مجھے بچپن سے ہی انگریزی میں فیل ہونے کا شوق تھا لہذا میں نے ہر کلاس میں اپنے شوق کا خاص خیال رکھا۔ ویسے تو مجھے انگریزی کوئی خاص مشکل زبان نہیں لگتی تھی ، بس ذرا سپیلنگ ، گرائمراور Tenses نہیں آتے تھے۔ مجھے یاد ہے جو ٹیچر ہمیں کلاس میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے وہ بھی کاٹھے انگریز ہی تھے، دو سال تک ’’سی۔۔۔یو ۔۔۔پی۔۔۔’’سپ‘‘ پڑھاتے رہے، مشین کو ’’مچین‘‘اور نالج کو ’’کنالج‘‘ کہتے رہے۔ایسی تعلیم کے بعد میری انگریزی میں اور بھی نکھا ر آگیا، مجھے یاد ہے میٹرک کے داخلہ فارم میں جب ایک کالم میں ’’Sex ‘‘ لکھا ہوا تھا تو میں کافی دیر تک شرماتے ہوئے سوچتا رہا کہ ایک لائن میں اتنی لمبی تفصیل کیسے لکھوں؟؟؟فارم کے پہلے کالم میں اپنا نام انگریزی میں لکھنا تھا لیکن انگریزی سے نابلد ہونے کی وجہ سے مجھے یہ نام لکھنے کے لیے اسلام آباد کا سفر کرنا پڑا کیونکہ فارم پر لکھا ہوا تھا’’Fill in capital ‘‘۔انگریزی فلمیں دیکھتے ہوئے بھی مجھے کہانی توسمجھ آجاتی تھی، سٹوری پلے نہیں پڑتی تھی۔سکس ملین ڈالر مین ، نائٹ رائڈر، چپس، ائیر وولف اور کوجیک جیسی مشہورِ زمانہ فلمیں میں نے صرف اور صرف اپنی ذہانت سے سمجھیں اور انجوائے کیں۔

آج سے کچھ سال پہلے تک مجھے یقین ہوچکا تھا کہ میں فارسی، عربی ، پشتو اور اشاروں کی زبان تو سیکھ سکتا ہوں لیکن انگریزی نہیں،لیکن اب جو حالات چل رہے ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یا تو مجھے انگریزی آگئی ہے، یا سب کو بھول گئی ہے۔کچھ بھی ہو، میری خوشی کی انتہا نہیں، اب سارے سپیلنگ بدل گئے ہیں اور دو تین لفظوں میں سما گئے ہیں۔ اب Coming لکھنا ہو تو صرف cmg سے کام چل جاتا ہے۔گرل فرینڈ GF ہوگئی ہے اور فیس بک FB بن گئی ہے۔ اب کوئی انگریزی کا لمبا لفظ لکھنا ہو تو اُس سے پہلے کے چند الفاظ لکھ کر ہی ساری بات کہی جاسکتی ہے، میں نے ساڑھے تین سال کی’’ٹیوشن بامشقت‘‘ کے بعد unfortunately کے سپیلنگ یاد کیے تھے، آج کل صرف Unfort سے کام چل جاتاہے یعنی جہاں سے مشکل سپیلنگ شروع وہیں پہ ختم۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن اب تو اس مختصر انگریزی میں بھی ایسی ایسی مشکلات آن پڑی ہیں کہ کئی دفعہ جملہ سمجھنے کے لیے استخارہ کرنا پڑتاہے۔ابھی کل مجھے ایک دوست کامیسج آیا، لکھا تھا’’U r inv in bk crmy‘‘ میں نے حیرت سے میسج کو پڑھا، اللہ جانتا ہے تین چار دفعہ مجھے شک گذرا کہ اُس نے مجھے کوئی گندی سی گالی لکھی ہے، دل مطمئن نہ ہوا تو ایسی ہی انگلش لکھنے اور سمجھنے کے ماہر ایک اور دوست سے رابطہ کیا، اُس مردِ مجاہد نے ایک سیکنڈ میں ٹرانسلیشن کردی کہ لکھا ہے You are invited in book’s ceremony۔۔۔!!!
انگریزی سے نمٹنے کا ایک اوراچھا طریقہ میرے ہمسائے شاکر صاحب نے نکالا ہے، جہاں جہاں انہیں انگریزی نہیں آتی وہاں وہ اطمینان سے اُردو ڈال لیتے ہیں۔مثلاً اگر کھانا کھاتے ہوئے اُنہیں کسی کا میسج آجائے تو جواب میں لکھ بھیجتے ہیں’’پلیز اِس ٹائم ناٹ ڈسٹرب، آئی ایم کھانا کھائینگ‘‘۔ ایک دفعہ موصوف کو فیس بک پر ایک لڑکی پسند آگئی، فوراً لکھا’’آئی وانٹ ٹو شادی وِد یو۔۔۔آر یو راضی؟‘‘۔ لڑکی کا جواب آیا’’ہاں آئی ایم راضی، بٹ پہلے ٹرائی ٹو راضی میرا پیو تے بے بے ‘‘۔آج کل یہ دونوں میاں بیوی ہیں اوراکثر اسی انگریزی میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، تاہم اب وہ درمیان میں اُردو کی بجائے پنجابی بولتے ہیں اور ایک جملہ بار باردہراتے ہیں’’ آئی سیڈ کھصماں نوں کھا ، یور سارا خاندان اِز چول‘‘۔
انگریزی کے بدلتے ہوئے رنگ صرف یہیں تک محدود نہیں، اب تو کوئی صحیح انگلش میں جملہ لکھ جائے تو اُس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگتا ہے، ماڈرن ہونے کے لیے انگریزی کا بیڑا غرق کرنا بہت ضروری ہوگیاہے ،میں تو کہتا ہوں انگریزی کی صرف ٹانگ ہی نہیں، دانت بھی توڑ دینے چاہئیں ، اِس بدبخت نے ساری زندگی ہمیں خون کے آنسو رُلایا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب انگریزی لکھنے کے لیے گرائمراورTenses بھی غیر ضروری ہوگئے ہیں۔یعنی اگر کسی کو کہنا ہو کہ ’’میں تمہارا منتظر ہوں، تم کب تک آؤ گے؟‘‘ تو بڑی آسانی سے اِسے چٹکیوں میں یوں لکھا جاسکتا ہے m wtg u cm whn?۔۔۔!!!
دنیا مختصر سے مختصر ہوتی جارہی ہے، کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ اور اب آئی پیڈ میں سما چکے ہیں، موٹے موٹے ٹی وی اب سمارٹ ایل سی ڈی کی شکل میں آگئے ہیں، ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی نے لے لی ہے،انٹرنیٹ ایک چھوٹی سی USB میں سمٹ چکا ہے

