گائڈنس۔۔۔۔ !
زاویہ سوم صفحہ 161 سے
میں نے لاہور میں مال روڈ پر ریگل کے پاس کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو دیکھا جو نیلے رنگ کی عینک لگا کر سڑک کنارے کھڑا ہوتا تھا اور وہ ساتھ والے بندے سے کہتا تھا “مجھے سڑک کراس کرا دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔”
وہ بےچارہ نابینا تھا۔ جس کو درخواست کرتا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو سڑک پار کرا دیتا تھا۔ ان دنوں مال روڈ اس طرح ٹریفک سے بھر پور نہیں تھی۔ وہاں وہ تھوڑی دیر ٹھہرتا تھا۔ پھر کسی اور نئے بندے یا کلائنٹ سے کہتا تھا کہ مجھے “سڑک پار کرا دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔”
اب سڑک پار کرتے کرتے وہ اتنے مختصر عرصے میں ایک ایسی دردناک کہانی اس شخص کو سناتا تھا جو اس کو سڑک پار کرا رہا ہوتا تھا کہ وہ بےچارہ مجبور ہو کر اس کو روپیہ دو روپیہ ضرور دے دیتا تھا۔
خواتین و حضرات! میری رپورٹنگ یا حساب کے مطابق وہ شخص دن میں کوئی تہتر مرتبہ سڑک کراس کرتا تھا۔ اب میرے ہاتھ میں تو ایک بڑے ہی کمال کا واقعہ آ گیا۔ میں نے اس کے خلاف رپورٹنگ کی۔ اس زمانے میں کیمرہ ویمرہ تو ہوتا نہیں تھا لیکن کہانی بڑے کمال کی بن گئی اور جب وہ چھپی اور اس کا احوال لوگوں کے سامنے آیا اور اس کی چالاکی سے لوگ واقف ہوئے تو بڑی دھوم مچ گئی اور میری بڑی عزت افزائی ہوئی۔ میرے استاد بھی مجھ سے خوش ہوئے۔ اس سٹوری کی وجہ سے اخبار دوبارہ بھی چھاپنا پڑا۔ اب میں پھولا نہیں سماتا تھا کہ میں نے کس قدر بڑا معرکہ سر انجام دے دیا ہے۔ میں نے اپنی ماں کو جا کے بتابا کہ میں اتنا نیک آدمی ہوں کہ تیرے بیٹوں میں اتنا نیک نہیں۔ یہ دیکھو میں نے کیسا مضمون چھاپ دیا ہے اور لوگوں کا اس سے کتنا بھلا ہو گیا ہے۔
دو ماہ اور گیارہ دن کی مدت گزر جانے کے بعد میں نے چھوٹے قد اور سانولے رنگ کا ایک آدمی دیکھا جو نیلی عینک لگائے داتا دربار کے پاس لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ “مجھے سڑک پار کرا دیں، آپ کی بڑی مہربانی۔” اور لوگ اسے سڑک پار کرا رہے تھے اور وہ سڑک پار کرتے ہوئے اپنی داستان غم بیان کرتا تھا اور جو کچھ ملے لے لیتا تھا۔ میں اسے دیکھ کر ٹھٹکا اور میں نے کہا کہ یہ اسی طرعح کا ایک اور بندہ وہی کام کررہا ہے۔ کوئی تین گھنٹے میں اسے دیکھتا رہا۔ جب وہ شام کو فارغ ہو کر جانے لگا اور اس نے عینک اتار کر اپنی جیب میں ڈال لی اور جو پیسے اس نے اکھٹے کئے تھے انہیں گننے لگا تو میں نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
میں نے کہا کہ ” تم نے یہ کیا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔”
اب وہ گھبرا گیا اور ڈر گیا۔
میں نے کہا کہ ” میں تمہیں ابھی پکڑ کر تھانے لے جاؤں گا۔ میں صحافی ہوں۔ ہم تو کسی کو چھوڑا نہیں کرتے۔”
اس نے کہا “صاحب میں مجبور آدمی ہوں۔ آپ میرے ساتھ ایسی زیادتی نہ کرنا میں مارا جاؤں گا۔”
میں کہا کہ “تم یہ کیوں کرتے ہو۔”
اس نے بتایا کہ ” وہ منٹگمری (آج کل ساہیوال) محکمہ خوراک میں جونیر کلرک ہے اور اس کی 270 روپے کے قریب تنخواہ ہے۔ یہاں لاہور سے ایک اخبار چھپا اس میں، میں نے ایک مضمون پڑھا جس میں بڑی تفصیل کے ساتھ ایک واقعہ تھا کہ ایک آدمی اس طرح سے جعلی نابینا بن کر لوگوں کو سڑک پار کرانے کو کہتا ہے اور پیسے بناتا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھ پہ اللہ کا فضل ہو گیا اور میں نے کہا کہ یہی کام کرنا چاہئے۔ اس سے میرا بھی بھلا ہوگا۔ میرے گھر والوں کا بھی بھلا ہوگا چنانچہ میں نے یہ پیشہ اختیار کر لیا ہے اور میں اس اسٹوری کے لکھنے والے اور اخبار کے مالک کو دعا دیتا ہوں کہ وہ اس طرح سے میرا سہارا بنے اور مجھے گائیڈ کیا۔”