احتجاج اور بغا وت پر ایک تحریر
یں اس وقت “مفت کی روٹی” توڑ نے کے بعد چارپائی توڑرہا تھا جب “منا چریا” اچانک ہی میرے سامنے آگیا،اس کی آنکھوں سے پانی اور ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا۔
نچلے ہونٹ کے دائیں کونے پر ایک چھالا نما زخم تھا ۔جس میں لعاب اور خون مل کر عجیب منظر پیش کر رہے تھے ،میں نے بے تکلفانہ انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا “ابے جا چار سال کے بچے سے پٹ گیا “لیکن ہوا کیا ہے ؟ ایسا کیسے ممکن ہے کہ کہ ایک چار سال کا کمزور سا بچہ پچیس سال کے ہٹے کٹے شخص کے ہونٹ پھاڑ دے میں نے حیرت سے پوچھا۔
یار مجھے کیا پتا تھا کہ وہ ایک دم اچھل کر ٹکر مار دے گا میں تو بچہ سمجھ کر مستی میں رعب جھاڑ رہا تھا”تفریح تفریح میں ہونٹ پھٹ گیا یار اچھا خاصا خون آرہا ہے” منے چریےنے ہونٹ دباتے ہوئے کہا ۔” لیکن آخر یہ ہو ا کیسے یار؟ “
بس یار کیا بتائوں پہلے تو میں بچے کو ایویں رعب جھاڑنے کے لیے ڈانٹ رہا تھا ، اس نے مجھے منہ چڑا دیا ۔ میں نے اس کو ٹافی کا لالچ دے کر بلایا ۔ بچہ آخر بچہ تھا ”ٹافی ٹریپ ” میں آگیا ۔ میں نے اس کو پکڑ کر اوندھا کیا اور اس کی تشریف پر کرارا سا خراج تحسین پیش کیا۔
ایک ،دو ،تین ،چار۔۔ ۔۔۔۔
جب اس کی برداشت سے باہر ہوا تو اس نے بھاں بھاں کر کے رونا شروع کردیا ،میں نے گرفت ڈھیلی کردی بس یہی میری غلطی تھی اس نے تھوڑا سا اوپر ہو کر اپنا سر میرے نچلے ہونٹ پر دے مارا۔”چریے نے اپنی درد بھری اور ہونٹ پھٹی کہانی ختم کرتے ہوئے کہا “۔
یار سیدھی سی بات ہے جو بچے چھوٹی سی عمر میں ریسلنگ کے شوقین ہوں ، جو ناشتہ کرتے وقت “چھوٹا بھیم “لنچ کے دوران ” بین ٹین ” اور رات کے کھانے میں “سمورائی جیک ” جیسے کارٹون دیکھیں گے ان سے تو یہی توقع کی جا سکتی ہے ۔ “
میں نے منے چرے کی کیفیت پر مرہم رکھتے ہوئے کہا “ہاں یار بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی “
وہ کھسیانا ہو کر بولا۔ جوش کی کھائی میں ہوش کو دھکا دینے سے یہی ہوتا ہے ۔
آخر میں ایک وضاحت اگر آپ لوگوں کو کہیں سے بھی اگر یہ لگ رہا ہے کہ اس واقعے میں پاکستان ، حنا ربانی کھر، جنرل کیانی یا پھر امریکہ کا ذکر کیا گیا ہے تو پھر یہ آپ کی اپنی رائے ہے ۔ آخر آپ امریکہ کو “منا چریا ” تو نہیں کہہ سکتے نا ۔۔