عاجز ہوں غم دل سے بہتا نہیں آنکھوں سے
اس بت کو تراشا ہے خود اپنے ہى ہاتھوں سے
وه وصل کے وعدے تیرے ٤ گفتار تیرى ولله
اس دل کا برا ہو کے بہلا نہیں باتوں سے
گالوں پے تیرے سرخى وه لمس تیرا جاناں
نسبت ہے تجھے آخر جنت کے گلابوں سے
اٹھ جاۓ کتابوں سے گر لفظوں کى سچاى
شیطان جنم لیں گے دنیا کے نصابوں سے
شیشے کى بنى ہوں گي جب شہر کى دیواریں
ٹپکے گا لہو یارو پتھر کے مکانوں سے
تنہاى کى راتوں میں جب یاد میرى آۓ
تم مجھ کو چرا لانا ماضى کے فسانوں سے
آزر اعجاذ