ہمارے گھربھی یومِ حقوقِ نسواں منایا گیا
ہمارے گھربھی یومِ حقوقِ نسواں منایا گیا
یہ ذکرہے اُس روز کا کہ جس روز پوری دُنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی یوم حقوقِ نسواں منایا گیا۔عین اُسی روز ہمارے گھر میں بھی یہ دن منایاگیا۔ اور یوں منایا گیا کہ آپ کی بھابھی نے ۔۔۔(چونکیے نہیں، غریب کی جورو سب کی بھابھی ہوتی ہے) ۔۔۔ پھر وہی رٹ لگائی جو وہ مہینے بھر سے لگارہی تھیں کہ: ’’بس بہت ہوگیا، اب آپ ایک ماسی لگا لیجیے۔ میں تو کہتی ہوں کہ کل ہی سے ایک ماسی رکھ لیں‘‘۔
ہمیں تشویش ہوئی کہ وہ بیٹھک میں جھاڑو لگاتے لگاتے، ہماری جیب پربھی جھاڑو پھیرنے کی تجویز پیش کر رہی ہیں۔ عرض کیا:
’’یہ جو آپ روز فرماتی ہیں کہ۔۔۔ ’’ماسی رکھ لیجیے‘‘۔۔۔ یا۔۔۔ ’’ماسی لگالیجیے‘‘۔۔۔ تو محض ریکارڈ درست کرنے کی غرض سے عرض ہے کہ ماسی ’’لگانے‘‘ یا ’’رکھنے‘‘ کی چیز نہیں۔ یہ تو ایک عطیۂ الٰہی ہے، جو کسی بھی فرد کی ماں کو اُس کی بہن کی صورت میں۔۔۔‘‘
اتنا ہی سن کر بھنا گئیں اور کہنے لگیں:’’یہ ماں بہن کی رٹ چھوڑیے۔۔۔آپ تو بات بات پرمیری زبان پکڑنے لگتے ہیں۔۔۔‘‘
فی الفور وضاحت کی کہ:’’نہ نہ نہ، ہماری کیا مجال کہ ہم اس قسم کے تیز دھارآلا ت پکڑسکیں۔۔۔‘‘
جھلاکر بولیں:’’اِس وقت توقینچی آپ ہی کی چل رہی ہے۔ میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ گھر کے کام کاج کے لیے ایک ماسی ملازم رکھ لیں‘‘۔
جی میں یہی آیا کہ ۔۔۔ چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد۔۔۔ سو لہجہ بدل کربڑے بھولپن سے کہا:’’تعجب ہے۔ خاتون ہونے کے باوجود آپ کو علم نہیں کہ رشتے ناتے مال و دولت کے بل بوتے پر ’’ملازم‘‘ نہیں رکھے جاتے۔ پھر ’’ماسی‘‘ سے گھر کے کام کا ج کروانا؟۔۔۔ استغفراﷲ۔۔۔ کیا زمانہ آگیا ہے؟۔۔۔رشتوں ناتوں کا احترم تو اُٹھ ہی گیا ہے۔۔۔ رشتہ بھی تو دیکھیے‘‘۔
ہماری طرف خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئیبولیں:’’رشتہ کون کرا رہاہے آپ کا؟۔۔۔ رشتہ کون دیکھ رہا ہے آپ کے لیے؟۔۔۔ میں تو اپنے لیے ماسی رکھنے کو کہہ رہی ہوں‘‘۔
کہا:’’دیکھیے ، ماسی آپ کی ہو یا ہماری، ہے تو رشتہ داری۔۔۔ کیا یہ اچھا لگے گا کہ ہم اور آپ آرام سے بیٹھے رہیں اور کام اپنی ماسی سے کروائیں؟‘‘
اب تو بالکل ہی بھڑک اُٹھیں۔شعلۂ جوالہ بن کر بولیں:’’یہ رشتہ داری بیچ میں کہاں سے آٹپکی؟ماسی اور کس لیے ہوتی ہے؟ کام کاج کروانے ہی کے لیے تو ہوتی ہے‘‘۔یہ سن کرہم نے خالص اُستادانہ رنگ میں عرض کیا:’’ماسی کا مطلب ہے۔۔۔’’ماں سی‘‘۔۔۔ یعنی ماں جیسی۔ماں کے بعد خالہ ہی کا مرتبہ ماں جیسا ہوتاہے۔ اسی وجہ سے ہماری متعدد زبانوں میں خالہ کو ماسی کہا جاتاہے‘‘۔اب وہ ہماری اُستادی سمجھیں:’’ابونثر صاحب! آپ کی اس لفظی تحقیق کی مدد سے تو میں سارے گھر کا جھاڑو پونچھا نہیں کرسکتی۔صاف صاف بتائیے، کوئی نوکرانی ملازم رکھنی ہے یا مجھے ہی نوکرانی بنائے رکھیں گے؟‘‘اب ہم نے اپنے دونوں کلے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیٹتے ہوئے کہا:
