ایک نصیحت نے دہلی کی درجنوں طوائفوں کی زندگی بدل دی۔سچا واقعہ

د ھلی کی شا رع عا م مر د و ں عو رتو ں ، بچو ں بو ڑ ھو ں، آ جر و ں ا ور مز د ورو ں کی ر یل پیل ،بیل گا ڑ یو ں ا و ر تا نگو ں کی آ مد و ر فت سے ا س د ر یا کا منظر پیش کر ر ھی تھی جس میں ند یو ں ا و ر نہر و ں، چشمو ں ا ور آ بشا ر و ں کا پا نی ر و اں د واں ہو اور اس میں ر نگ بر نگی مچھلیا ں تیر رھی ھو ں- لو گ کنا رو ں پر کھٹر ے ھو کر ا س پر فر یب اور دلکش منظر سے لطف اند و ز ھو رھے ہو ں اور اپنی اپنی پسند کی مچھلیا ں پکڑ نے کے لیے کنڈ یا ں اور جال لگا ے بیٹھے ھوں۔ ا س پر ر و نق با زا ر ا ور و سیع شا ر ع عام کے د و نو ں طر ف کھلی ھو ئ دو کا نو ں سے حا کم اور محکو م، آ جر اور مز دور بچے اور بو ڑ ھے ا شیاء صرف، کپڑ ے،کتا بیں اور کا پیا ں غلے اور فروٹ خر ید رھے تھے کے دفعتا با زار میں سکو ت طا ری ھو گیا خر یدا رو ں اور دوکانداروں کی نگا ھیں بگھیو ں اور رتھو ں میں جلو ہ افر و زحسینا وں پر ٹک گیں- یہ حسینا ئیں جو بن سنور کر اپنے اپنے با لا خا نوں میں عیا ش ا میر زادوں داد عیش دے کر ان کی دولت دونیا پر ڈاکہ ڈالتی تھیں-آ ج وہ نہا دھو کر بھڑ کیلے ملبو سا ت زیب تن کر کے گلستا ن کے ان رنگا رنگ پھو لو ں کی طر ح نکھر ی ھو ئ دکھائ دیتی تھیں جنھیں شبنم کے قطروں نے دھو ڈالا ھو- جب لوگوں کی نگا ھیں ان کی زرق برق پو شا کو ں،عنبر یں بالو ں،سرمگیں آنکھو ں،گورے چٹے رخساروں،گلا بی ھونٹوں اور صاف شفاف دانتو ں پر پڑ یں تو وہ خریدوفروخت بھول گیے اور ان کی طرف دیکھتے رہ گیے لیکن آج ان حسیناوں کو بازار کے لوگوں سے کچھ ر غبت نہ تھی-وہ اپنی نا یکہ کے جشن پر اکٹھی ھو کر جا ری تھیں-آج رات انہوںنے پازیبیں پہن کر تھرک تھرک کر اپنے فن کا مظاھرہ کرنا تھا- چنانچہ یہ مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں کو اپنی اداؤں سے گھایل کرتی ھوئ مدرسہ عز یزیہ کے دروازے سے گزر رھی تھیں کہ حضرت شاہ محمد اسما عیل (ر ح)کی نظر ان پر پڑ گئ- انھوں نے جب انھیں بے پردہ دیکھا تو سا تھیوں سے پوچھا یہ بے پردہ کون ھیں؟ سا تھیوں نے بتایا کہ حضرت یہ طوا ئفیں ہیں اورکسی ناچ رنگ کی محفل میں جا رہی ہیں- حضرت شاہ صاحب نے فرمایا”چلو یہ تو معلوم ھو گیا کہ طوا ئفیں ہیں لیکن یہ بتاؤ کہ یہ کس مذھب سے تعلق رکھتی ھیں؟ ساتھیوں نے جوا ب دیاجناب ھم کیا بتائیں کہ ان کا مذھب کیا ھے اگر یہ کسی مذھب سے تعلق رکھتی ھو تیں تو یوں بن سنور کر اور بے پردہ ھو کر باھر نہ نکلتیں- شا ہ صا حب نے فرمایا یہ تو نہیں ھو سکتا کہ ان کا کوئ مذھب نہ ھو بلکہ یہ کسی نہ کسی مذھب کی طرف منسو ب تو ضرور ھوںگی خواہ نام کے اعتبار سے ہی سہی-تو ا نہو ں نے بتا یا کہ جناب یہ مذھب اسلام ہی کو بدنام کرنے والی ہیں اور بد قسمتی یہ ھے کہ یہ آ پنے آپ کو مسلما ن کہتی ہیں- شاہ صا حب نے جب یہ بات سنی تو فرمایا: مان لیا کہ بد عمل اور بد کردا ر ہی سہی لیکن کلمہ گو ہونے کے اعتبار سے ہو ئ تو ھم مسلما نو ں کی بہنیں ہی-لہذا ہمیں انھیں نصیحت کرنی چا ہیے ممکن ہے کہ گناہ سے باز آ جا ئیں،ساتھیو ں نے کہا ان پر نصیحت کیا خاک ا ثر کرے گی؟