پندرہواں باب: جب زندگی شروع ہوگی
جنت کی اس بادشاہی میں آہستہ آہستہ میرے جاننے والے لوگ بھی آتے جارہے تھے۔ مختلف مجالس میں ان سے ملاقاتیں ہورہی تھیں۔ ان میں میری دعوت پر تبدیل ہوکر اعلیٰ ایمانی اور اخلاقی زندگی اختیار کرلینے والے لوگ بھی تھے اور خدا کے دین کی نصرت میں میرا ساتھ دینے والے میرے رفقا بھی۔ ان میں سے ہر شخص سے مل کر یوں لگتا تھا کہ زندگی میں خوشی اور محبت کا ایک در اور کھل گیا ہے۔ تاہم وہ ابھی تک نہیں آئی تھی جس کا مجھے انتظار تھا۔ گرچہ اس انتظار میں کوئی زحمت یا پریشانی نہیں تھی بلکہ مزہ ہی تھا۔ پھر ایک روز، گرچہ اس نئی دنیا میں شب و روز نہیں رہے تھے، صالح میرے پاس آکر کہنے لگا:
’’سردار عبدا للہ! تمھارے لیے ایک بری خبری ہے۔‘‘
مجھے حیرت ہوئی کہ اب جنت میں مجھے یہ کیا بری خبر سنائے گا۔ تاہم اس کا لہجہ ایساتھا کہ میں پوچھنے پر مجبور ہوگیا:
’’کیوں بھائی! یہاں کیا خبر بری خبر ہوسکتی ہے؟‘‘
’’سردار عبدا للہ! بری خبر یہ ہے کہ تمھارے عیش کرنے کے دن ختم ہوگئے۔ تم نے ناعمہ کے پیچھے آزادی کے بہت دن دیکھ لیے۔ اب تمھاری نگرانی کے لیے ناعمہ خود آرہی ہے۔‘‘
’’کیا سچ؟‘‘، میں نے شدت جذبات سے مغلوب ہوکر صالح کو گلے لگاتے ہوئے کہا:
’’اور کیا میں جھوٹ بولوں گا؟‘‘
پھر میرے سر کو سہلاتے ہوئے بولا:
’’مجھے چھوڑدو۔ میں نے ناعمہ کے آنے کی خوش خبری دی ہے۔ مگر میں خود ناعمہ نہیں ہوں۔‘‘
’’تم ہو بھی نہیں سکتے۔‘‘، میں نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا۔
’’لیکن یہ بتاؤ کہ اتنی اچھی خبر تم مجھے دھمکی کے انداز میں کیوں سنارہے ہو۔ ویسے تمھیں ناعمہ سے اگر یہی توقعات ہیں تو مجھے یقین ہے کہ تمھیں بہت مایوسی ہوگی۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ میں ناعمہ کے آنے پر اسے ایک بہترین تحفہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا تحفہ دینا چاہتے ہو؟‘‘
’’ایک بہترین گھر۔‘‘
’’بھائی تمھارے پاس تمھارا گھر ہے اور اس کے پاس اس کا گھر ہوگا۔ اب اس نئی دنیا میں خاندانی نظام تو ہوگا نہیں کہ گھر دینا تمھاری ذمے داری ہو، نہ اسے تمھارے بچوں کو گھر بیٹھ کر پالنا ہے۔ پھر ایک نیاگھر کیوں بناتے ہو؟‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ ہر جنتی کی اپنی رہائش اور اپنی سلطنت ہوگی، لیکن میری خواہش ہے کہ اپنی پسند سے ناعمہ کے لیے ایک گھر بناؤں جو میری سلطنت میں ہو۔ اور پھر اس گھر کا ناعمہ کو گفٹ کروں۔‘‘
’’جانتے نہیں اللہ تعالیٰ نے اسراف کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا ہے؟‘‘، وہ اس وقت مجھے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔
’’جنت میں شیطان نہیں آسکتا، مگر اس کے بعض شاگرد ضرور موجود ہیں جو میاں بیوی میں محبت پیدا کرنے کے بجائے دوری پیدا کرتے ہیں۔‘‘، میں نے مصنوعی غصے کے ساتھ اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘، وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا:
’’مجھے بتاؤ کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
اس کے بعد میں نے اسے ساری تفصیلات سمجھائیں۔ میری بات ختم ہوئی تو وہ بولا:
’’چلو محل دیکھنے چلو۔‘‘
میں نے حیران ہوکر پوچھا:
’’کیا مطلب؟ کیا محل بن گیا؟‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو تم دنیا میں کھڑے ہو کہ پہلے زمین خریدوگے، پھر نقشہ پاس کراؤگے، پھر ٹھیکیدار ڈھونڈو گے اور پھر کئی ماہ میں محل تعمیر ہوگا۔ سردار عبد اللہ! یہ تمھاری بادشاہی ہے۔ خدا کی قوت تمھارے ساتھ ہے۔ تم نے کہا اور سب ہوگیا۔ یہی یہاں کا قانون ہے۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم وسیع و عریض سمندر کے سینے پر سفر کررہے تھے۔ صالح اور میں سمندری جہاز جیسی کسی چیز میں سوار تھے۔ سفر کا یہ طریقہ صالح کے کہنے پر ہی اختیار کیا گیا تھا۔ بقول اس کے جنت میں جتنا خوشگوار منزل پرپہنچنا ہوتا ہے اتنا ہی مزیدار وہاں تک پہنچنے کا راستہ ہوتا ہے۔ اس کی بات ٹھیک تھی۔ مجھے دنیا کی زندگی میں سمندری سفر کبھی پسند نہیں آیا تھا۔ مگر اس سفر کی بات ہی کچھ اور تھی۔ یہ جہاز ایک تیرتا ہوا محل تھا جس کے عرشے پر ہم دونوں کھڑے تھے۔ دھیمی ہوا اور خوشگوار موسم میں آگے بڑھتے ہوئے ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ رہے تھے۔
