل جہنم ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے، گالیاں بکتے باہم دست و گریباں ہوگئے۔ لاتیں گھونسے، دھکم پیل اور چیخ و پکار کے اس حبس زدہ ماحول میں لوگوں کی جو حالت ہورہی تھی، ظاہر ہے میں صرف دیکھ اور سن کر اس کا اندازہ نہیں کرسکتا تھا۔ مگر مجھے یقین تھا کہ یہ لوگ اپنی دنیا کی زندگی کو یاد کرکے ضرور رو رہے ہوں گے جس میں ان کے پاس سارے مواقع تھے، مگر جنت کی نعمت کو چھوڑ کر انھوں نے اپنے لیے جہنم کی اس وحشت کو پسند کرلیا۔ صرف چند روزہ مزوں ، فائدوں ،خواہشات اور تعصبات کی خاطر۔
صالح مجھ سے کہنے لگا:
’’ابھی تو یہ لوگ جہنم میں گئے ہی نہیں ۔ وہاں تو اس سے کہیں بڑھ کر عذاب ہوگا۔ ان کے گلے میں غلامی اور ذلت کی علامت کے طور پر طوق پڑا ہوگا۔ پہننے کے لیے گندھک اور تارکول کے کپڑے ملیں گے جو دور ہی سے آگ کو پکڑلیں گے۔ یہ آگ ان کے چہرے اور جسم کو جھلسادے گی۔ وہ اذیت سے تڑپتے رہیں گے مگر کوئی ان کی مدد کو نہ آئے گا نہ ان پر ترس کھائے گا۔ پھر ان کی جھلسی ہوئی جلد کی جگہ نئی جلد پیدا ہوگی جس سے انھیں شدید خارش ہوگی۔ یہ اپنے آپ کو کھجاتے کھجاتے لہو لہان کرلیں گے، مگر کھجلی کم نہ ہوگی۔
جب کبھی انہیں بھوک لگے گی تو انھیں کھانے کے لیے خاردار جھاڑیاں اور کڑوے زہریلے تھوہر کے درخت کے وہ پھل دیے جائیں گے جن پر کانٹے لگے ہوں گے۔ جبکہ پینے کے لیے غلیظ اور بدبودار پیپ، ابلتا پانی اور کھولتے تیل کی تلچھٹ ہوگی جو پیٹ میں جاکر آگ کی طرح کھولے گا اور پیاس کا عالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اس کو تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پینے پر مجبور ہوں گے۔ وہ پانی ان کی پیٹ کی انتڑیاں کاٹ کر باہر نکال دے گا۔
جہنم میں فرشتے انھیں بڑے بڑے ہتھوڑوں سے ماریں گے۔ جس سے ان کا جسم بری طرح زخمی ہوجائے گا۔ ان کے زخموں سے جولہو اور پیپ نکلے گی وہ دوسرے مجرموں کو پلائی جائے گی۔ پھر ان کو زنجیروں میں باندھ کر کسی تنگ جگہ پر ڈال دیا جائے گا۔ وہاں ہر جگہ سے موت آئے گی مگر وہ مریں گے نہیں۔ اس وقت ان کے لیے سب سے بڑی خوش خبری موت کی خبر ہوگی مگر وہاں انھیں موت نہیں آئے گی۔ وقفے وقفے سے یہ سارے عذاب وہ ہمیشہ بھگتتے رہیں گے۔‘‘
میں یہ تفصیلات سن کر لرز اٹھا۔ صالح نے مزید کہا:
’’اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرنے سے قبل یہاں اوپر لایا جائے گا اور انہیں جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل بٹھادیا جائے گا۔ چنانچہ ان کے لیے سب سے پہلا عذاب یہ ہوگا کہ وہ اپنی آنکھوں سے سارے عذاب دیکھ لیں گے۔ پھر گروہ در گروہ اہل جہنم کو جہنم کی تنگ و تاریک جگہوں پر لے جاکر ٹھونس دیا جائے گا اور عذاب کا وہ سلسلہ شروع ہوگا جس کی تفصیل میں نے ابھی بیان کی ہے۔‘‘
’’تو کیا سارے اہل جہنم کا یہی انجام ہوگا؟‘‘
’’نہیں یہ تو بڑے مجرموں کے ساتھ ہوگا۔ دوسروں کے ساتھ ہلکا معاملہ ہوگا مگر یہ ہلکا معاملہ بھی بہرحال ناقابل برداشت عذاب ہی ہوگا۔‘‘