’’ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ آپ تو گھر کی ملکہ ہیں۔ آپ کو بھلانوکرانی کون بنا سکتاہے؟‘‘
جل بھن کر کباب ہوگئیں۔ دھواں دھار لہجے میں جواب ملا:’’بنائیے، بنائیے۔۔۔ خوب بنائیے۔۔۔(منہ بگاڑ کر ہمارے لہجہ کی نقل کرتے ہوئے)۔۔۔ ’’گھر کی ملکہ‘‘۔۔۔اورکام کروائیے گھر کی نوکرانیوں والے۔یہاں تو ہمیشہ ہی خواتین کو دوسرے درجہ کی مخلوق سمجھاگیا۔ ان کا استیصال کیا گیا، اُنھیں پاؤں کی جوتی سمجھا گیا، ہمیشہ ٹھوکروں میں رکھاگیا۔۔۔ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں میں خواتین کو حقوق حاصل ہیں، انھیں آزادی کی نعمت میسر ہے۔۔۔‘‘وغیرہ وغیرہ۔
نسوانی حق تلفیوں کی داستان
ہماری بیگم ہاتھ میں جھاڑو لہرا لہرا کر کسی شعلہ بیان مقررہ کی طرح پاکستان اور اس کے مضافات میں ہونے والی نسوانی حق تلفیوں کی داستان سناتی رہیں اور حقوقِ نسواں کی عالمی تحریک کو یہاں کے مردوں کے ہاتھوں پہنچنے والے ہر نقصان کا مفصل بیان فرماتی رہیں۔ جب کہ ہم باادب، باملاحظہ، ’’نکاح‘‘ روبرو کیے یہ سوچتے رہے کہ کاش ہم بھی کسی ترقی یافتہ اور مہذب ملک کے مرد ہوتے تو یہ جھاڑو بردارتقریر تو نہ سننی پڑتی۔وہاں تو سنا ہے کہ میاں بی بی دونوں ہی کو ’’آزادئ نسواں‘‘ حاصل ہے۔ کام نکل گیا تو۔۔۔ تم اپنا منہ اُدھر کرو، ہم اپنا منہ اِدھر کریں۔خیر۔۔۔عقبی دیوار سے ایک بلی کے صحن میں کود پڑنے کے باعث بیگم کی تقریر نے جھرجھری سی لی تو ہم نے اس موقع سے فائدہ اُٹھاکرعرض کیا:
’’بیگم! آپ کو تو اپنے ہی گھر کے کام کاج کرنے پڑتے ہیں۔ اگرآپ چاہیں توآپ بھی دوسروں کے گھروں کے کام کاج کرکے آزادئ نسواں کے مزے لوٹ سکتی ہیں۔۔۔آپ بھی اول درجہ کی مخلوق بن سکتی ہیں۔۔۔ بے جا پابندیوں اور استیصال سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہیں۔۔۔‘‘۔مگریہ سننا تھا کہ بیگم مزید آگ بگولا ہوگئیں: ’’اس مردوں کے معاشرے کو عورتوں کی توہین کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ عورت بس ہانڈی، چولھا، جھاڑو برتن، کپڑے دھونے اور بچے پالنے کے لیے بنی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھیے خواتین بیدار ہورہی ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ مقام حاصل کررہی ہیں اور یہاں آج بھی وہی گھٹیا کام عورتوں سے منسوب۔۔۔‘‘