ہماری منزل وہ پہاڑی جزیرہ تھا جسے ایک محل کی شکل میں ناعمہ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ محل بالکل ویسا ہی تھا جیسا میں صالح کو بتارہا تھا۔ بیچ سمندر میں ایک بہت بڑا جزیرہ، جہاں سرسبز پہاڑ، دریا، ندیاں، آبشاریں، سمندر کے ساتھ چلنے والے پہاڑی راستے، گھاس کے بڑے میدان اور ان سب کے درمیان ایک گھر۔ جس کا فرش شفاف ہیرے کا بنا ہوا۔ ایسا فرش جو ہیرے کی طرح چمکدار اور شیشے کی طرح شفاف ہو، اتنا شفاف کہ اس کے نیچے بنے حوضوں میں بہتا پانی اور ان میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں صاف نظر آئیں۔ جس کی دیواریں شفاف چاندی کی بنی ہوں جن سے باہر کا ہر منظر نظر آئے اور جس کی بلند و بالا چھت سونے کی ہو اور چھت پر موتی، جواہرات اور قیمتی پتھر جڑے ہوں۔ یہ محل کئی منزل بلند ہو۔ اتنا بلند کہ اردگرد کے پہاڑوں سے بھی بلند ہوجائے۔ جس کی ہر منزل سے فطرت اور اس کی صناعی کا ایک نیا زاویہ نظر آئے۔
یہاں آکر جو کچھ میں نے سامنے دیکھا وہ میرے بیان اور اندازے سے بھی زیادہ حسین تھا۔ اس کا سبب شاید یہ تھا کہ میرے الفاظ ان نعمتوں کو بیان کرنے کے لیے بہت کم تھے جو مجھے حاصل تھیں۔ میں نے تو ایک عمومی نقشہ یا خیال بیان کیا تھا، مگر اس نقشہ میں ڈیزائن، رنگ و روپ، روشنی و آرائش اور دیگر مواد کی جورنگ آمیزی ہوئی تھی وہ میرے بیان اور تصورات دونوں سے کہیں زیادہ تھی۔ صالح نے میری بات کو اصول میں سمجھا اور اس کے بعد وہ محل بنوادیا جو حسن تعمیر کا ایک ایسا شاہکار تھا جو تصور سے زیادہ دلفریب تھا۔ یہ محل اتنا بڑا تھا کہ اسے پورا دیکھنے کے لیے بھی بہت وقت درکار تھا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’میرا اطمینان ہوگیا۔ ایسا ہے کہ ابھی چلتے ہیں۔ ناعمہ آئے گی تو اس کے ساتھ۔ ۔ ۔ ‘‘
میرا جملہ یہیں تک پہنچا تھا کہ موسیقی اور نغمگی سے بھرپور ایک آواز آئی:
’’مگر میں تو یہاں آچکی ہوں۔‘‘
میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ ناعمہ تھی اور ناعمہ نہیں بھی تھی۔ حشر کے دن میں نے ناعمہ کو نوجوان اور بہت خوبصورت دیکھا تھا۔ مگر یہاں میرے سامنے جو لڑکی کھڑی تھی اس کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے حسن، خوبصورتی، نوجوانی، شباب، روپ، کشش جیسے الفاظ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ میں ابھی اسی کیفیت میں تھا کہ صالح کی آواز آئی:
’’آپ سے ملیے۔ آپ سردار عبد اللہ! ہیں۔ یہ ناعمہ ہیں۔ اور یہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو ایک دوسرے سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔‘‘
’’تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ ناعمہ پہلے سے یہاں ہوگی۔‘‘، میں نے قدرے ناراضی کے ساتھ صالح کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ناعمہ صالح کی صفائی پیش کرتے ہوئے بولی:
’’انھیں میں نے منع کیا تھا۔ میں آپ کو سرپرائز دینا چاہتی تھی۔‘‘
’’یہ بھی آپ کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ دیکھا آپ نے، آپ کے لیے کتنا غیر معمولی گھر بنوایا ہے انہوں نے۔‘‘
’’ہاں میں نے دیکھ لیا۔ مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آتا۔‘‘
’’اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا۔‘‘، میں نے ناعمہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر صالح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’آپ کی بیگم تو ہیں نہیں۔ آپ رخصت ہونے کا کیا لیں گے؟‘‘
اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا:
’’میں دنیا میں بھی ہمیشہ تمھارے ساتھ رہا تھا۔ ابھی بھی چاہتا ہوں کہ ہمیشہ تمھارے ساتھ رہوں۔‘‘
’’مگر بھائی اس وقت آپ نظر نہیں آیا کرتے تھے۔‘‘
وہ شرارتی انداز میں بولا:
’’یہ اب بھی ممکن ہے کہ میں غائب رہ کر یہاں موجود رہوں۔‘‘
یہ کہتے ہی وہ ہماری نظروں سے غائب ہوگیا اور پھر اس کی آواز آئی:
’’ایسے ٹھیک ہے؟‘‘
’’نہیں بھئی نہیں۔ ایسے نہیں چلے گا۔‘‘، ناعمہ ایک دم بولی۔
صالح دوبارہ ظاہر ہوگیا۔ ناعمہ نے اسے دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور بولی:
’’آپ وعدہ کریں کہ جب بھی آئیں گے انسانوں کی طرح سامنے آئیں گے اور جائیں گے تو انسانوں کی طرح جائیں گے۔‘‘
’’اچھا بھئی اچھا! ‘‘، اس نے سر ہلاکر جواب دیا، مگر اس کی آنکھوں میں بدستور شرارت چمک رہی تھی۔ وہ بڑی معصومیت سے بولا:
’’مسئلہ یہ ہے کہ میں انسان تو ہوں نہیں۔ پھر انسانوں والے ضابطے مجھ پر کیسے اپلائی ہوسکتے ہیں؟‘‘
