کیا اس کو برا کہنا ٹھیک ہے
سوال :
———-
اگر ہمیں یہ گمان ہو کہ کوئی شخص جو دیکھنے میں تو بظاھر بڑا معصوم اور مذہبی نظر آتا ہے اور لوگوں کو اسلام کی باتیں بتاتا پھرتا ہے مگر اس کا باطن بہت خراب ہے تو کیا اس کو برا کہنا ٹھیک ہے ؟؟؟ میں ایسے ایک انسان کو جانتا ہوں اور مجھے جہاں بھی موقع ملتا ہے اسے بدنام کرنے کا موقع نہیں چھوڑتا ، مجھے یقین ہے کہ وہ غلط ہے اور جو اس کے اچھے کام ہیں سب دکھاوا ہیں !
جواب:
——–
میں ہوں برا مجھے قبول __ پھر بھی جناب _ محتسب
میرے معاملات کو میرے خدا پر چھوڑئیے …………..!!!
سب سے پہلے تو اس بات کی وضاحت کر دوں کہ ایک مسلمان کے طور پر ہمیں کسی کو بھی برا کہنے کا حق نہیں ہے!!!
کسی کو بھی اگر برا کہنے لگو تو سب سے پہلے اپنا احتساب کرو کہ آیا آپ خود خوبیوں کا مجسمہ ہو ، بلکل بے عیب ہو ؟
آپ ایک سچے مسلمان اور ایک مکمل ہدایت یافتہ انسان ہو جس سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی! ؟
اگر آپ سو فیصد صحیح بھی ہوں تو یہ اختیار آپ کے پاس نہیں کہ کسی کی کردار کشی کریں ، یہ اس انسان کا اور الله کا معاملہ ہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ جسے گنہگار ٹھرا رہے ہو وہ حقیقت میں ایک نیک انسان ہو ، یا اگر گناہگار تھا بھی تو شائد وہ توبہ کر کے الله سے معافی مانگ چکا ہو اور اب الله رب العزت نے اسے اچھے کام کرنے کی توفیق دی ہو !
اگر آپ خود ایک اچھے انسان ہیں تو فضول قسم کے خیالات سے چھٹکارا حاصل کریں ، کہیں انجانے میں آپ خود ہی گنہگار نہ بن جاؤ _ اگر کوئی شخص اپنے گناہوں سے توبہ کر چکا ہو تو اسے ان پچھلے گناہوں کا طعنہ دے کر شرمندہ نہ کرو کیونکہ وہ اس کے اور اس کے الله کے درمیان ہے آپ کو کو کوئی حق نہیں پوہنچتا ، بیشک آپ کتنے ہی پاکباز اور پرہیزگار کیوں نہ ہوں یاد رکھیں آپ کا یہ عمل اس شخص کو آپ کی نیکیوں کا حقدار بھی بنا سکتا ہے !
انسان کے بےعيب هونے کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وه دوسروں ميں عيب تلاش نہ کرتا هو _
کسی کے عیب تلاش کرنے والے کی مثال اس مکھی کی طرح ہے جو پورے جسم کو چھوڑ کر زخم پر ہی بیٹھتی ہے.
اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی پر عیب لگانے، طنز کرنے، جملے بازی کرنے اور پھبتی کرنے سے منع کیا ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤ _____ (الحجرات۔۴۹:۱۱)
’’تباہی ہے ہر اشارے باز عیب جو کے لئے _____ ‘‘(الھمزہ۔۱۰۴:۱)
حدیث پاک ہے کہ
حضرت عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اکرم (نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم) منبر پر چڑھے اور آپ (نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم) نے بلند آواز سے پکارا اور فرمایا-
“اے لوگو جو زبان سے اسلام لاۓ ہو تمہارے دلوں میں ابھی ایمان پوری طرح نہیں اترا ہے- مسلمان بندوں کو ستانے سے، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوۓ عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو کیونکہ اللہ کا قانون ہے کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کے عیبوں کے پیچھے پڑے گا اور اسکو رسوا کرنا چاہے گا تو اللہ تعالی اس کے عیوب کے پیچھے پڑے گا اور وہ اسکو ضرور رسوا کرے گا (اور وہ رسوا ہو کر رہے گا) اگرچہ اپنے گھر کے اندر ہی ہو-”
(جامع ترمذی)
ہمیں کوئی حق نہیں ہے کسی اور کی کردارکشی کرنے کا !!!
ایسا کر کے ہم الله کے مجرم تو بنیں گے ہی ساتھ میں اپنی کی گئی نیکیوں کو بھی نہ ہاتھ سے گنوا بیٹھیں _ جو لوگ اپنے اعمال کو چھوڑ کر کر دوسروں کے اعمال پر نظر رکھتے ہیں
یاد رکھیں کہ اس طرح کرنے سے وہی نقصان اٹھاتے ہیں- صرف اپنے اعمال پر نظر رکھیں کہ کہیں ہم سے کسی کی حق تلفی تو نہیں ہو رہی
کوئی اچھا ہے یا برا ہے ہم کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے
پہلے ہم اپنی اصلاح تو کر لیں پھر کسی اور کی طرف انگلی اٹھائیں
وہ ہمارا مہربان رب ہے نا جو سب دیکھتا ہے اور سب کے دلوں کا حال جانتا ہے کہ کس کی کیا نیت ہے _ بس
اسی ذات پاک سے سے رحم مانگو اپنے لئے بھی اور دوسرو ں کے لئے بھی تاکہ فلاح پاؤ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی –
حدیث پاک ہے کہ
حضرت ابودردا رض راوی ھیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے بھائ کی عزت سے اس چیزکو دور کرے گاجو اسے عیب دارکرتی ھو تو اللہ قیامت کےدن اسکے منہ سے دوزخ کی آگ دور کردیں گے
(حدیث ترمزی …1761)
قیامت کے دن تم صرف اپنے نامہ اعمال کے خود مصنف ہو، اس بات کو یقینی بناؤ کہ وہ پڑھنے اور انعام (جنّت) کے قابل ہو !
یاالله ہم سب کو ہدایت دے، ہر گناہ سے بچنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے
آمين بجاه النبي الامين…..صلي الله تعالي عليه وآله وسلم