پھر اس نے ایک اور سمت اشارہ کیا۔ تو میں نے دیکھا کہ وہاں بعض انتہائی بدہیبت اور مکروہ شکل کے لوگ موجود ہیں۔ صالح ایک ایک کرکے مجھے بتانے لگا کہ ان میں سے کون شخص کس رسول کا کافر اور مخالف تھا۔ میں نے خاص طور پر نمرود اور فرعون کو دیکھا کیونکہ ان کا ذکر بہت سنا تھا۔ انھی کے ساتھ ابوجہل، ابولہب اور قریش کے دیگر سردار موجود تھے۔ ان سب کی حالت ناقابل بیان حد تک بری ہوچکی تھی۔ وقت کے یہ سردار اس وقت بدترین غلاموں سے بھی بری حالت میں تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ سچائی آخری درجے میں ان کے سامنے آچکی تھی مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ خدا کے مقابلے میں سرکشی کی اور مخلوق خدا پر ظلم و ستم کا راستہ اختیار کیا۔
اس وقت صالح نے مجھے ایک بہت ہی عجیب مشاہدہ کرایا۔ اس کے توجہ دلانے پر میں نے دیکھا کہ ان سب کے وسط میں ایک بہت بڑا دیو ہیکل شخص کھڑا تھا۔ اس کے جسم سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اور پورا جسم زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا۔ وہ ان سب سے مخاطب ہوکر کہہ رہا تھا کہ دیکھو اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور جو وعدے میں نے کیے تھے وہ سب جھوٹے تھے۔ آج مجھے برا بھلا نہ کہو۔ میں تمھارے سارے اعمال سے بری ہوں۔ میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ میرا تم پر کوئی اختیار نہ تھا۔ تم نے جو کیا اپنی مرضی سے کیا۔ اگر تم نے میری بات مانی تو اس میں میرا کیا قصور۔ تم لوگ مجھے مت کوسو بلکہ خود کو ملامت کرو۔ آج نہ میں تمھارے لیے کچھ کرسکتا ہوں اور نہ تم میرے لیے کچھ کرسکتے ہو۔
مجھے اس گفتگو سے اندازہ ہوگیا کہ یہ موصوف کون ہیں۔ میں نے اپنے اندازے کی تصدیق کے لیے صالح کو دیکھا تو وہ بولا:
’’تم ٹھیک سمجھے۔ یہ ابلیس ہے۔ اللہ کا سب سے بڑا نافرمان۔ آج سب سے بڑھ کر عذاب بھی اسی کو ہوگا۔ مگر باقی لوگوں کو بھی ان کے کیے کی سزا ملے گی۔‘‘
میں اوپر کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں اپنے عظیم رب کی شکر گزاری کررہا تھا جس نے مجھے شیطان کے شر اور دھوکے سے بچالیا وگرنہ زندگی میں بارہا اس ملعون نے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عافیت میں رکھا۔ میرا ہمیشہ یہ معمول رہا کہ میں شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا تھا۔ سو میرے اللہ نے میری لاج رکھی۔ مگر جنھوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور شیطان کو اپنا دوست بنایا وہ بدترین انجام سے دوچار ہوگئے۔
اسی اثنا میں صالح میری طرف مڑا اور بولا:
’’عبد اللہ چلو تمھیں بلایا جارہا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا کیوں؟
’’وہ بولا جمشید کو حساب کتاب کے لیے پیش کیا جانے والا ہے۔ تمھیں گواہی کے لیے بلایا جارہا ہے۔‘‘
’’میری گواہی؟‘‘
’’ہاں تمھاری گواہی۔‘‘
’’میری گواہی اس کے حق میں ہوگی یا اس کے خلاف۔‘‘
’’دیکھو اگر اللہ نے اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر وہ تم سے کوئی ایسی بات پوچھیں گے جس کا جواب اس کے حق میں جائے گا۔ اور اگر اس کے گناہوں کی بنا پر اسے پکڑنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ تم سے کوئی ایسی بات پوچھیں گے جو اس کے خلاف جائے گی۔ یا ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اور معاملہ کریں۔ حتمی بات صرف وہی جانتے ہیں۔‘‘
میری حالت جو ٹھہری ہوئی تھی ایک دفعہ پھر دگرگوں ہوگئی اور میں لزرتے دل اور کانپتے قدموں کے ساتھ صالح کے ہمراہ روانہ ہوگیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