ایک بھارتی لڑکی کی دکھ بھری داستان
تحقیق و تحریر:پامیلا کپور
پامیلا کپور بھارت کی مشہور صحافی اور عورتوں کے حقوق کے لئے اپنے کام کی وجہ سے معروف ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے شوہر کی مدد سے بھارت میں کال گرل بن جانے والی گھریلو لڑکیوں کے انٹرویوز کئے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ آخر باعزت زندگی جیتے جیتے کوئی لڑکی کیسے اس گڑھے میں جا گرتی ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ پامیلا کا کہنا ہے کہ بھارت میں شادی شدہ عورتیں۔ کالج کی لڑکیاں۔ استانیاں اور ایسی ایسی عورتیں کال گرل بنی ہوئی ہیں کہ سن کر یقین نہیں آتا۔ بھارتی معاشرتی کا یہ رخ دکھانے کے لئے اپنے قارئین کے لئے یہ انٹرویوز، پامیلا کے شکریئے کے ساتھ شائع کررہا ہے۔ادارہ
بیس 20سالہ کانتی ایک سادہ ، درمیانی شکل و صورت کی لڑکی ہے ۔ اس کا قد کافی چھوٹا ہے، جسم پتلا مگر متوازن ہے۔ معمولی میک اپ کرتی ہے ۔ کسی قدر شرمیلی ہے اور میل ملاپ سے گریز کرتی ہے ۔ دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے ایک پرائمری اسکول میں ملازمت کرلی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ٹیوشن بھی پڑھاتی ہے ۔ یہ سلسلہ ساڑھے تین سال سے چل رہا ہے ، تنخواہ ڈیڑھ سو روپے ملتی ہے ۔ اس نے کال گرل کے طور پر کام ڈھائی سال سے جاری رکھا ہوا ہے جس سے تین سوروپے ماہانہ کماتی ہے۔ کانتی نچلے متوسط خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کا والد ایک فیکٹری میں ویلڈر ہے اور اس کی تقریبا ساڑھے تین سو روپے ماہانہ آمدنی ہے ۔ اس کی تعلیم آٹھ جماعتوں تک ہے ۔ کانتی کی ماں جو فوت ہوچکی ہے صرف چھ جماعتیں پڑھی ہوئی تھی ۔ کانتی اپنے والدین کی دوسری اولاد ہے ۔ اس کا ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن ہے ۔ والد چونکہ میٹرک نہیں کرسکا تھا جس کا اسے شدید احساس تھا اس لیے وہ اپنی اولاد کو معیاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ یہاں پہنچ کر کانتی رک گئی ۔ میں نے مزید کچھ بتانے کے لیے کہا، وہ تیار تو نہ تھی مگر میرا اصرار اور منت سماجت بڑھی تو وہ اپنی زندگی اور بچپن سے لے کر اب تک کے تجربات بتانے پر آمادہ ہوگئی ۔ چنانچہ اس نے بتانا شروع کیا :
”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ، باپ کے گھر میں شروع ہی سے غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ لیکن میرے والدین کے باہمی تعلقات بالکل خوشگوار تھے، ہم نے انہیں لڑتے یا ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہوئے بہت کم پایا۔ البتہ کھانے پینے اور پہننے کی اشیا کی ہمارے ہاں ہمیشہ ہی قلت رہی ۔ اسی وجہ سے میری والدہ بہت جھنجلاتی اور مغموم رہتیں ۔ پھر بھی میرے والد ہمیں اچھی اور مہنگی تعلیم دلانے پر کمربستہ تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک کا نونٹ میں داخلہ دلا رکھا تھا۔ ان کی تنخواہ کا نصف حصہ تو ہماری یونیفارم اور فیسوں کی نذر ہوجاتا، باقی جو کچھ بچتا اس سے روٹی کپڑاا ور دیگر لوازمات بمشکل پورے ہوتے ۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کئی دفعہ ہمیں رات کا کھانا کھائے بغیر سونا پڑتا۔ اس سے میری ماں بہت دکھیا ہوجاتی پھر بھی مجموعی طورپر ہم ایک مطمئن اور خوش گھرانے کے افراد تھے۔
