”اوہ۔ارمن یہودی کی بیٹی۔“رکانہ نے کہا اور لڑکی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کرکے بولا۔”کیا میرا جسم تجھے اتنا اچھا لگتا ہے اور کیا میری طاقت ۔“”تمہاری طاقت نے مجھے مایوس کردیا ہے ۔“سبت نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا ۔”تم اپنے بھتیجے محمد سے ڈرتے ہو ۔“”کون کہتا ہے؟“رکانہ نے گرج کر پوچھا۔”سب کہتے ہیں ۔“سبت نے کہا۔” پہلے محمد کو گراؤ۔ میں اپنا جسم تمہیں انعام میں دوں گی۔ “”اﷲ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی قسم !تیری بات پوری کرکے تیرے سامنے آؤں گا۔“رکانہ نے کہا۔”لیکن تو نے غلط سنا ہے کہ میں محمد سے ڈرتا ہوں ۔بات یہ ہے کہ میں اپنے سے کمزور کے ساتھ لڑنا اپنی توہین سمجھتا ہوں لیکن تیری بات پوری کروں گا۔“مشہور مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے خود رکانہ پہلوان کوکشتی کیلئے للکارا تھا لیکن دوسرے مؤرخ ابن الاثیر نے جو شہادت پیش کی ہے وہ صحیح ہے کہ رکانہ نے محمدﷺ کو کشتی کیلئے للکارا اور اس نے کہا تھا:”میرے بھائی کے بیٹے !تم بڑے دل اور بڑی جرات والے آدمی ہو۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم جھوٹ بولنے سے نفرت کرتے ہو۔لیکن مرد کی جرات اور صداقت کا پتا اکھاڑے میں چلتا ہے۔آؤ میرے مقابلے میں اکھاڑے میں اترو۔ اگر مجھے گرا لو تو میں تمہیں اﷲ کا بھیجا ہوا نبی مان لوں گا،اﷲ کی قسم !تمہارا مذہب قبول کرلوں گا۔“”لیکن یہ ایک بھتیجے اور چچا کی کشتی نہیں ہو گی۔“ رسولِ خداﷺ نے رکانہ کی للکار کے جواب میں کہا ۔”ایک بت پرست اور سچے دین کے ایک پیغمبر کی لڑائی ہو گی،تو ہار گیا تو اپنا وعدہ نہ بھول جانا۔“مکہ میں یہ خبر صحرا کی آندھی کی طرح پھیل گئی کہ رکانہ پہلوان اور محمد(ﷺ) کی کشتی ہو گی اور جو ہار جائے گا وہ جیتنے والے کا مذہب قبول کر لے گا۔قریش کا بچہ بچہ مردوزن اور یہودی ہجوم کرکے آ گئے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح ہو کر آئے ۔کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ قریش کشتی کو بہانہ بنا کر رسولِ خداﷺ کو قتل کر دیں گے۔“ عرب کا سب سے زیادہ طاقتور اور وحشی پہلوان رکانہ بن عبد یزید رسولِ کریمﷺ کے مقابلے پہ اترا۔ اس نے رسول ِ خداﷺ پر طنزیہ نظر ڈالی اور آپﷺ پر پھبتی کسی۔ آپﷺ مکمل خاموشی اور اطمینان سے رکانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کردیکھتے رہے کہ وہ بے خبری میں کوئی داؤ نہ کھیل جائے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)