’’سوچ لو! میری پہنچ تمھارے سردار تک ہے۔ میری ایک شکایت پر وہ تمھیں واقعی انسان بناسکتے ہیں۔‘‘، میں نے مسکراکر کہا تو وہ لہجے میں اداسی لاتے ہوئے بولا:
’’یار دھمکیاں کیوں دیتے ہو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آؤں گا اور جاؤں گا تو اجازت لے لیا کروں گا۔ اور اگر تم کہو تو میں ابھی چلا جاتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پیٹھ پھیر کر مڑا، دو چار قدم چلا پھر گھوم کر ناعمہ سے بولا:
’’گرچہ میرے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ تم دونوں کے بچے یہاں آچکے ہیں اور ان کا فیصلہ ہے کہ ہم اپنی ماں کی شادی خود کریں گے۔ اس کے بعد ہی تم عبد اللہ کے گھر آسکتی ہو۔‘‘
’’صالح نے بالکل صحیح کہا۔‘‘، لیلیٰ اندر آتے ہوئے زور سے بولی۔ اور تیر کی طرح بھاگ کر میرے پاس آگئی۔ اس کے پیچھے ہی انور، جمشید، عالیہ اور عارفہ بھی تھے۔ ان کو دیکھ کر میری خوشی کئی گنا بڑھ گئی۔ میں نے سب کو اپنے گلے لگا کر پیار کیا۔ملنے ملانے سے فارغ ہوئے تو ناعمہ نے قدرے غصے کے ساتھ ان سے کہا:
’’یہ کیا بچپنے والی بات تم لوگ کررہے ہو کہ ہماری دوبارہ شادی ہوگی؟‘‘
عالیہ نے کہا:
’’امی پچھلی دنیا میں ہم میں سے کوئی بھی آپ کی شادی میں موجود نہیں تھا۔ اس لیے ہم سب بہن بھائیوں کی متفقہ رائے ہے کہ ہم آپ لوگوں کی شادی بڑے دھوم دھام سے کریں گے۔ ہم آپ کو خود دلہن بناکر رخصت کریں گے اور اس وقت تک آپ کا ابو سے پردہ ہوگا۔‘‘
انور نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:
’’پردے والی بات تو بڑی سخت ہے۔ بس اتنی شرط لگادو کہ تنہائی میں نہیں ملیں گے۔‘‘
’’اس مہربانی کا بہت شکریہ۔ یہ بتادو کہ شادی کب ہوگی۔‘‘، میں نے بے بسی سے پوچھا۔
’’جب تیاریاں ہوجائیں گی۔‘‘، عارفہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
’’اور کیا تیاریاں ہوں گی۔‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’میں بتاتی ہوں۔‘‘، لیلیٰ بولی۔
’’جگہ تو یہی ٹھیک ہے۔ بس کپڑے، زیورات وغیرہ کا انتظام کرنا ہے۔‘‘
’’اور مجھے بھی اپنے ذرا اچھے کپڑے بنوانے ہیں۔ ۔ ۔ ابو جیسے۔ مجھے تو ابو کے کپڑے دیکھنے کے بعد اپنے کپڑے اچھے ہی نہیں لگ رہے۔‘‘، جمشید نے بھی مطالبات میں اپنا حصہ ڈالا۔
’’اچھا یہ سب تیاریاں ہوگئیں تو شادی ہوجائے گی؟‘‘، میں نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں۔‘‘، سب نے مل کر کہا۔
’’چلو پھر ابھی ہی چلو۔ میں تمھیں جنت کے سب سے بڑے شاپنگ کے علاقے میں لے چلتا ہوں۔ ویسے تو تم لوگ وہاں گھس بھی نہیں سکتے، لیکن میری طرف سے جو دل چاہے آج شاپنگ کرلو۔‘‘
اس پر سارے بچوں نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا۔ پھر ہم شاپنگ کے لیے روانہ ہوگئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ایک اور الف لیلوی جگہ تھی۔ میں اس سے پہلے صالح کے ساتھ یہاں کئی دفعہ آچکا تھا۔ مگر ہر دفعہ یہاں نت نئی چیزیں موجود ہوا کرتی تھیں۔ اس جگہ کے لیے شاپنگ سنٹر یا بازار جیسی اصطلاحات قطعاً غیر مناسب تھیں۔ یہ سیکڑوں میل تک پھیلا ہوا ایک علاقہ تھا جو رنگ و نور کے سیلاب سے روشن تھا۔ یہاں رات کا وقت ہی طاری رہا کرتا تھا۔ کھانے پینے، پہننے اور برتنے کی یہاں اتنی اشیا تھیں کہ ان کی تعداد تو دور کی بات ہے، ان کی مختلف اقسام اور ورائٹی ہی کروڑوں کی تعداد میں تھی۔ ہر جگہ یہاں فرشتے تعینات تھے۔ لوگ ڈسپلے سے چیز پسند کرلیتے اور پھر فرشتوں کو نوٹ کرادیتے۔ جس کے بعد یہ چیزیں لوگوں کے گھروں میں پہنچادی جاتیں۔ فرشتے ہر شخص کا ریکارڈ چیک کرکے اس کے بارے میں سب کچھ جان لیتے۔ اس بازار کے دو حصے تھے ایک حصے میں عام جنتی خریداری کرسکتے تھے۔ دوسرا حصہ خواص کے لیے مخصوص تھا۔ عام لوگ یہاں جا تو سکتے تھے، مگر یہاں خریداری کی اجازت صرف اعلیٰ درجے کے جنتیوں کو تھی۔
یہ سب پہلی دفعہ یہاں آئے تھے۔ میں پہلے انہیں عوام والے حصے میں لے کر گیا۔ یہ لوگ اس کو دیکھ کر ہی خوشی سے پاگل ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے جو دل چاہا خریدنا شروع کردیا۔ البتہ ناعمہ سارا وقت میرے ساتھ ہی رہی۔ وہ خریداری سے فارغ ہوگئے تو میں نے کہا کہ میں تمھیں کھانا کھلانے لے جاتا ہوں۔ کھانے کے لیے میں انہیں اوپر لے گیا۔ یہاں چھت سے دور دور تک خوبصورت روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ جبکہ اوپر تاروں بھرا آسمان تھا۔ دنیا کے برخلاف جہاں شہر کی روشنیاں تاروں کی چمک کو ماند کردیتی تھیں یہاں زمین و آسمان پر یکساں جگمگاہٹ تھی۔
