شمشیر بے نیام۔۔۔۔۔مصنف:عنایت اللہ التمش۔۔۔۔قسط نمبر: 001
وہ مسافر عرب کے صحرا میں اکیلا چلا جا رہا تھا۸ ہجری کے زمانے میں عرب کا وہ علاقہ جہاں مکہ اور مدینہ واقع ہےبڑا ہی خوفناک صحرا ہو اکرتا تھا۔ جلتا اور انسانوں کو جھلساتا ہوا ریگزار۔ ایک تو صحرا کی اپنی صعوبتیں تھیں دوسرا خطرہ رہزنوں کا تھا۔مسافر قافلوں کی صورت سفر کیا کرتے تھے لیکن یہ مسافر اکیلا چلا جا رہا تھا۔ وہ اعلیٰ نسل کے جنگی گھوڑے پر سوار تھا ۔اس کی زِرہ گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔اس کی کمر سے تکوار لٹک رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں برچھی تھی۔اس زمانے میں مردوں کے قد دراز، سینے چوڑے اور جسم گٹھے ہوئے ہوتے تھے، یہ اکیلا مسافر بھی انہی مردوں میں سے تھا لیکن جس انداز سے وہ گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھاتھا ‘اس سے پتا چلتا تھا کہ وہ شہ سوار ہے اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں، اس کے چہرے پہ خوف کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا کہ رہزن اسے لوٹ لیں گے‘ اس سے اتنی اچھی نسل کا گھوڑا چھین لیں گے اور اسے پیدل سفر کرنا پڑے گا لیکن اس کے چہرے پہ جو تاثر تھا وہ قدرتی نہیں تھا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا ،یادوں سے دل بہلا رہا تھا یا کچھ یادوں کو ذہن میں دفن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔آگے ایک گھاٹی آ گئی۔ گھوڑا چڑھتا چلا گیا ۔خاصی بلندی پر جاکر زمین ہموار ہوئی۔ سوا ر نے گھوڑا روک کر اسے گھمایا اور رکابوں پر کھڑے ہوکر پیچھے دیکھا ۔اسے مکہ نظر نہ آیا ۔مکہ افق کے نیچے چلا گیا تھا ۔”ابو سلیمان !“۔اسے جیسے آواز سنائی دی ہو۔ ”اب پیچھے نہ دیکھو، مکہ کو ذہن سے اتار دو، تم مردِ میدان ہو اپنے آپ کو دو حصوں میں نہ کٹنے دو،اپنے فیصلے پر قائم رہو،تمہاری منزل مدینہ ہے۔“اس نے مکہ کی سمت سے نگاہیں ہٹا لیں ۔گھوڑے کا رخ مدینہ کی طرف کیا اور باگ کو ہلکا سا جھٹکا دیا ۔گھوڑا اپنے سوار کے اشارے سمجھتا تھا ۔نپی تلی چال چل پڑا۔ سوار کی عمر 43 برس تھی لیکن وہ اپنی عمر سے جوان لگتا تھا۔” سلیمان “اس کے بیٹے کا نام تھا۔ اس کے باپ کانام” الولید“ تھا لیکن سوار نے ”خالد بن ولید “کے بجائے ”ابو سلیمان “کہلانا زیادہ پسند کیا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ تاریخ اسے ”خالد بن ولید“ کے نام سے یاد رکھے گی اور یہ نام اسلام کی عسکری روایات اور جذبے کا دوسرا نام بن جائے گا۔ مگر 43 برس کی عمر میں جب خالد مدینے کی طرف جا رہا تھا اس وقت وہ مسلمان نہیں تھا ۔چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے علاوہ وہ مسلمانوں کے خلاف دو بڑی جنگےں ”جنگِ احد اور جنگِ خندق“ لڑ چکا تھا۔جب رسولِ کریم ﷺ پر 610 ءبروز سوموار پہلی وحی نازل ہوئی اس وقت خالد کی عمر 24سال تھی۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔)