بھارتی جیل سے ایک نومسلم قیدی کی داستان قبول اسلام
بھارتی جیل سے ایک نومسلم قیدی کی داستان قبول اسلام
ذیل کایہ خط ایک ایسے غیر مسلم قیدی کاہے جو جیل سے ہمارے ہندی ماہنامہ’ سرو شانتی‘ کے دفتر ميں لکھا گیا ہے۔ ہندوستان کے جیلوں میں بند مسلم وغیرمسلم قیدیوں کو بڑی تعداد میں یہ ہندی ماہنامہ بھیجا جاتا ہے اورہمیں ان کے تاثرات بھی موصول ہوتے رہتے ہیں، جو ہمیں شدت کے ساتھ اس بات کا احساس کراتے ہیں کے ہمیں دعوت الی اللہ کا کام اورزیادہ تیزی سے کرنا چاہیے۔ کاش امت مسلمہ اس کام کی اہمیت وضرورت اوراسکی حکمت کو سمجھتی اور اس کے لیے اپنی زندگی اور وسائل کو وقف کر دیتی۔(اعجازالرحمن شاہین قاسمی)
اورنگ آ باد جیل سے پون کمار کيوٹ کی طرف سے ہندی ماہنامہ’ سرو شانتی‘ کے ایڈیٹر مولانا اے آر شاہين قاسمی صا حب اور نگرا ں حضرت مولانامحمد کلیم صدیقی صاحب کی خدمت میں تسلیمات!
ایڈیٹرصاحب! آپکاہندی ماہنامہ’ سرو شانتی‘ اس جیل میں شا ہد انصا ری بھائی کے پاس آتا ہے،اللہ کے کرم سے مجھے پڑھنے کے لیے شاہد بھائی بھيج ديتے ہیں۔ يہ رسالہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔لوگوں کو دین دنيا کی سچائی کی پہچان کرانے کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔اس لیے میں اپنی سچی کہانی لکھ کر بھیج رہا ہوں تاکہ جولوگ سچ جاننے کی کوشش میں لگے ہیں انہیں سچائی کی پہچان ہو سکے۔
میرا نام پون کمار کیوٹ ہے ، میں یوپی میں مہارراج گنج ضلع کا رہنے والا ہوں، میری پیدائش ایک کیوٹ خاندان کے ہندودھرم میں ہوئی ہے ۔ میں اپنی کہانی جیل سے شروع کررہاہوں، میں اپنے دھرم کا کٹر تھا ، ہندودھرم کے حساب سے ہر دیوی دیوتا کو بھگوان کے روپ میں مانتا تھا لیکن سب سے زیادہ بجرنگ بلی کی پوجا کرتا تھا ۔ ہر منگل کو اپواس (روزہ ) بھی رکھتا تھا۔ مسلمانوں کے رویے کی وجہ سے مجھے اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت تھی ۔ اسکے پہلے میں ہندو یووا وا ہنی کا ممبر بھی تھا ۔
2005ءمیں جیل میں آیا،میرے اوپر ڈکیتی کے کئی کیس تھے ۔ایک دن جیل میں اپنے دوست وجے کے ساتھ گھوم رہاتھا کہ دیکھا سبھی مسلمان قیدی اکٹھے ہورہے ہیں،پتہ لگانے پر معلوم ہوا کہ آج ان کی عید کا دن ہے ،دل نے کہا تم بھی ان کے ساتھ شریک ہوجاو ،پھر اپنے دل کی بات اپنے دوست وجے سے بتادی ۔وہ بھی تیارہوگیا،ہم دونوں وہاں گئے،ان میں سے ایک مسلمان جس کا نام نواب تھا اس سے ہم نے نماز میںشرکت کی خواہش ظاہر کی تو اس نے کہا:کیوں نہیں ضرور شریک ہوسکتے ہو۔ میں نے کہا :مجھے توپڑھنا نہیں آتا۔ انہوں نے کہا: پڑھا تو بہت کچھ جاتا ہے ،لیکن آپ لوگ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنااور اس کا مطلب بھی بتایا جواچھا لگا۔اس طرح ہم ان کے ساتھ شریک ہوگئے ،ایک مولاناتقریرکرنے کے لیے آئے تھے ، ان کی باتیں سن کر کچھ مسلمان رو بھی رہے تھے ۔ان کی باتیں مجھے بہت اچھی لگ رہی تھیں ،اس سے پہلے میں نے ایسی باتیں نہیں سنی تھیں ۔
نماز کے بعد سب لوگ شیر خرمہ پینے لگے ،ایک کٹوری میں تین تین لوگ جھوٹا کرکے کھاتے تھے ،مجھے تھوڑی دیر کے لیے یہ منظر اچھا نہیں لگا پھر دل میں خیال آیا کہ ان میں کتنی محبت ہے کہ اونچ نیچ اور چھوت چھات نہیں دیکھتے چنانچہ میں نے بھی شیر خرمہ پی لیا ۔