تاروں کی دودھیا روشنی اور ٹھنڈی ہوا میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو نے فضا کو بے حد مؤثر بنارکھا تھا۔ بازار کی طرح یہاں بھی پس منظر میں دھیمی سی موسیقی چل رہی تھی۔ کھانے کی اتنی ورائٹی تھی کہ کسی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کھائیں۔ جو چیز لیتے وہ اتنی لذیذ ہوتی کہ چھوڑنے کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ مگر شکر خدا کا کہ یہاں پیٹ بھرنے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا جس کی بنا پر جب تک دل چاہتا رہا ہم لوگ بیٹھ کر کھاتے رہے۔
واپسی پر میں جان بوجھ کر ان لوگوں کو بازار کے اس علاقے سے لے گیا جہاں صرف اعلیٰ درجے کے جنتی خریداری کرسکتے تھے۔ اسے دیکھ کر ان لوگوں کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ جمشید نے کہا:
’’یہ بھی شاپنگ سنٹر کا حصہ ہے؟‘‘
’’ہاں یہ بھی شاپنگ کا علاقہ ہے۔‘‘، میں نے جواب دیا ۔
میری بات پوری طرح سنے بغیر ہی یہ سب لوگ شاپنگ کے لیے بکھر گئے۔ میرے ساتھ صرف ناعمہ ہی رہ گئی۔
’’کیوں تم کچھ نہیں خریدوگی؟ پہلے بھی تم نے کچھ نہیں لیا اور اب بھی یہیں کھڑی ہو۔‘‘
میری بات سن کر ناعمہ دھیرے سے مسکراکر بولی:
’’میرے لیے سب سے زیادہ قیمتی چیز آپ کا ساتھ ہے۔ یہ انمول چیز آپ کے قرب کے سوا کہیں اور نہیں ملے گی۔‘‘، یہ کہتے ہوئے ناعمہ کا روشن چہرہ اور روشن ہوگیا۔
ہم دونوں ایک جگہ ٹھہر کر خواب و خیال سے زیادہ حسین اس جگہ اور اس کے ماحول کو انجوائے کرنے لگے۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ بازار اپنے اندر ہر قسم کی دکانیں لیے ہوئے تھا۔ ملبوسات، فیشن، جوتے، آرائش، تحائف اور نجانے کتنی ہی دیگر چیزوں کی دکانیں یہاں تھیں۔ ہر دکان اتنی بڑی تھی کہ کئی گھنٹوں میں بھی نہیں دیکھی جاسکتی تھی۔ دنیا کا بڑے سے بڑا شاپنگ سنٹر بھی ان دکانوں کے سامنے کچھ نہ تھا۔ لیکن یہاں کی اصل کشش یہ دکانیں نہیں بلکہ وہ مسحور کن ماحول تھا جو ہر سو چھایا ہوا تھا۔ دل و دماغ کو اپنی طرف کھینچتی چیزوں سے بھری دکانیں، ان میں جگمگ جگمگ کرتی روشنیاں، معطر فضا، خنک ہوا، دھیمی دھیمی موسیقی، خوبصورت فوارے، رنگ و نور کی ہزارہا صناعیاں، طرح طرح کے دیگر ڈیزائنز، دلکش مناظر اور حسین ترین لوگوں کی چہل پہل؛ سب مل کر ایک انتہائی متأثر کن ماحول پیدا کررہے تھے۔ یہاں کا ماحول آنے والوں کی دیکھنے، سننے، سونگھنے اور دوسری ہر اُس قوت پر جس سے اس کا ذہن کوئی تأثر قبول کرتا ہے اس طرح حملہ کررہا تھا کہ اسے گنگ کردیتا۔ دوسروں کے لیے یہ جگہ خریداری کی جگہ تھی جب کہ میرے لیے یہ ذوقِ جمال کی تسکین کا ایک اعلیٰ ذریعہ تھی۔ مگر سر دست ناعمہ کے قرب نے یہاں کے ہر رنگ کو میری نظر میں پھیکا کردیا تھا۔ لیکن ہماری تنہائی کے لمحات بہت مختصر رہے کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں لیلیٰ لوٹ آئی اور کہنے لگی:
’’ابو وہ جو ہیروں کا تاج ہے مجھ پر کیسا لگے گا؟‘‘
’’بہت پیارا لگے گا۔‘‘
’’مگر ابو یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ اسے خرید نہیں سکتیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘، میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ باقی لوگ بھی منہ لٹکائے لوٹ آئے۔ انور نے کہا:
’’ابو چلیں یہاں زیادہ اچھی چیزیں نہیں ہیں۔‘‘
’’دوسرے الفاظ میں انگور کھٹے ہیں۔‘‘، ناعمہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’نہیں یہ انگور اتنے کھٹے بھی نہیں ہیں۔ چلو میرے ساتھ چلو۔‘‘
میں ان سب کو لے کر اس جگہ گیا جہاں فرشتہ موجود تھا۔ میں نے اس سے کہا:
’’میرا نام عبد اللہ ہے۔ یہ میرے بیوی بچے ہیں۔ انہیں جو چاہیے آپ دے دیجیے۔‘‘
فرشتے نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’سردار عبد اللہ! میں معذرت چاہتا ہوں آپ کو خود آنے کی زحمت کرنی پڑی۔ انہیں جو چاہیے یہ لوگ لے سکتے ہیں۔‘‘
ان سب کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور یہ لوگ ایک دفعہ پھر خریداری مشن پر نکل کھڑے ہوئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دربار کا آغاز ہونے والا تھا۔ اہل جنت کے عوام و خواص، درباری و مقربین، انبیا و صدیقین، شہدا و صالحین سب اپنی اپنی جگہوں پر آکر بیٹھ رہے تھے۔ دربار سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی دعوت کا اہتمام تھا۔ یہ دعوت ابھی تک ہونے والی سب سے بڑی دعوت تھی جس میں حضرت آدم سے لے کر قیامت تک کے تمام اہل جنت جمع تھے۔ پانچ جلیل القدر رسولوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دعوت کی میزبانی کی ذمے داری دی گئی تھی۔ نوح، ابراہیم ،موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیھم السلام و صلی اللہ علیہ وسلم اس تقریب کے میزبان تھے۔
یہ دعوت ایک بہت بلند پہاڑ کے دامن میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ بہت وسیع اور کشادہ میدان تھا جو ایک باغ کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ یہاں سے دور دور تک پھیلا ہوا سرسبر و شاداب علاقہ آنکھوں کو ٹھنڈک دے رہا تھا۔ اس میدان کے بیچ بیچ میں دریا بہہ رہے تھے۔ اس دعوت کا پورا انتظام عرب کی روایات اور عجم کی شان و شوکت کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا تھا۔ اسی لیے نشستیں شاہی تخت کی شکل میں تھیں جن پر ہیرے اور موتی جڑے ہوئے تھے۔ زمین پر دور دور تک دبیز قالین اور غالیچے بچھے ہوئے تھے۔ غلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہاتھوں میں شراب کے جگ لیے پھر رہے تھے۔ اہل جنت کو جس قسم کی شراب کی طلب ہوتی وہ نظر اٹھاتے اور یہ غلمان لمحے بھر میں حاضر ہوکر ان کی خواہش کے مطابق جام بھردیتے۔ یہ شراب کیا تھی شفاف مشروب تھا جس میں لذت، سرور اور ذائقہ تو بے پناہ تھا، مگرنشے کی خرابیاں یعنی بدبو، دردسر، عقل کی خرابی وغیرہ کچھ نہیں تھی۔ ساتھ میں مختلف قسم کے پرندوں اور دیگر جانوروں کے گوشت سے تیار کیے گئے لذید کھانے؛ سونے اور چاندی کی رکابیوں میں مسلسل پیش کیے جارہے تھے۔ درختوں کی ڈالیاں پھلوں سے لدی تھیں اور جب کسی پھل کا جی چاہتا وہ ڈالی جھک جاتی اور لوگ اس پھل کو توڑ لیتے۔
زرق برق لباس پہنے حسین و جمیل نوجوان مرد اور عورتیں ہر سمت نظر آرہے تھے۔ ان کے چہرے روشن، آنکھیں چمک دار ،لبوں پر قہقہے اور مسکراہٹیں تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے دنیا کی محفلیں یاد آگئیں جہاں خواتین میک اپ کا تام جھام کیے، خدا کی حدود کو پامال کرتی اور اپنی زینت اور نسوانیت کی نمائش کرتی محفلوں میں شریک ہواکرتی تھیں۔ مرد اپنی نگاہوں کو جھکانے کے بجائے اس نمائش سے اپنا حصہ وصول کرتے تھے۔ اپنی نمائش سے رکنے والی خواتین اور اپنی نگاہوں کو پھیرنے والے مردوں کو کتنی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مگر اب ساری مشقت ختم؛ میں نے دل میں سوچا۔ یہ محفل حسین ترین خواتین سے بھری ہوئی تھی جن کے لباس اور زیورات اپنی خوبصورتی میں بے مثل اور ہر نظر کو خیرہ کرنے کے لیے بہت تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے قلوب اس طرح پاکیزہ کردیے تھے کہ نگاہوں میں آلودگی اور دلوں میں خیانت کا تصور بھی نہیں رہا تھا۔ ہر مرد اور ہر عورت خوبصورتی مگر پاکیزگی کے احساس میں زندہ تھا۔ اب اپنی زینت کے اخفا کا کوئی حکم تھا اورنہ نگاہوں کو پھیرنے کی کوئی پابندی تھی۔ کتنی تھوڑی تھی وہ مشقت اور کتنا زیادہ ہے یہ بدلہ۔
میرے ساتھ میرے گھر والے اور دور ونزدیک کے احباب کا حلقہ تھا۔ میرے بچے میری دوبارہ شادی کرواکر بہت خوش تھے۔ اسی موقع پر جمشید اورامورہ کی رضامندی سے ان کی شادی کردی گئی اور وہ بھی ہمارے خاندان کا حصہ بن چکی تھی۔ زندگی خوشیوں اور سرشاریوں کی شاہراہ پر ہموار طریقے سے رواں دواں تھی۔ میرے دل میں بس ایک بے نام سا احساس تھا۔ وہ یہ کہ میرے سارے محبت کرنے والے لوگ میرے ساتھ آچکے تھے ،سوائے میرے استاد فرحان احمد صاحب کے۔ ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید میں دربار میں ان سے مل سکوں۔
دعوت کے اختتام پر لوگ دربار میں اپنی اپنی متعین نشستوں پر آکر بیٹھنا شروع ہوگئے۔ عرش الٰہی کے بالکل قریب مقربین بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں حضرات انبیا، صدیقین و شہدا اور صالحین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ جبکہ باقی اہل جنت ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نشست کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ آج پہلی دفعہ لوگوں نے دیدار الٰہی کی اس نعمت سے فیض یاب ہونا تھا جو اہل جنت کا سب سے بڑا اعزاز تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ جس طرح دنیا میں چودہویں کے چاند کا دیدار کیا جاتا ہے، اسی طرح جنت میںدیدار الٰہی ہوگا۔ اس لیے لوگوں میں بے پناہ جوش و خروش تھا۔ اس کے علاوہ آج ہی کے دن لوگوں کو ان کے اعزاز و مناقب رسمی طور پر عطا کیے جانے تھے۔ چنانچہ ہر شخص دربار کے آغاز کا منتظر تھا۔