بلکہ ان کو نصیحت کر نے والا تو الٹا خود بدنا م ھو جاے گا- شاہ صا حب”تو پھر کیا میں تو یہ فریضہ ادا کر کے رھوں گا خواہ کچھ بھی ہو جاے- ساتھیوں نے عر ض کی حضرت آپ کا ان کے پاس جانا قرین مصلحت نھی ھے آپ کو پتہ ھے کہ شہر کے چاروں طرف آپ کے مذ ہبی مخالفین ھیں جو آپ کو بد نام کرنے کا کوئ موقعہ نہیں چھو ڑتے آپ نے فرما یا مجھے ذرہ بھر پر واہ نھی،میں انھیں ضرور نصیحت کرنے جاوں گا- آپ تبلیغ حق وا صلا ح کا عزم صادق لے کر گھر میں تشریف لاے-درویشانہ لباس زیب تن کیا اور تن تنھا نایکہ کی حویلی کے دروازے پر پہنچ گے اور صدا لگائ اللہ والیو دروازہ کھولو اور فقیر بابا کی صدا سنو- آپ کی آواز سن کر چند چھوکریاں آئیں-انھوں نے دروازہ کھولا تو دیکھا باھر درویش صورت بزرگ کھٹرا ھے-انھوں نے سمجھا کہ یہ کوئ گدا گر فقیر ھے جو تما شا کر کے خیرات لینا چاھتا ھے- چھو کریوں نے چند روپے لاکر اسے دیے-لیکن اس نے اندر جانے کا ا صرار کیا اور پھر اندر چلے گیے-کیا دیکھا چاروں طرف شمعیں اور قند یلین روشن ھیں۔شہر بھر کی طوا ئفیں،طبلے اور ڈوھولک کی تھاپ پر تھرک رہی ھیں۔ان کی پازیبوں اور گھنگھروں کی جھنکا ر نے عجیب سماں باندھ رکھا ھے ان پر اس قدر محو یت طاری تھی کہ انھوں نے فقیر بے نوا،مرد قلندر کی پروا نہ کی اور اپنے شغل میں مصروف رہیں-جو نہی ان کی نائیکہ کی نگاہ اس فقیر بے نوا پر پٹری اس پر ہیبت طاری ھو گئ-وہ جا نتی تھی کہ اس کے سامنے فقیرانہ لباس میں گداگر نھی بلکہ شا ہ اسما عیل کھٹرا ھے جو حضرت شا ہ ولی اللہ کا پوتا اور شا ہ عبد ا لعز یز ،شا ہ رفیع الدین اور شا ہ عبدالقادر کا بھتیجا ھے-یہ جرات مند اور غیور انسان اور کجکلا ھوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا جسور ھے یہ اتنا نڈر اور بے باک شخص ھے کہ تلوار حما ئل کر کے تن تنھا متعصب رافضیو ں کے جلسہ عام میں خلفا ے ثلا ثہ کی شان بیان کر چکا ھے-شاہ دہلئ اکبر شاہ ثانی کے دربار میں بدعات پر ظرب کاری لگا چکا ھے۔اس کی کھال میں خدا کے سوا کسی کا خوف نھی اور نیکو کار بھی اتنا کہ سفر و حضر میں نماز تہجد قضا نھی ھونے دیتا،بے لوث اتنا کہ دین مصطفٰی کی سر بلندی کی خاطر اپنے سے چھوٹے شخص کے ھا تھ پر بیعت کر کے تحریک جھاد کی قیادت کرنے کا خواھاں ھے ۔ ان کی شخصیت اس قدر پُر رعب تھی کی نا ئیکہ نے لباس کی تبد یلی کے باو جود انھیں پہچا ن لیا۔اپنی نشست سے اٹھی اور احترام کے ساتھ ان کے سامنے جا کھٹری ھو ئ بڑے ادب سے عرض کی حضرت آپ نے ہم سیاہ کاروں کے پاس آنے کی زحمت کیوں کی آپ نے پیغام بھیج دیا ھوتا تو ھم آپ کی خدمت میں حا ضر ھو جاتیں- آپ نے فرمایا: ”بڑی بی تم نے ساری زندگی لوگوں کو راگ و سرور سنایاھے۔آج زرا کچھ دیر ھم فقیروں کی صدا بھی سن لو”- جی سنایئے ھم مکمل توجہ کے ساتھ آپ کا بیان سنیں گی- یہ کھہ کر اس نے تمام طوائفوں کو پا زیبیں اتارنے اور طبلے ڈھولکیاں بند کر کے وعظ سننے کا حکم دے دیا-وہ ہمہ تن گوش ھو کر بیٹھ گئیں- شاہ اسما عیل (رحمہ اللہ) نے حمائل شریف نکال کر سورة التين تلاوت فر مائ آپ کی تلاوت اس قدر آفریں اور پر سوز تھی کہ طوائفوں کے ہو ش ٹھکانے آگئے اور وہ بے خود ھو گئیں-اس کے بعدآپ نے آیات مبارکہ کا دلنشین رواںدواں ترجمہ کرکے خطاب شروع کر دیا- ان کا یہ خطاب زبان کا کانوں سے خطاب نہ تھا بلکہ یہ دل کادلوں سے اور روح کا روحوں سے خطاب تھا یہ خطاب دراصل اس الہام ربانی کا کرشمہ تھا جو شا ہ صا حب جیسے مخلص دردمندوں اور امت مسلمہ کے حقیقی خیر خواھوں کے دلوں پر اترتا ھے-قلم و قرطاس میں یہ سکت نھی کہ روحانی خطاب کو الفاظ کا جامہ پہنا سکیں-البتہ عالم تصور اس کی اتنی نشان دہی کر سکتا ھے کہ آپ نے قرآن پاک کی آیات مبارکہ سے کا ئنا ت پر انسان کی برتری اور بزرگی اس انداز سے بیان کی کہ انسانی مخلوق اپنے آپ کو ملائکہ مقربین سے افضل خیال کرنے لگی-قرآن کریم میں انسان کی بزرگی اور افضلیت یوں بیان کی گئ ھے-

