ایسا ٹوٹا ھے تمناؤں کا پندار کے بس
دل نے جھیلے ہیں محبت میں وہ خار کے بس

اک لمحے میں زمانے میرے ہاتھوں سے گئے
اس قدر تیز ھوئی وقت کی رفتار کے بس

تو کبھی مجھے رکھ کے دیکھ بازار کے بیچ
اس طرح ٹوٹ کے آئیں گے خریدار کے بس

کل بھی صدیوں کی مسافت سے پرے تھے دونوں
درمیاں آج بھی پڑتی ھے وہ دیوار کے بس

یہ تو اک ضد ھے کہ میں شکایت نہ کروں
ورنہ شکوے تو اتنے ھیں میرے یارکے بس