لوگ اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوچکے تھے۔ ہر زبان پر تسبیح وتمجید، ہر دل میں تکبیر و تہلیل اور ہر نگاہ میں حمد و تشکر کے احساسات تھے۔ لوگ بار بار یہ بات کہہ رہے تھے کہ یہ سب اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہماری رہنمائی کردی وگرنہ ہم کبھی اس جنت تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
دربار کے آغاز پر فرشتوں نے اللہ کی تسبیح و تمجید کی۔ اس کے بعد داؤد علیہ السلام تشریف لائے اور اپنی پرسوز آواز میں ایک حمدیہ گیت اس طرح گایا کہ سماں بندھ گیا۔ اس کے بعد حاملین عرش نے اعلان کیا کہ پروردگار عالم اپنے بندوں سے گفتگو فرمائیں گے۔ کچھ ہی دیر میں اللہ تعالیٰ نے انتہائی محبت اور نرمی کے ساتھ اپنے بندوں سے گفتگو فرمانا شروع کی۔
اس گفتگو میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی بڑی تحسین فرمائی جو اپنی محنت، جدو جہد اور صبر سے اس مقام تک پہنچے تھے۔ بندوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس صلے پر راضی ہیں جو ان کی محنت کے عوض انہیں ملا ہے۔ سب نے یک زبان ہوکر جواب دیا کہ ہم نے اپنی توقعات سے بڑھ کر بدلہ پایا ہے اور وہ کچھ پایا ہے جو کسی اور مخلوق کو نہیں ملا۔ ہم کیوں تجھ سے راضی نہ ہوں۔ اس پر ارشاد ہوا اب میں تمھیں وہ دے رہا ہوں جو ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ میں تمھیں اپنی رضا سے نوازتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی فضا اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے نعروں سے گونج اٹھی۔
پھر مناقب و اعزاز کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ ایک بہت طویل عمل تھا۔ لیکن یہاں ان گنت نعمتیں مسلسل مہیا کی جارہی تھیں جن کی بنا پر لوگ اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دیگر لوگوں کی طرح میرے گھر والے بھی میرے ساتھ ہی اگلی نشستوں پر بیٹھے تھے۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ دنیا کی کتنی کم مشقت اٹھا کر آج کتنا بڑا صلہ انسانیت کو مل گیا۔ لیکن مجھے خیال آیا کہ انسانیت کی اکثریت تو اس امتحان میں ناکام ہی ہوگئی۔ پھر مجھے اپنے استاد فرحان صاحب کا خیال آیا۔ وہ آج بھی مجھے نہیں مل سکے تھے حالانکہ میرا خیال یہ تھا کہ وہ آج کے دن تو کہیں نہ کہیں مل ہی جائیں گے۔ میں نے سوچا کہ صالح سے دریافت کروں۔ وہ یہاں میرے ساتھ موجود نہیں تھا۔ لیکن اسی وقت وہ میرے پاس آکھڑا ہوا۔
اسے دیکھ کر میں نے کہا:
’’مجھے خیال تھا کہ میں دربار میں کسی موقع پر اپنے استاد کو دیکھ سکوں گا۔ مگر وہ مجھے نہیں مل سکے۔ میرے استاد کا کچھ معلوم ہوا؟‘‘
’’نہیں فردوس کی اس بستی میں ابھی تک کسی جگہ میں ان کو تلاش نہیں کرسکا۔ میرا خیال ہے کہ اب تم بھی ان کے بارے میں سوچنا چھوڑدو۔ بظاہر خدا اپنا فیصلہ کرچکا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اب اس فیصلے کو نہیں بدل سکتی۔ خدا کا عدل بہرحال نافذ ہوکر رہتا ہے۔‘‘
’’اور اس کی رحمت؟‘‘
’’تم اچھی طرح جانتے ہو کہ خدا کی رحمت اور عدل ہر چیز اصول پر مبنی ہوتی ہے۔ کسی کی خواہش سے یہاں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’مگر فردوس کی یہ دنیا تو ممکنات کی دنیا ہے۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔‘‘
صالح جھلاکر بولا:
’’یار تم کیوں بحث کررہے ہو۔ فیصلہ ہوگیا ہے۔ ویسے تم خود پروردگار سے بات کیوں نہیں کرتے۔ تمھاری بات تو بہت سنی جاتی ہے۔ میں تو تمھیں عرش تک لے جانے آیا ہوں۔ چلو اور وقت کا پہیہ الٹا گھمانے کی درخواست کرو۔‘‘
خبر نہیں کہ صالح نے غصے میں آکر مجھ پر طنزکیا تھا یا واقعتا مجھے مشورہ دیا تھا۔ تاہم میں اس کی بات پر عمل کرنے کی حماقت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ البتہ اس کی یہ بات ٹھیک تھی کہ مجھے بلایا جارہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں میرا نام پکارا گیا۔ میں جو ابھی تک اطمینان سے بیٹھا تھا لرزتے دل کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ میں دھیرے دھیرے قدموں سے چلتا ہوا اس ہستی کے حضور پیش ہوگیا جس کے احسانوں کے بوجھ تلے میرا رواں رواں دبا ہوا تھا۔ قریب پہنچ کر میں سجدہ میں گرگیا۔