نواب بھائی سے میں نے سوال کیا کہ مسلمان کتنی طرح کے ہوتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا:مسلمان ایک ہی طرح کا ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کا حکم مانتا ہے ۔
اب میں زیادہ تر نواب بھائی کے ساتھ گھومتاتھا ۔ نواب بھائی نماز پڑھتے تو میں ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور قرآن پڑھتے تو میں بھی سنتا تھا ۔ مجھے نماز اور قرآن پڑھنے کا یہ منظر بڑا اچھا لگتا تھا ۔
قریب ایک مہینہ تک میں اسلام سے متعلق جانکاری لیتا رہا ۔ ایک دن میں نے نواب بھائی سے کہا : مجھے مسلمان بننا ہے ، یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے ،میں نے کہا: میرا ختنہ کرادو ، تو بولے : ختنہ کرانے سے کوئی مسلمان نہیں بنتا ہے ۔ بلکہ سچے دل سے گواہی دینے سے مسلمان بنتا ہے کہ ” اللہ ہی عبادت کے لائق ہے اس کے سواکوئی لائق عبادت نہیں اور محمد صلى الله عليه وسلم اللہ کے رسول ہیں‘ ‘ ۔
نواب بھائی نے مجھے نہلایا ‘ پھر کلمہ پڑھا دیا اورمیرا نام محمد عمر رکھا اور کہا تمہاری کہانی حضرت عمر رضي الله عنه سے ملتی جلتی ہے۔ اس ليے تمہارا نام عمر مناسب ہے۔ اسلام قبول کرنے کا وہ دن میری زندگی ميں بہت اہم دن ہے ۔ ميں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اسلام کی گرانقدر دولت سے نوازا ہے۔ 2006ءميں پھر اورنگ آباد جیل ميں آگیا ۔ اللہ کے کرم سے یہاںنماز پانچوں وقت کی ہوتی تھی۔ ميں نے الحمدللہ یہاں پر تین بار قرآن معنی کے ساتھ پڑھا ۔ قرآن کے مطالعہ سے مجھے بہت ساری معلومات ہوئیں،بہت ساری سچائیوں کی جانکاری ملی ۔ تاہم اس وقت تک ميں داعی نہيں تھا ۔اسلام پر عمل کرتااوربس۔ لیکن اس وقت میری زندگی میں اہم موڑ آیا جب ميں نے محمد صلى الله عليه وسلم کی سیرت پاک پڑھی، مجھے بہت رونا آیا کہ انہوں نے اسلام پھیلانے کے ليے کتنی تکلیفیں سہیں تب جاکر اسلام پوری دنیا ميں پھیلا۔ بالآخراللہ تعالی اس گنہگار بندے سے بھی اپنے دین کا کام لینے لگا ۔ ميں نے جیل ميں اسلام کی دعوت کھلے عام دینا شروع کردیا ۔ میرا مقصد اتنا تھا کہ ميں اپنے رب کا دین لوگوں تک پہنچا دوں۔ ایک دن ميں پانچ پانچ ‘ چھ چھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا ،پھر شام تک ان سے جواب مانگتا ۔ جب ان ميں سے کوئی ایمان نہيں لاتا تو ميں اسے صرف اتنا کہتا کہ گواہ رہنا :ميں نے تم تک اللہ کا پیغام پہونچا دیا۔ رفتہ رفتہ میری باتوں کا لوگوں پر اثر ہونے لگا ۔ لوگ ایمان لانے لگے ،لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے موقع اور وقت مانگتے تھے ۔ ميں نے سوچا کہ اسلام قبول کرنا کوئی کھیل نہيں ہے چنانچہ ميں ٹائم دینے لگا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ 21 لوگوں نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کیا (تازہ رپورٹ کے مطابق مزید2 کا اضافہ ہوا ہے )۔ ان21 لوگوں ميں بہت سے ایسے لوگ تھے جومیرے قبولِ اسلام کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرتے تھے ۔جب کوئی مجھ سے اسلام کے تعلق سے سوال کرتاہے توميں اسے یہی کہتا ہوں کہ اگر تم سچے ہندو ہو تو کم سے کم اپنے دھرم کے وید وں اورپُرانوں کی باتوں کو تو مانوجس میں واضح طورپربتایا گیا ہے کہ اللہ (ایشور) ایک ہے، صرف وہی پوجا کے لائق ہے۔ اسلام دھرم ہمارا بھی دھرم ہے۔ محمد صلى الله عليه وسلم ہمارے بھی رہبر ہيں۔