ہم نے دھیمے سے عرض کیا: ’’خیر ترقی یافتہ ممالک میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ تو نہیں’’نشانہ بہ نشانہ‘‘ مقام پارہی ہیں۔لیکن ابھی تو گھر کے کام کا ج کے لیے ایک ’’ماسی‘‘ رکھنے پر آپ ہی اصرار کر رہی تھیں۔وہ بھی یقیناًکوئی نہ کوئی خاتون ہی ہوں گی۔اگر یہ کام گھٹیا ہیں تو ایک خاتون کو ان کاموں کے لیے ملازم رکھنے کی تجویز بھی تو آپ جیسی بیدار مغز، روشن خیال اور حقوق نسواں کی(جھاڑو بردار یعنی) علم بردار خاتون کی طرف سے آئی ہے‘‘۔یہ سنتے ہی حیرت انگیز طورپر بیگم کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ خود بھی (کمر پر روپٹہ کس کر) فرش پر بیٹھ گئیں۔ اور جھاڑو لگانے لگیں۔مگر اس ’’ازدواجی ٹاک شو‘‘ کادردناک انجام یہ ہوا کہ خاتونِ خانہ کے پرزور اور پرجوش اصرار پر گھر کے کام کا ج کے لیے ایک ملازمہ رکھ ہی لی گئی، جسے ہم ’’ماسی‘‘ کہہ کہہ کر اُس اپنے گھر کے سارے کام کروانے لگے۔
ماسی کے مساوی حقوق
ماسی کی ماہانہ تنخواہ تو بعد بارگیننگ، مذاکرات اور سودے بازی کے 1500/=روپئے سکہ رائج الوقت طے پائی تھی۔مگر پہلی ہی تنخواہ جب بیگم نے 1200/=روپئے تھمائی اور ماسی نے تھام بھی لی تو ہم سے نہ رہا گیا۔’’دخل در واجبات‘‘ کرتے ہوئے بولے:’’یہ کیا حق تلفی ہے؟ جو طے شدہ تنخواہ ہے وہ دیجیے۔ آپ تو مردوں کو استحصالی وغیرہ۔۔۔‘‘ہمیں ڈانٹتے ہوئے بولیں: ’’آپ بیچ میں نہ بولیں۔ مہینے بھر میں پورے چھہ دن غائب رہی ہے۔اس کے چھے ناغے کا ٹ کر پورے پیسے دے رہی ہوں‘‘۔ہم نے وضاحت کی: ’’ہم بیچ میں نہیں بول رہے ہیں،معاملہ کنارے لگتا دیکھ کر بول رہے ہیں۔۔۔ کیوں ماسی؟ تم چھہ دن کیوں غائب رہیں؟‘‘ماسی نے جواب دیا: ’’صاب جی! بیگم صاب کو پتا ہے۔ تین دن تو میں خود سخت بخار میں پھنک رہی تھی۔اور تین دن کے لیے گاؤں چلی گئی تھی۔ میرے سگے بھائی کی بیوی فوت ہوگئی تھی۔۔۔چھٹیوں کے پیسے تو سبھی کاٹتے ہیں صاب! بیگم صاحبہ صحیح پیسے دے رہی ہیں‘‘۔یہ سن کر بیگم نے ہماری طرف فخریہ بلکہ ’’فاخرانہ‘‘ انداز میں دیکھا تو ہم نے کہا:’’کیا ماسی کی کوئی رخصت اتفاقی و حادثاتی، طبی رخصت یا رخصتِ استحقاقی وغیرہ نہیں بنتی؟‘‘بیگم صاحبہ نے ہمیں قہرآلود نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: ’’آپ رہنے دیجیے یہ تحریک استحقاق و اتفاق و حادثات وطبیات۔۔۔ اپنے ہی پاس۔ ماسی!کل صبح جلدی آجانا۔ مجھے ایک ’’واک‘‘ میں جاناہے‘‘۔ہمیں معلوم تھا کہ یہ ’’واک‘‘ حقوق نسواں کے لیے ہے۔ ہم نے ماسی کو مخاطب کیا:’’ماسی! کل تم بھی اس واک میں شامل ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز کیوں بلند نہیں کرتیں؟آخر تم بھی ورکنگ وومن ہو۔۔۔‘‘ماسی نے حیرت سے آنکھیں پھیلالیں۔۔۔’’جی صاب جی؟‘‘۔۔۔ اورکچھ نہ سمجھتے ہوئے ایسے ہونق اندازمیں ہمیں دیکھنے لگی جیسے ہم فرانسیسی بول رہے ہوں۔