کچھ دیر بعد صدا آئی:
’’اٹھو!‘‘
میں دھیرے دھیرے اٹھا اور جھکی نظر کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے بہت نرمی اورملائمت کے ساتھ دریافت کیا:
’’عبد اللہ! آج کے دن میرے لیے کیا لائے ہو؟‘‘
میں یہاں لینے آیا تھا، کچھ دینے کے لیے نہیں۔ اس لیے یہ سوال قطعاً غیر متوقع تھا۔ تاہم جو میرے پاس تھا وہ میں نے کہہ دیا:
’’مالک جو اچھا عمل میں نے کیا وہ درحقیقت تیری ہی توفیق سے تھا۔ اسے تو میں پیش نہیں کرسکتا۔ رہی اپنی ذات تو میرے پاس تیری اعلیٰ ترین ہستی کے حضور پیش کرنے کے لیے۔ ۔ ۔ بہت ساری ندامت اور بے انتہاعجز کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
جواب ملا:
’’اچھا کیا کہ ندامت اور عجزلے آئے۔ یہ چیزیں میرے پاس نہیں ہوتیں۔ میں انھیں تمھارے نام سے اپنے پاس رکھ لوں گا۔ اب بولو کیا مانگتے ہو؟‘‘
عرض کیا:
’’عطا اور رضا دونوں مل گئی ہیں۔ میرا ظرف اتنا چھوٹا ہے کہ اس کے بعد مانگنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ لیکن آپ جو بھلائی اور بھیک عطا فرمائیں گے میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘
قریب موجودحاملین عرش میں سے ایک فرشتے کو اشارہ ہوا۔ اس نے میرے اعزاز و مناقب بیان کرنا شروع کردیے۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ میں اس نئی دنیا کی حکمران اور ایلیٹ کلاس کا حصہ ہوں، مگر یہاں جو کچھ دیا گیا وہ میری حیثیت، توقعات اور اوقات سے بہت زیادہ تھا۔ فرشتہ بول رہا تھا اور میں شرم سے سر جھکاکر یہ سوچ رہا تھا کہ پروردگارعالم کی کریم ہستی مجھ گنہگار کے ساتھ ایسی ہے تو نیکوکاروں کے ساتھ کیسی ہوگی؟
فرشتہ خاموش ہوا تو مجھے مخاطب کرکے کہا گیا:
’’عبد اللہ! گنہگار تو سب ہوتے ہیں۔ مگر رجوع اور توبہ کرنے والوں کو میں گنہگار نہیں لکھتا۔ اور تم نے تو مجھ سے اور میری اس ملاقات سے بندوں کو متعارف کرانے کے لیے زندگی لگادی تھی۔ تمھیں تو میں نے وفادار لکھا ہے۔‘‘
لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد کہا گیا:
’’مجھے معلوم ہے جو کچھ ابھی تم صالح سے کہہ رہے تھے۔ میں وہ بھی جانتا ہوں جو تم حشر میں اپنے نامہ اعمال کی پیشی کے وقت سوچ رہے تھے۔ تم یہی سوچ رہے تھے نا کہ کاش ایک موقع اور مل جائے۔ کاش کسی طرح گزرا ہوا وقت پھر لوٹ آئے۔ تاکہ میں ایک ایک شخص کو جھنجھوڑ کر اس دن کے بارے میں خبردار کرسکوں۔
عبد اللہ! میں تمھاری تڑپ سے بھی واقف ہوں اور اپنی ذات سے وابستہ تمھاری امیدوں سے بھی۔ یہ بھی تم نے ٹھیک سمجھا کہ بے شک میں بے نیاز ہوں اور یہ بھی کہ میں صاحب جمال و کمال اور جلال والا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمھارا کل اثاثہ یہی ہے کہ تمھاری پہنچ میرے قدموں تک ہے۔ میرے لیے تمھاری بھی اہمیت ہے اور تمھاری اس بات کی بھی، لیکن۔ ۔ ۔ ‘‘
خاموشی کا پھر ایک وقفہ آیا اور میں لرزتے دل کے ساتھ سوچ رہا تھا کہ میرے رب سے نہ زبان سے نکلنے والے الفاظ پوشیدہ رہتے ہیں اور نہ دل میں آنے والے خیالات اس کے علم سے باہر رہ سکتے ہیں۔ بے اختیار میری زبان سے نکلا:
’’میرے رب تو پاک ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ تم اپنی دلی تمنا کے اظہار کے لیے یہی پیرایۂ بیان اختیار کروگے۔ دیکھو! لوگوں کو دوبارہ دنیا میں بھیجنا میری اسکیم کا حصہ نہیں۔ اس لیے دنیا میں نہ تم جاسکتے ہو اور نہ دوسرے انسان۔ مگر وقت میرا غلام ہے۔ میں چاہوں تو اس کا پہیہ الٹا گھما سکتا ہوں۔‘‘
پھر ایک فرشتے کو اشارہ ہوا۔ وہ ہاتھوں میں چاندی کے اوراق کا ایک پلندہ لے کر میرے قریب آیا۔ میں نے دیکھا تو پہلے ورق پر سونے کے تاروں سے لکھا ہوا تھا:
’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘
صدا آئی:
’’عبد اللہ! یہ تمھاری روداد ہے۔ اس نئی دنیا میں جو تمھارے ساتھ ہوا، اس کا کچھ حصہ اس میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ تمھاری خاطر اب تمھاری اس داستان کو وقت کی کھڑکی سے دوبارہ پچھلی دنیا میں بھیجا جارہا ہے۔ اس بات کا انتظام کیا جائے گا کہ یہ روداد انسانوں تک پہنچادی جائے۔ میں اپنے بندوں اور بندیوں کے دلوں میں ڈال دوں گا۔ وہ تمھاری اس داستان کو اپنے ہر چاہنے والے تک پہنچادیں گے۔ ۔ ۔ ہر اس شخص تک جسے وہ آخرت کی رسوائی سے بچاکر جنت کی منزل تک پہنچانے کے خواہشمند ہوں گے۔ عجب نہیں کہ کوئی خوش بخت اس پیغام کو پڑھ کر اپنے عمل کو بدل دے۔ عجب نہیں کہ کسی کی زندگی بدل جائے۔ عجب نہیں کہ کسی کا مستقبل بدل جائے۔ میں لوگوں کو تمھاری درخواست پر ایک موقع اور دینا چاہتا ہوں۔ ابدی خسارے سے پہلے۔ ابدی ہلاکت سے پہلے۔‘‘