آج بھی ميں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، ليکن يہاں ایسا ماحول ہو گیاہے کہ اگر کوئی ہندو میرے ساتھ بيٹھتا یا بات کرتا ہے تومتعصب قسم کے لوگ اس کے ذہن میں طرح طرح کے وساوس ڈالتے ہیں” پون کے پاس مت بیٹھوورنہ وہ تمہيں مسلمان بنا دے گا“ ۔ یہاں تک کی اسلام کی کتابيں بھی پڑھنے سے منع کرتے ہيں۔ کیونکہ انہيں معلوم ہے کہ اگر پون کے ساتھ دس دن رہا تو ضرور اسلام قبول کر لیگا، متعددبار ایسا ہوا کہ ان کے منع کرنے کے باوجود بھی کئی لوگ ميرے پاس بیٹھتے رہے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
اسلام سچا دھرم ہے، اس لبے ميں اسکے بارے ميں بتانے سے کسی سے نہيں ڈرتا اگر ميرے دل ميں آیا کہ فلاں آدمی کو اسلام کی دعوت دینا ہے تو ميں اسے اچھے اخلاق کے ساتھ دعوت دیتا ہوں۔ ميں نے اپنے گھر والوں کو بھی خط کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی ہے۔ ميرے گھر والوں کو سمجھ ميں آیا ہے۔ ميری امی کہتی ہے: تیرے آنے کے بعد ہم سوچیں گے۔ امید ہے کہ میرے گھروالے اسلام قبول کر ليں گے۔اللہ انہيں ہدایت دے۔( آمین)
میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کی اسلام کوئی نیا دھرم ، یا صرف مسلمانوں کا دھرم نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ہی سناتن دھرم ہے محمد صلى الله عليه وسلم صرف مسلمانوں کے پیغمبر نہیں ہیں بلکہ ہر ہندو کے رہنما اور پیغمبر ہیں اس بات کی تصدیق ویدوں اور پرانوں نے کیاہے ۔ اگر میری بات جھوٹ لگ رہی ہو تو ڈاکٹرایم اے شری واستو کی کتاب ”حضرت محمدصلى الله عليه وسلم اور بھارتیہ دھرم گرنتھ “پڑھ سکتے ہیں سچائی خود بخود ہر ہندو کے سامنے آجائے گی۔
مجھے اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے زیادہ مسلمانوں سے تکلیف پہونچی ہے۔ ميں سوچتا ہوں کہ محمد صلى الله عليه وسلم کے زمانے ميں اسلام قبول کرنے والوں کو غیروں سے تکلیف پہونچتی تھی‘ لیکن آج مسلمانوں سے تکلیف ہو رہی ہے۔ خیر مجھے صبر اس بات سے ہے کہ جن مسلمانوں سے تکلیف ہورہی ہے ‘ انہيں اسلام کے بارے ميں علم نہيں ہے۔ قرآن ميں کیا لکھاگیا ہے‘ نبی صلى الله عليه وسلم نے کیا کہا ہے ؟ یہ بھی انہيں پتہ نہيں ہے۔ اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ايسے مسلمان بہت کم ملے ہيں۔ زیادہ تر سچے مسلمان ہی ملتے ہيں۔ انہيں مجھ سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ میری ہر مسلمان سے گذارش ہے کہ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ قرآن کو ترجمہ و تشریح کے ساتھ سمجھ کر پڑھیں۔اور نبی صلى الله عليه سلم کی حدیثوں کابھی مطالعہ کریں، غیر مسلموں اور نومسلموں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں، نومسلموں کی مدد کریں۔ا نہیں پناہ دیں‘ انہیں اپنا بھائی سمجھیں اوراللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچائیں
میرے لیے اللہ سے دعا کریں۔ اللہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے (آمین)
اللہ حافظ
پون کمارکیوٹ عرف محمد عمر