سورة الإسراء70 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزو ں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی کہ باقی مخلوق ھاتھوں اور پاوں پر جھک کر چلتی ھے منہ سے چرتی چگتی کھاتی پیتی اور عقلوخرد سے عاری ھے جبکہ انسان اپنے پاؤں پر سیدھا چلتا ھاتھ سے کھاتا پیتا خشکی میں زمینی سواریوں پر سفر کر تا ھے دریاؤں اور سمندروں میں کشتیوں پر بیٹھ کر سمندر سے تازہ اور لزیذ گوشت حاصل کرتاھے اس سے گراں قدر موتی اور ھیرے نکالتا ھے اور ملائکہ کرام باوجود (ِعبَادّمُکُرَمُون)ھونے کےٹھنڈےاور شیریں مشروبات،لزیذ ماکولات،نرموگرم ملبوسات پھلوں کی لزتون اورپھولون کی رنگتوں سے محروم ھیں یہ انسان ھی ھے جسے اللہ نے احسن تقویم کا شا ہکار بنایا اور اسے ایسی شکل و صورت عطاکی ھے کہ چاند سورج سے اسےتشبیہ دینا ایسے ھی ھے جیسے سورج کو چراغ دکھانا-اللہ کریم نے اسے اپنے ہاتھ سے تخلیق کر کے مسجود ملائکہ بنایا- اسے دنیا اور آخرت کی نعمتوں کا وارث بنایا- فرشتوں نے عرض کی تھی اے اللہ عبادت ہم بھی کرتے ھیں اور انسانوں سے زیادہ کرتے ھیں مگر وہ ھر طرح کی لزتوں سے دنیا میں لطف اندوز ھیں جبکہ ھم بیویوں کی چاھت،بچوں کی محبت پھلوں کی مٹھاس اور پھلوں کی خوشبو سے محروم ھیں-اے اللہ! ھم تیری تقدیر پر راضی ھیں- البتہ ھمیں آخرت میں ان نعمتوں سے بہرور فم دینا-لیکن اللہ نے فرمایا یہ کیسے ھو سکتا کہ میں اس مخلوق کو جسے کُن کہہ کر پیدا فرمایا ھے اُس مخلوق کے برابر کردوں جسے میں نے اپنے ہا تھ سے بنایا ھے-شیطان لعین نے اس کی بزرگی پر حسد کیا اسے زچ کرنے کی ٹھانی اور دو ٹوک انداذ میں چیلنج دیا:

سورة الأعراف 16،17 قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سےآؤں گا اور تو اکثر کو ان میں سے شکر گزار نہیں پائے گا اور اس ملعون نے چیلنج دیا تھا-

سورة النساء119 وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا

اور البتہ انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور البتہ ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم کروں گا کہ جانوروں کے کان چریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا کہ جانورں کے کان چیریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گاکہ الله کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں اور جو شخص الله کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے گا وہ صریح نقصان میں جا پڑا اور اس خبیث نے واقعی اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنا دیا-

سورة سبأ 20 وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

اور البتہ شیطان نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا سوائے ایمان داروں کے ایک گروہ کے سب اس کے تابع ہو گئے چنانچہ بنوآدم اپنے باپ کی راہ کو چھو ڑ کر اس کے دشمن کے تابعدار بن گے آستانوں اور درگاہوں میں مدفون ہستیوں کی نذرونیاز دینے کے لیے جانوروں کے کان چیرنے،مصنو عی حسن کے لیے پیشا نیوں کے بال اکھاڑنے اور سرجری کروانے لگے-انھیں خدا سے اسقدر غافل کر دیا کہ فحاشی اور بے حیائ کے جوہٹر میں اوند ھے منہ گرنے لگے اور اس کے جال میں پھنس کر اپنی بزرگی اور شرافت کھو بیٹھے-نتیجتًا عفت و عصمت کی وہ دیویاں جنھیں جائز نکاح کی بدولت ان کے شوہروں نے سچے موتیوں کی طرح حفاظت میں رکھنا تھا اور ان کی اولاد نے ان کے پاؤں دھو دھو کر پینے تھے وہ کنواری مائیں بننے لگیں-اپنے نومولودوںکو کھیتوں اورگٹروں میں پھینکنے لگیں اور جوانی کے چار دن عیش سے گزارنے کے بعد معاشرے کا قابل نفرت حصہ بننے لگیں ان کی جوانی کی بہار یں لوٹنے والے انھیں ٹھوکریں مارنے لگے اور وہ بڑھاپے میں اپنی کسمپری،بے توقیری اور عصمت واحترام کی بربادی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں-مگر ”اب پچھتاے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گیں کھیت” اگلا مرحلہ موت کا ھے شب د یجور جیسے سیاہ بال اب سفید ھو چکے موتیوں جیسے دانت ایک ایک کر کے جھڑچکے چہر ے پر جھریاں پڑ چکیں اور گوریوں کا چمڑا لٹکنے لگا-بلوریں آنکھوں سے بینائ ختم ھو چکی دوبارہ جوان ھونے کی امید نہ رھی کو ٹھیوں سے منتقل ھو کر قبر کی گھپ اندھیر کو ٹھڑ ی میں تن تنہا ھونے کا وقت قریب آ گیا-جوانی میں عفت مآب اور تہجد گزار ھو تیں تو یقیناً ان کی جائز اولاد بڑھاپے میں انھیں ہتھلییوں پر اٹھاتی لکین شیطان ملون نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا- نہ دنیا کا نہ آخرت کا-اب موت کے فر شتوں کی آمد آمد ھے حسن کی دیو یاں انھیں دیکھ کر کہتی ھیں:-