ایسے میں انگریزی کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی، اُردو کا حل تو ’’رومن اُردو‘‘ کی شکل میں بہت پہلے نکل آیا تھا، اب انگریزی کی مشکل بھی حل ہوگئی ہے۔اب جو جتنی غلط انگریزی لکھتاہے اُتنا ہی عالم فاضل خیال کیا جاتا ہے، اگر آپ کو کسی دوست کی طرف سے میسج آئے اور اُس میں That کی بجائے Dat لکھا ہو توبیہودہ سا قہقہہ لگانے کی بجائے ایک لمحے میں سمجھ جائیں کہ آپ کا دوست ایک ذہین اور دنیا دار شخص ہے جو جدید انگریزی کے تمام تر لوازمات سے واقف ہے۔میں سمجھتا تھا کہ شاید انگریزی میں اُردو اور پنجابی کا تڑکا ہمارے ہاں ہی لگایا جاتا ہے لیکن میر اخیال غلط ثابت ہوا، سعودیہ میں مقیم میرا بھانجا بتا رہا تھا کہ یہاں کے عربی بھی انگریزی کا شوق پورا کر رہے ہوں تو جہاں جہاں انگریزی آنکھیں دکھاتی ہے وہاں یہ عربی کا لفظ ڈال لیتے ہیں، مثلاًاگر انگریزی میں کہنا ہو کہ یہ میرا گھر ہے تو بڑے آرام سے کہہ جاتے ہیں ’’ھذا مائی ہوم‘‘۔

انگریزی اتنی آسان ہوگئی ہے لیکن بڑے دکھ کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ یہ آسان انگریزی صرف ہماری عام زندگیوں میں ہی قابل قبول ہے، انگریزی کا مضمون پاس کرنے کے لیے تاحال اُسی جناتی انگریزی کی ضرورت ہے جوخود انگریزوں کو بھی نہیں آتی۔پتا نہیں آج کل کی رنگ بدلتی انگریزی میں اب پرانی انگریزی کی کیا ضرورت رہ گئی ہے؟ پہلے کبھی لگتا تھا کہ ساری دنیا میں انگریزی کی اشد ضرورت ہے، دنیا سے رابطے کے لیے انگریزی بولنا اور لکھنا بہت ضروری ہے ، لیکن اب تو لگتا ہے عالمی رابطے کے لیے کوئی نئی زبان ہی وجود میں آرہی ہے، یہ زبان کسی نے نہیں بنائی، نہ اِس کے کوئی قواعد ہیں ، بس یہ خوبخود بن گئی ہے اور لگ رہا ہے کہ کچھ عرصے تک باقاعدہ ایک شکل اختیار کرجائے گی، یہ زبان سب سمجھ سکتے ہیں،لکھ سکتے ہیں لیکن شاید بول کبھی نہیں سکیں گے کیونکہ یہ ’’شارٹ ہینڈ‘‘ کی وہ قسم ہے جو کسی کالج یا انسٹی ٹیوٹ میں نہیں پڑھائی جاتی۔اِس زبان میں خوبیاں تو بہت ہیں لیکن ایک کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی، یہ جذبات سے عاری زبان ہے، یہ چند لفظوں میں دو ٹوک بات کرنے کی عادی ہے، اس زبان میں کسی کی موت پر v sad لکھ دینا ہی کافی سمجھا جاتاہے، یہ محبتوں اور احساسات سے محروم زبان ہے۔ میں یہ زبان کچھ کچھ سیکھ چکا ہوں، لیکن استعمال کرنے سے گھبراتا ہوں، پتا نہیں کیوں مجھے لگتاہے اگر میں نے بھی یہ زبان شروع کردی تومجھ میں اور روبوٹ میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔

از گل نوخیز اختر