میں بے اختیار ’اللہ اکبر ‘کہتا ہوا سجدے میں گرگیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر۔ مؤذن نے ابھی یہ الفاظ ادا ہی کیے تھے کہ عبداللہ ایک جھٹکے کے ساتھ ’اللہ اکبر‘ کہتا ہوا بیدار ہوگیا۔ وہ خالی خالی نظروں سے اردگرد دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر تک وہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے غور کیا۔ وہ ابھی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے موجود تھا۔ عین بیت اللہ الحرام میں کعبہ کے سامنے۔ فجر کا وقت تھا اور مسجد الحرام میں لوگوں کی چہل پہل جاری تھی۔
’’تو کیا میں نے خواب دیکھا تھا؟‘‘، عبد اللہ نے خود سے سوال کیا۔
’’مگر وہ تو بالکل حقیقت تھی۔ وہ حشر کا دن، وہ جنت کی محفل اور خدا کے سامنے میری حاضری۔ ۔ ۔ اگر وہ حقیقت تھی تو پھر یہ کیا ہے؟ اور اگر یہ حقیقت ہے تو پھر وہ حقیقت سے زیادہ یقینی چیز کیا تھی۔ وہ خواب تھا یا یہ خواب ہے۔‘‘
وہ مسلسل بڑبڑائے جارہا تھا:
’’ایسا نہ ہو کہ اچانک ایک روز آنکھ کھلے اور مجھے معلوم ہو کہ جو کچھ دنیا میں دیکھا تھا خواب تو دراصل وہ تھا اور حقیقت آخرت کی زندگی تھی۔‘‘
آسمان سے نور اتررہا تھا۔ سفید جگمگاتی ہوئی روشنیوں سے حرم کی فضا دودھیا ہورہی تھی۔ آسمان تاریک تھا، مگر اس جگہ دن کی روشنی سے زیادہ چہل پہل تھی۔ یہ حرم مکہ تھا۔ اہلِ ایمان کا کعبہ۔ اہلِ دل کا مرکز اور اہلِ محبت کا قبلہ۔ خدا کے بندے اور بندیاں۔ ۔ ۔ ہر نسل، ہر قوم کے لوگ یہاں جمع تھے۔ خدا کی حمد، تسبیح اور تعریف کرتے ہوئے۔
آج حرمِ پاک میں عبداللہ کی آخری شب تھی۔ مگر یہ آخری شب عبداللہ کی زندگی کی سب سے قیمتی شب بن چکی تھی۔ عبداللہ کچھ دیر قبل حیرانی کی جس کیفیت میں تھا، اب اس سے باہر آچکا تھا۔ اس نے حرم کو دیکھا اور پھر اردگرد نظر ڈالی۔ حرم سے باہر ہر طرف بلند و بالا عمارات کا منظر تھا۔ یہ دیکھ کر اس پر ایک دوسری کیفیت طاری ہوگئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اس کا دل مالکِ ذوالجلال کے حضور سراپا التجا بن گیا:
’’مالک! قیامت کا حادثہ سر پر آکھڑا ہوا ہے۔ ننگے پاؤں بکریاں چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنارہے ہیں۔ تیرے محبوب رسول کی پیش گوئی پوری ہوچکی ہے۔ اب مجھے تیرے بندوں تک تیرا پیغام پہنچانا ہے۔ قیامت سے قبل انھیں قیامت کے حادثے سے خبردار کرنا ہے۔ مجھے لوگوں کو جھنجھوڑنا ہے۔ آج دنیا کی محبت فکرِآخرت پر غالب آچکی ہے۔ تیری ملاقات سے غفلت عام ہے۔ حکمران ظالم ہیں اور عوام جاہل۔ امیر مال مست ہیں اور غریب حال مست۔ تاجر منافع خور، ذخیرہ اندوز اور جھوٹے ہیں۔ سیاستدان بددیانت ہیں۔ ملازم کام چور ہیں۔ مردوں کا مقصدِ حیات صرف دولت کمانا بن چکا ہے اور عورتوں کا مقصدِ زندگی محض زیب و زینت اور اپنی نمائش۔‘‘
عبداللہ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس کے دل سے مسلسل دعا و مناجات نکل رہی تھی۔ وہ دعا جس کا قبول ہونا شاید مقدر ہوچکا تھا:
’’مولیٰ! آج لوگ تجھ سے غافل و بے پروا ہوکر ظلم اور دنیا پرستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر کھڑے ہوئے لوگ فرقہ واریت کے اسیر ہیں یا سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں جو تیری ملاقات سے خبردار کررہا ہو۔ تو مجھے اس خدمت کے لیے قبول فرمالے۔ تو مجھے اپنے پاس سے ایسی صلاحیت عطا کر کہ میں تیری ملاقات اور آنے والی دنیا کا نقشہ تیرے بندوں کے سامنے کھینچ کر رکھ دوں۔ جو کچھ تو نے قرآن میں بیان کیا اور تیرے محبوب نبی نے جس عظیم واقعے کی خبر دی ہے، اس دن کی ایک زندہ تصویر میں تیرے بندوں تک پہنچادوں۔ انسانیت کو معلوم نہیں کہ اس کے پاس مہلتِ عمل ختم ہوچکی ہے۔ مجھے قبول کر کہ میں اس بات سے تیرے بندوں کو خبردار کرسکوں۔ پروردگار! ساری انسانیت کو ہدایت دیدے۔ اوراگر تو نے سب کچھ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر میرے لیے آسان کردے کہ جتنے لوگ ہوسکیں، میں انھیں جنت کی راہ دکھا سکوں۔ انہیں تجھ تک پہنچاسکوں۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ صور پھونک دیا جائے۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ مہلتِ عمل ختم ہوجائے۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