سورة المنافقون 10 رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ

اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت کے لیے ڈھیل کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور نیک لوگو ں میں ہو جاتا” لیکن یہ روحیں پہلے کیا کرتی رہیں جواب مہلت مانگ رہی ھیں اور مہلت مل بھی جاے تو پھر اسے ایسے بھلا دیں گی جیسے اس سے قبل بیما ری کی حالت میں موت کا منہ دیکھ کر توبہ و استغفار کرتیں صحت آنے پر بھول جاتیں اور از سر نو حرام کھانا شروع کر دیتی تھیں- اس کا اب مہلت کا وقت ختم ھے قبر میں اترنے کی تیا ری کرو-

سورة ق 19 وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ

اور موت کی بے ہوشی تو ضرور آ کر رہے گی یہی ہے وہ جس سے تو گریز کرتا تھا

سورة الأنعام 93 وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ

اور اگر تو دیکھے جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھانے والےہوں گے کہ اپنی جانوں کو نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب ملے گا اس سبب سے کہ تم الله پر جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں کے ماننے سے تکبر کرتے تھے ان فر شتوں کی ہولناک دہشت کی وجہ سے مجرموں کے روحیں ان کے جسموں کے کونوں میں چھپنے لگتی ھیں اور انھیں مار مار کر نکالتے اور اس طرح نکالتے جس طرح باریک دوپٹے کو کانٹے دار بیری کی شاخ سے کھینچا چاتا ھے اور اس کشمکش میں اس کی جان نرخرے میں اٹک جاتی ھے-

سورة القيامة 26،27 كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ

نہیں نہیں جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی اورلوگ کہیں گے کوئی جھاڑنے والے کو بلاو-” بالآخر سب عزیزواقارب کی موجودگی میں اس کی روح کھینچ لی جاتی ھے اور اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ کر آسمانوں کی طرف لے جایا جاتا ھے اور جہاں سے گزاری جاتی ھے سب آسما نو ں والے اس کا اوراس کے باپ کا نام پوچھتے ھیں جب بتا یا جاتا ھے تو اسے برے لفظوں سے یاد کرتے ھیں اور یس کے لیے آسمانوں کے دروازے نھی کھلولے جاتے-

سورة الأعراف 40 إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ ”

بے شک جنہوں نے ہماری آیتو ں کو جھٹلایا اوران کے مقابلہ میں تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اورنہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے اور ہم گناہگاروں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں،، عزیزواقارب اس جوان یا بوڑھے مردوں عورتوں کے سوٹ قینچی سے کاٹ کر ان کے ہاتھ سے قمیتی گھڑ یاں جیب سے روپے کانوں سے سونے کی بالیاں اور گلے سے قمیتی ہار اتار کر اسے نہلاتے کفناتے اور دفناتے ھیں- یس کے بعد اس کی روح بدن میں لوٹا دی جاتی ھے منکر نکیر ہیبت ناک صورت اور بجلی کی طرح کڑکتی آواز میں ( مَن رَبُّکَ،مَا دِینُکَ وَ مَن نَبِیُّکَ))کے جواب پوچھنے آ دھمکتے ھیں- مجرموں کے جواب نہ دینے پر انھیں ایک گرز سے مارتے ھیں کہ ان کا بدن ریزہ ریزہ ھو کر پھر اصل صورت پر آجاتا ھے وہ انھیں کہتے ھیں کہ اگر تو نے قرآن پڑھا ھوتا یا سنا ھوتا تو تجھے پتہ چل جاتا کہ تمھارا رب کون،تمھارا دین کیا ھےاور تمھارا نبی کون تھا-چنانچہ مسلسل سزا دینے کے لیے دوزخ کی طرف اس کی قبر میں سوراخ کر کے اسے لٹا دیا جاتا ھے- پھر جب حشر روز اسرافیل علیہ السلام قرناء میں پھونک دیں گے تو زمین میں زلزلہ برپا ھو جاے گا-پہاڑ آپس میں ٹکرا دیے جائیں گے اور روئ کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے آسمان تلچھٹ کی طرح ھو جاے گا ستارے بے نور ھو جائیں گے اللہ فرماتے ھیں:

