تین بڑی سازشوں کا ذکر
پہلی سازش
————–
ابن نجار نے ا
پنی کتاب بغداد کی تاریخ میں لکھا ہے کہ 386ھ سے 411ھ تک ایک فاطمی حکمران مصر کا بادشاہ تھا اور مدینہ منورہ اس کے زیر اثر تھا ۔اسحکمران کی سوچ اور کوشش یہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کےدو صحابہ کرام رضی اللہ عنھما کے اجسام مبارک کو مدینہ منورہ سے مصر منتقل کیا جائے ۔اس طرح لوگوں کی توجہ مدینہ منورہ سے کی بجائے مصر کی طرف مبذول ہوجائے گی ۔اس نے اس مقصد کے لئے مصر میں ایک نہایت شاندار عمارت تعمیر کی جس میں وہ ان اجسام کو رکھنا چاہتا تھا۔حکمران نے اس مقصد کے لئے اپنے ایک کارندے ابوالفتوح کو مدینہ بھیجا ۔جب یہ کارندہ مدینہ پہنچا تو اہل مدینہ کو اس سازش کی خبر ہوگئی ۔اہل مدینہ کو ابوالفتوح پر بہت غصہ آیا ۔وہ ابوالفتوح اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردینے کو تیار ہوگئے ۔ابوالفتوح ڈرگیااوربول اٹھا۔میں اس سازش کو کبھی بھی عملی جامہ نہ پہناوں گاخواہ حاکم مصر مجھے قتل ہی کردے ۔اسی دوران مدینہ منورہ میں ایک بہت بڑا طوفان آیاجس سے کئی گھر تباہ ہوئے اور جانی ومالی نقصان ہوا۔ابوالفتوح کو مدینہ سے بھاگنے کا ایک اچھا بہانہ مل گیا اس طرح سے اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو ان مجرموں سے نجات دی ۔اس حکمران نے ایک اور کوشش بھی کی لیکن وہ دوبارہ ناکام ہوا۔
دوسری سازش
—————–
سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557 ھ میں مرتب کی اس وقت شام کے بادشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا۔او راس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا۔ایک رات نورالدین زنگی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میںتین بار دیکھا ۔ہربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوآدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلطان سے کہا مجھے ان دونوں کی شرارت سے بچاو۔ اس رات، نمازِ تہجّد کے بعد، سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ا دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔ سلطان ہڑبڑا کر اٹھا، وضو کیا، نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوبارہ وہی خواب دیکھا۔ اٹھا وضو کیا۔ نفل پڑھے اور سوگیا۔ تیسری بار وہی خواب دیکھا۔اب اس کی نیند اڑ گئی۔اس نے رات کو ہی اپنے مشیر جمال الدین موصلی کو بلاکر پورا واقعہ سنایا۔ مشیر نے کہا: ”سلطان یہ خواب تین بار دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینے روانہ ہوجائیں۔“
اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینے کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”کیا مدینے کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا: ”کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ اس بار حاضرین نے کہا: ”سوائے دو آدمیوں کے“۔ راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا: ”وہ کون ہیں؟ اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے؟“ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم ا پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔سلطان نے کہا: ”سبحان اللہ“ اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا: ”الحمدللہ، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔“ جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔
حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا : ”تم کون ہو؟“ یہاں کیوں آئے ہو؟“ انہوں نے کہا، ”ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔“ سلطان نے سختی سے کہا: ”کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟“ اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”یہ کہاں رہ رہے ہیں؟“ بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں (جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا) سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں، اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا: ”کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟“
ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم اکا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے، انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا، وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کردیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے، جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔
سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ ۵۵۷ھ (مطابق ۱۱۶۲ء) کا ہے۔
سلطان نے روضہ مبارک کےقریب ایک چبوترہ بھی بنوایا ۔تا کہ اس پر ان قبور کی حفاظت کے لئے ہروقت پاسبان رہیں ۔یہ چبوترہ اب بھی موجود ہے۔اورباب جبریل سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب ہے ۔بعض زائرین اسے مقام صفہ سمجھتے ہیں ۔حالانکہ مقام اصحاب صفہ مسجد نبوی کے اندر تھا۔جب کہ چبوترہ اُس وقت کی مسجد کی چاردیواری سے باہر تھا۔
مقام اصحاب صفہ کے تعین کے لئے استونہ عائشہ سے شمال کو چلئے (یعنی قبلہ کی سمت کے خلاف)پانچویں ستوں کے قریب مقام اصحاب صفہ ہے ۔یا یہ کہ پرانے باب جبریل کےبالمقابل یہ مقام تھا۔یادرہے کہ وہاں اس وقت کوئی چبوترہ نہیں ۔
(یاد رہے اس میں اختلاف ہے، بعض ابھی بھی اسے ہی اصحاب صفّہ کا ہی چبوترہ کہتے اور لکھتے ہیں، لیکن بعض کے نزدیک یہ وہ چبوترہ نہیں، بلکہ سلطان نور الدین زنکی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ہی بنایا گیا ہے۔)
تیسری سازش
—————–
طبری نے اپنی کتاب الریاض النضرہ مین اس کا یوں ذکر کیا ہے:
حلب شہر(شام)کے چند لوگ مدینہ منورہ آئے وہ مدینہ کے گورنر کے لئے بیش بہا تحائف لائے۔ان کی خواہش تھی کہ روضہ مبارک میںداخل ہوکر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے اجسام مبارک نکال کر یہاںسے باہر پھینکیں۔گورنر کی مذہبی سوچ بھی ایسی ہی تھی ۔اس نے منظوری دے دی ۔گورنر نے مسجد کے خادم سے کہا کہ اگر رات کو کچھ لوگ آئیں تو ان کےلئے مسجد کا دروازہ کھول دینا اوروہ جو کچھ کرنا چاہیں اس میں مداخلت نہ کرنا۔
عشاء کی نماز سے کافی دیر بعد کسی نے باب السلام پر دستک دی ۔خادم نے مسجد کا دروازہ کھول دیا۔تقریبا چالیس آدمی مسجد میںداخل ہوگئے ۔ان کے پاس توڑ پھوڑ اور کھدائی کے ہتھیار بھی تھے ۔خادم سہم گیا۔اور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔یہ لوگ روضہ مبارک کی طرف بڑھے ۔ابھی منبر تک نہ پہنچے تھےکہ اچانک ان کےنیچے کی زمین پھٹ گئی یہ سب لوگ اپنے ہتھیاروںسمیت اس زمین میں دفن ہوگئے ۔
گورنر ان لوگوں کا بے تابی سے انتظار کرتا رہا ۔بالآخر خادم کو بلایا اور ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا ۔خادم نے اسے سارا واقعہ بتادیا۔گورنر نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔تم یقینا پاگل ہو۔خادم نے گورنر کو دعوت دی کہ وہ اپنی آنکھوں سےموقع دیکھے ۔گورنر نے اس جگہ کی زمین کو دھنسا ہوا پایا تو خادم سے کہنے لگا۔تم اس معاملے کے بارے میں زبان نہ کھولناورنہ میں تمہارا سر اُڑا دوں گا۔“
القران
——-
ویمکرون ویمکراللہ ،واللہ خیرالماکرین ۔
اللہ کے دشمن اپنی عقل کی تدبیریںبناتے ہیں اور اللہ تعالی بھی اپنی تدبیرین بناتے ہیں یقینا اللہ کی تدبیریں انسانی تدبیروں پر حاوی ہیں ۔سورۃ الانفال:30
واللہ یعصمک من الناس ۔
یادرہے کہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ کی دنیاوی حیات میں اور اس کے بعد بھی سب لوگوں سے حفاظت فرمائی ۔
سورۃ المائدہ :67
آپ یہاں بھی دیکھ سکتے ہیں، کہ تینوں واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے، حق کون ہیں اور گستاخ کون، اور اللہ سبحانہ وتعالی کے مقبول بندے کون؟ اور قدرت الہی کیا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ سب مسلمانوں کی ان کے دشمنوں اور حاسدوں، اور گستاخوں کے بُرے منصوبوں اور ذلیل سازشوں سے حفاظت فرمائیں۔ اور تمام مسلمانوں پر اپنا رحم و کرم اور فضل عظیم نازل فرماۓ ۔آمین
صلی اللہ علیہ وسلما تسلیما کثیرا ♥