سورة الحاقة 13 تا 16 فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ

پھر جب صور میں پھونکا جائے گا ایک بار پھونکا جانا اور زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پس وہ دونوں ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے پس اس دن قیامت ہو گی اور آسمان پھٹ جائے گا اوروہ اس دن کمزور ہوگا” اس روز صور کی ہولناک آواز کی دہشت سے دودھ پلاتی مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو پٹخ کر بھاگ کھڑی ھوں گی-حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گےاور دودھ دوہنے والےگوالے برتن پھینک دیں گے کپڑا لپیٹنے والے تھان پھینک کر ھاے واے کرتے ھوے جنگلوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیں گے- افراتفری کا عالم ھو گا اور لوگ مدہوشوں کی طرح بے سدھ پھر رھے ھوں گے حالانکہ وہ نشے کی وجہ سے نھی بلکہ اللہ کے سخت عذاب کی دہشت کی وجہ سے ان کی عقلیں ماؤف کر دی ھوں گی- آہ اس روز کیا حال ھو گا جب ھر آدمی اپنے سگے کی صورت دیکھ کر بھاگ جاے گا اپنے ماں باپ سے بیگانہ ھو جاے گااور اپنے بیوی بچوں سے چھپتاپھرے گا خواہش کرے گا کہ کاش آج اللہ میرے بدلے میری ماں اور باپ،بیوی اور بچوں بھنوں اور بھائیوں کو دوزخ میں ڈال دے اور مجھے چھوڑ دے- آہ اس روز کیا بنے گا جب مجرموں کو گردنوں میں طوق،ھاتھوں میں ہتھکڑ یاں پاؤں میں زنجیریں ڈال کر اور گندھک کے لباس پہنا کر اللہ کی عدالت میں پیش کیا جاے گا-

سورة إبراهيم 49 تا 51 وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ”

اورتو اس دن گناہگاروں کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا کرتےان کے گندھک کے ہوں گے اوران کے چہرو ں پر آگ لپٹی ہو گی تاکہ الله ہر شخص کو اس کے کیے کی سزا دے بے شک الله بڑی جلدی حساب لینے والا ہے” آہ اس روز ریاء کار حافظوں،عالموں،مجاھدوں،جان بازوں،سخیوں،اور فیاضوں کو کس طرح جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جاے گا؟ ظالم حاجیؤں اور نمازیوں سے ان کی نیکیوں چھین کر مظلوموں کو دے دی جائیں گی- آہ جس روز زانیوں اور بدکاروں کی اور ان کی کرتوتوں کی فائلیں کھول کر ان کے سامنے رکھ دی جائیں گی اور انھیں کہا جاے گا:

سورة الإسراء 14 اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ”اپنا نامہ اعمال پڑھ لے آج اپنا حساب لینے کے لیے تو ہی کافی ہے” آہ اس روز بدکار اور زاینہ عورتوں کا کیا بنے گا جب وہ بیڑ یوں اور زنجیروں میں جکڑی ھوئ دربار الٰہی میں پیش کی جائیں گی اور ایک ایک زانیہ کے پیچھے ستر(70)ستر(70) زانی مرد لعنت کے طوق پہنے کھڑے ھونگے- اسی دوران جہنم سے ایک گردن نکلے گی اور ین مجرموں کو دیکھ کر یوں جھر جھری لے گی جیسے بھوکے خچر جَو پر ٹوٹ پڑنے کی کوشش کرتے ھیں-وہ مجرموں کو میدان محشر سے یوں چُگ لے گی جس طرح دانے چگتا ھے جب طوا ئفو ں نے شاہ اسما عیل دہلوی رحمتہ اللہ کے اس مفہوم والے بیان کو سنا تو ان پر لرزہ طاری ھو گیا-روتے روتے اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں-انھیں یقین آ گیا جس طرح عالم ازل سے رحم مادر میں آنا برحق ٹھرا اور رحم مادر سے دنیا میں آنا برحق ثابت ھوا اس طرح دنیا سے قبر میں جانا بھی برحق ھے وہاں سے اللہ کے دربار میں پیش ھونا بھی برحق ھے- یہ حقائق کسی کے نہ ماننے سے جھٹلاے نہیں جا سکتے ان حقیقتوں پر ایمان نہ رکھنے والے بھی اسی عمل سے ماں کے پیٹ میں آے جس طرح ایمان والے آے اور اسی طرح پیدا ھوے جس طرح اہل ایمان پیدا ھوتے ھیں اسی طرح مریں گے جس طرح اہل ایمان مرتے ھیں اور بالآخر قبروں سے اٹھ کر اسی جگہ پیشں ھوں گے جہاں اہل ایمان پیش ھوں گے- خواہ کوئ اس حقیقت پر ایمان رکھے یا نہ رکھے ھر حال ایسا ھونا ضرور ھے- شاہ ولی اللہ نے جب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں دیکھیں تو انہوں نے اپنا وعظ کا رخ توبہ کی طرف موڑ دیا اور بتایا کہ جو کوئ گناہ کر بیٹھے تو اللہ سے اس کی معافی مانگ لے تو اللہ بڑا رحیم ھے وہ معاف بھی کر دیتا ھے بلکہ اسے تو اپنے گنہگار اور سیاہ کار بندوں کی توبہ سے اتنی خوشی ھوتی ھے جس طرح کوئ مسافر اپنی اونٹنی پر سوار سینکڑوں میل لمبے ریگستان میں سفر شروع کر دے-جب درمیان میں پہنچے تو زرا سستانے کی غرض درخت کے نیچے سو جاے اور جب اسے جاگ آے تو اونٹنی کو وہاں موجود نہ پا کر چکرا جاے۔ادھر اُدھر کر کے تھک ہار کر اپنے آپ کو موت کے منہ میں دیکھ کر مایوس ھو کر لیٹ جاے کہ جھلستے ھوے ریگستان میں سڑ سڑ کر مرنے سے درخت کے نیچے مرنا ھی بھتر ھے اسے اس حال میں نیند آ جاے پھر وہ جاگے اور مع سامان خوردنوش کے اپنی اونٹنی کو موجود پاے تو وہ خوشی کی فروانی کی وجہ سے یہ کہہ بیٹھے واہ میرے اللہ ! میں تیرا رب اور تو میرا بندہ ھے-‘ چنانچہ جس طرح اس بندے کو موت کے منہ سے نکل کر خوشی ھوتی ھے اس طرح اللہ کو اس بندے سےبھی کہیں زیادہ خوشی اس مرد یا عورت سے ہوتی ھے جو گناہوں سے سچی توبہ کر لے اس کا فرمان ھے:

سورة الزمر 53 قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ”

(اے میرے پیارے نبی) میری طرف سے لوگوں کو کہہ د یجیے (اللہ فرما رھا ھے) اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک الله سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے ” وہ ھر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ھے اور اس کے گناہ معاف کر دیتا ھے بلکہ اگر کوئ خطا کار سچی توبہ کر کے آئندہ اس طرح کے گناہوں سے تا حیات بچا رھے اور نیک اعمال پر عمل پیرا ھو جاے تو وہ اسکی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیتا ھے:

سورة الفرقان 70 إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ”

مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے سو انہیں الله برائیوں کی جگہ بھلائیاں بدل دے گا اور الله بخشنے والا مہربان ہے” اس طرح حدیث پاک میں آتا ھے: ”گناہ سے توبہ کرنے والا یوں پاک اور صاف ھو جاتا ھے گویا اس نے گناہ کیا ہی نھی” الغرض آپ نے توبہ کے اتنے فضائل بیان کیے کہ ان کی سسکیاں بند ھو گئیں- آنکھوں کے آنسو تھم گے اور وہ اپنے دوپٹوں سے اپنے رخسار پونچھنے لگیں-کسی زریعے شہر والوں کو اس وعظ کی خبر ھو گئ-وہ دوڑے دوڑے آے اور مکانوں کی چھتوں دیواروں چوکوں اور گلیوں میں کھڑے ھو کر وعظ سننے لگےتاحدِنگاہ لوگوں کے سر ھی سر نظر آنے لگے-اس کے بعد شاہ صاحب نے عفت مآب زندگی کی برکات اور نکاح کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی اور اس موضوع کو اس قدر خوش اسلوبی سے بیان کیا کہ تما م طوائفیں گناہ کی زندگی پر کف افسوس کرنے لگیں- حضرت شاہ اسماعیل کے اس وعظ نے برائی کے اس طوفان کے آگے بند باندھ دیا اور غلط راہ پر چلنے والیوں کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیا-آپ نے انھیں اٹھ کروضوء کرنے اور دو رکت نوافل ادا کرنے کی ھدایت کی جب وہ وضو کر کے قبلہ رخ کھڑی ھوئیں اور نماز کے دوران سجدوں میں گریں تو شاہ شہید رحمہ اللہ نے ایک طرف کھڑے ھو کر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کی: ”اے مقلب القلوب! اے مصرف الاحوال! میں تیرے حکم کی تعمیل میں اتنا کچھ ھی کر سکتا تھا یہ سجدوں میں پڑی ھیں تو نے ان کے دلوں کو پاک کر دے گناہوں کو معاف کردے اور انھیں آبرومند بنا دے تو تیرے آگے کچھ مشکل نھی-ورنہ تجھ پر کسی کا زور نھیں-میری فریاد تو یہ ھے کہ انھیں ہدا یت عطا فرما انھیں نیک بندیؤں میں شامل فرما” – ادھر سید اسماعیل رحمہ اللہ کی دعا ختم ھوئی اور ادھر ان کی نماز-وہ اس حال میں اٹھیں کہ دل پاک ھو چکے تھے اور وہ جائز نکاح پر راضی ھو چکی تھیں چنانچہ ان میں سے جوان عورتوں نے نکاح کرا لیے اور ادھیڑ والیوں نے گھروں میں بیٹھ کر محنت مزدوری سے گزارا شروع کر دیا- کہتے ھیں کہ ان میں سے سب سے زیادہ خوبصورت موتی نامی خاتون کو جب اس کے سابقہ جاننے والوں نے شر یفانہ حالت اور سادہ لباس میں مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے ہاتھ والی چکی پر دال پیستے دیکھا تو پوچھا ”سنا وہ زندگی بہتر تھی جس میں تو ر یشم و حریر کے ملبو سات میں شاندار لگتی اور تجھ پر سیم وزرنچھاور ھوتے تھے یا یہ زندگی بہتر ھے جس میں تیرے ہاتھوں پر چھالے پڑے ھوے ھیں؟ کہنے لگی اللہ کی قسم! مجھے گناہ کی زندگی میں کبھی اتنا لطف نہ آیا جتنا فرسانِ مجاھدین کے لیے چکی پر دال دلتے وقت ہاتھوں میں ابھرنے والے چھالوں میں کانٹے چبھو کر پانی نکالنے سے آتا ھے- اللہ اکبر یہ ھے حلاوت ایمان اور یہ ھے پر لطف زندگی- اس قصے کا اصل تزکرہ الشہید میں ھے اوراس واقعہ کو کتاب ”اسلامی تاریخ کے دلچسپ اور ایمان افریں واقعات” تالیف و تصنیف ابو مسعود الجبار” سے نقل کیا گیا ھے