میرے والد کے اوقات کار بہت طویل تھے، جب وہ تھکے ہارے گھر واپس آتے ہم پر نصف سے زیادہ نیند طاری ہوچکی ہوتی۔ مجھے اپنی ماں اور بڑے بھائی سے بہت لگاو تھا۔ میں چونکہ کم عمر تھی اس لیے میری سمجھ میں نہ آتا کہ ہمارے پاس میری دیگر کلاس فیلوز کی طرح پہننے اور کھانے کو کافی کچھ کیوں نہیں ہے ۔ کیا یہ میرے والد کے پاس دولت کم ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ میں اکثر ضد کرتی اور شور مچاتی کہ میرے پاس پہننے کے لیے اچھا فراک ہونا چاہیے اور کھانے کو کیک پیسٹریاں ہونی چاہئیں … میرے رونے اور بسورنے کو صرف میرا بڑا بھائی اچھی طرح محسوس کرتا چنانچہ وہ اپنے حصے کے کھانے میں سے بھی مجھے کچھ دے دیتا اور اپنی شرٹ اور شارٹس پر آنے والا خرچ بچاکر میرے لیے فراک لے آتا۔ مجھے اس وقت اس چیز کا احساس نہ ہوتا )مجھے ان باتوں کی سمجھ اس وقت آنے لگی جب میری عمر 9 سال ہوگئی ( ۔ پھر مجھے یہ بھی پتہ چلنے لگا کہ امی عام طورپر اس لیے فاقہ کرتی ہے کہ اس کے شوہر اور بچوں کو کافی کھانا مل سکے ۔ وہ بہت کمزور اور تھکی تھکی دکھائی دینے لگی کیونکہ سارے گھر کا کام اسے تنہا نمٹانا پڑتا۔ والد جب کام سے واپس آتے تو وہ بھی جھنجلائے ہوئے ہوتے تھے ۔ اگر ہم شور مچاتے تو وہ سخت ڈانٹ ڈپٹ کرتے ۔ وہ بڑے بیٹے سے بہت محبت کرتے اس لیے وہ کبھی کبھار صرف اسی کو کھلانے کے لیے کچھ نہ کچھ لیکر آتے ۔ لیکن بڑا بھائی مجھے اس میں حصہ دار بنالیتا۔ کھانے پینے کی چیزوں کی قلت کے باوجود ہم ایک خوش گھرانا ہی تھے لیکن پھر ہم پر ایک آفت ٹوٹ پڑی۔
اپنے بچپن کے غمناک واقعات اور تلخ تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کانتی نے کہا کہ میں اس وقت 9 سال کی تھی کہ میرا بڑا بھائی جو 11 سال کا تھا، چار پانچ روز شدید بخار میں مبتلا رہنے کے بعد فوت ہوگیا۔ اس کی اچانک موت والدین اور خود کانتی کے لیے خوفناک دھچکا تھی ، باپ کی تو گویا کمر ہی ٹوٹ گئی ۔ اس کے بعد ماں کی صحت تیزی سے بگڑنے لگی اور چند سال کے اندر وہ بہت ہی کمزور ہوگئی۔ کانتی نے کہا کہ اس نے اپنے باپ اور ماں کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارا متوفی بیٹا ہماری امیدوں کا مرکز تھا، ہم سمجھتے تھے کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کر کے ، اچھا روزگار پائے گا، ہماری دیکھ بھال کرے گا اور چھوٹے بھائی اور بہنوں کا بھی سہارا بنے گا۔ اس کی ماں پر غم و اندوہ کے اتنے دورے پڑتے کہ کچھ کھاتی پیتی نہ تھی او رکئی کئی راتیں جاگ کر گزاردیتی ۔ کبھی کبھی بے ہوش بھی ہوجاتی۔ والد اپنی تھوڑی تنخواہ کی وجہ سے اس کے علاج معالجے، آرام اور مناسب خوراک کا اہتمام نہ کرسکتا، اس طرح اس کی صحت مسلسل بگڑتی چلی گئی۔
کانتی نے اپنی داستانِ غم جاری رکھتے ہوئے کہا:
”ہم پر دوسری بڑی آفت ، میرے بڑے بھائی کے انتقال کے چار سال بعد ، اس وقت پڑی جب ماں کا انتقال ہوگیا۔ اس کی موت بھی ہمارے لیے بہت بڑا سانحہ تھی ۔ ہم بچے جب اسکول گئے ہوئے ہوتے، اور باپو فیکٹری میں ہوتے تو ماں مختلف چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اندر باہر آتی جاتی رہتی ۔ اس دن بھی ماں غالبا مارکیٹ گئی ہوئی تھی یا ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔ واپسی پر وہ سڑک پر گرپڑی۔ سر میں شدید چوٹ لگی اور خون بہنے لگا، ہسپتال پہنچائے جانے سے پہلے ہی دم توڑگئی۔ اس وقت میں تقریبا تیرہ سال کی تھی ۔ میں اور میری چھوٹی بہن بے حد روئیں۔ چھوٹا بھائی بمشکل سات سال کا تھا۔ ماں کی موت کا سن کر وہ سکتے میں آگیا۔ باپو کو شدید صدمہ پہنچا۔ وہ ہر وقت مغموم رہنے لگے اور ہم سے بھی بے پروا ہوگئے۔ ہم سے زیادہ محبت کا اظہار کرنے کی بجائے انہوں نے چپ رہنے کا رویہ اختیار کرلیا، کبھی کبھار کوئی سرسری بات کرلی تو کرلی، پھر طویل خاموشی چھاجاتی۔ اس پر ہمیں ماں کی یاد مزید ستانے لگی۔ اس طرز عمل کے باوجود بھی باپ کی خواہش تھی ہم کانونٹ میں اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ مجھے اپنی تعلیم کے ساتھ گھر کا کام کاج بھی 13 سال کی عمر میں سنبھالنا پڑا۔ میں کام کے بوجھ کو شدت سے محسوس کرتی اور باپ کی مالی مشکلات کو سمجھے بغیر ہی بار بار اس سے گھر میں ایک نوکر رکھ لینے کا اصرار کرتی۔ میرے مطالبے پر وہ پریشان ہوتا رہتا۔ ایک دن اس نے بتایا کہ وہ کوئی ایسا انتظام کرنا چاہتا ہے جس سے ایسا ہوجائے کہ ہم دونوں بہنوں کو گھر میں تنہا نہ رہنا پڑے اور گھر کے کام میں مدد بھی ملے ۔ بالآخر انہوں نے ایسا انتظام کر ہی دیا مگر اس انتظام نے ہماری زندگیاں تباہ کردیں۔”
پوچھا گیا کہ زندگیاں کیسے تباہ ہوئیں، کانتی نے بتایا کہ اس کا والد ایک عورت کو گھر لے آیا تھا، جسے شروع میں ہم آنٹی سمجھتے تھے لیکن جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ باپو نے اس سے چپکے سے شادی کرلی ہے اور اس طرح وہ ہماری سوتیلی ماں بن گئی ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہمارا باپ اس سے بہت محبت کرتا ہے اور خاندان کے ہر معاملے میں اسی کی بات سنتا اور مانتا ہے ۔ وہ اس کے لیے بہت اچھے اچھے کپڑے لاتا اور اس کی بڑی ناز برداری کرتا۔ وہ صرف خود سے اور میرے باپ سے غرض رکھتی ، اس طرح وہ آپس میں اتنے منہمک رہنے لگے کہ انہیں ہم بچوں کی کوئی پروانہ تھی۔ آگے پھر کانتی کی زبانی سنئے :….
”ہماری بڑی بدقسمتی تھی کہ باپو نے اس کتیا، نام نہاد آنٹی ، کو گھر میں ڈال لیا۔ اسے گھر کے کسی کام سے دلچسپی نہ تھی ، اس نے ان کاموں میں ہم دوبہنوں کو جوت دیا، جب ہم تھکی ہاری اسکول سے واپس آتیں تو بستہ چھوڑنے اور یونیفارم اتارنے کے بعد ہم کھانے پکانے اور دیگر کاموں میں مصروف ہوجاتیں اور رات گئے تک لگی رہتیں ، ہوم ورک بھی تسلی سے نہ کرسکتیں۔ مجھے پتہ تھا کہ باپو کی آمدنی بہت کم ہے ، اس کے باوجود بھی ماں کی زندگی میں ہمیں عموما پیٹ بھرکر کھانا ملتا۔ البتہ کبھی کبھار کھائے بغیر سوجانا پڑتا تھا۔ لیکن اب فاقے زیادہ ہونے لگے۔ اس نام نہاد آنٹی ، …. کتیا نے کئی یار بنارکھے تھے ۔ جب باپو کام پہ گیا ہوتا اور ہم اسکول میں ہوتے تو یہ ہمارے گھر میں ہوتے اور ان کی خاطر تواضع کی جارہی ہوتی۔ ہمیں یہ بات پڑوس کی ایک خاتون نے بتائی جو ہماری متوفیہ ماں کی سہیلی رہ چکی تھی ۔ پھر اس کا حوصلہ دیکھو کہ مجھے تو لڑکوں سے ملنے جلنے کی اجازت نہ تھی اور خود غیر مردوں سے گلچھرے اڑانے میں اسے کسی کی روک ٹوک نہ تھی ۔ میں سب سے بڑی بیٹی ہونے کی وجہ سے ان حرکتوں کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا ہم سے مشفقانہ سلوک ہوتا تو شاید میں اس کی طرف سے عائد پابندیاں قبول بھی کرلیتی۔ لیکن موجودہ صورت میں ، ان پابندیوں کو آمریت ہی سمجھتیں ۔ باپو کی آمدنی محدود تھی تو اس کے اپنے کپڑے اور میک اپ وغیرہ کے لئے پیسے کہاں سے آرہے تھے۔ ہمیں تو دو وقت کی سادہ روٹی تک میسر نہ تھی۔ کئی دفعہ میں نے باپو سے یہ باتیں کرنے کے بارے میں سوچا مگر وہ اس کتیا سے اتنا لاڈپیار کر رہا تھا کہ مجھے اس سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے کبھی ہم سے پوچھنے کی کوشش ہی نہ کی یہ عورت ہم سے اچھا سلوک کر رہی ہے یا نہیں؟”
پھر اس وقت کانتی کا پیمانہ صبر چھلک پڑا جب آنٹی نے اس کے باپ کو قائل کرلیا کہ اس کی تعلیم دسویں جماعت سے آگے جاری رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسے کسی جاب پر لگادیا جائے تاکہ یہ اپنے اخراجات خود برداشت کرے ۔ یہ سن کر کانتی کو شدید غصہ آیا بات یہیں تک نہ تھی بلکہ یہ بھی تھی کہ اس نے ایسے حالات پیدا کردیئے جن میں کانتی اور بالخصوص اس کا چھوٹا بھائی فاقوں سے دوچار ہوگئے۔ اس پر اس کا بھائی آمادہ بغاوت ہوگیا اور بعض اوقات وہ اسے بری بری گالیاں بھی دینے لگتا۔ انہیں گھر سے جیب خرچ نہ ملتا، کانونٹ میں جہاں دولت مند لوگوں کے بچے پڑھتے تھے ، وہ خود بھی کھل کر خرچ کرتے اور دوستوں کی بھی خاطر و مدارات کرتے رہتے۔ اس پر ان کے دل میں آنٹی کے خلاف غصہ مزید بڑھ جاتا۔ کانتی کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی کہ اسے بھی خرچ کے لیے کہیں سے کچھ پیسے مل جایا کریں، تاکہ وہ خود بھی چیزیں خریدے اور بھائی بہن کو بھی دے تاکہ ان کے دلوں سے کمتری اور محرومی کا احساس کم ہوسکے۔ جیب خرچ تو الگ رہا، انہیں پیٹ بھرکے روٹی تک میسر نہ تھی۔اب تو اس نے باپ سے بھی نفرت کرنا شروع کردی کہ وہ اپنی اولاد کی نہ تو کوئی پروا کرتا ہے ، نہ اسے وقت دیتا ہے ، سارے پیسے لاکر نئی بیوی کے حوالے کردیتا ہے۔
دسویں پاس کرنے کے بعد، جب باپ نے کانتی کو آگے تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیسے نہ دیئے تو اسے سخت مایوسی ہوئی چنانچہ اس نے نوکری کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے کہا :
”میں اس گھر میں سارادن رہنا کہاں گوارا کرسکتی تھی جہاں وہ کتیا … میری آنٹی بھی رہتی تھی۔ میں کوئی بھی جاب ، فوری طورپر قبول کرنے کو تیار تھی تاکہ اپنے لیے اور اپنے بھائی اور بہن کے لیے کچھ رقم حاصل کرسکوں۔ میری زبردست کوشش تھی کہ میری طرح وہ بھی ، محض فیس وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ چنانچہ میں نے فوری طورپر پرائمری اسکول ٹیچر کی پوسٹ پر اسٹاف کی چھٹیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پرکرنے والی ٹیچر کے طورپر ملازمت شروع کردی۔ بعدازاں عارضی ٹیچر کی حیثیت میں 100 روپے ماہوار پر عارضی ٹیچر تعینات ہوگئی۔”
میں نے اس کے حالات کو مزید کریدتے ہوئے وہ حالات دریافت کیے جن میں اس نے کال گرل کے طورپر کام کا آغاز کیا، میں نے بڑی کوشش اور دم دلاسہ دے کر اسے یہ ساری تفصیلات بیان کرنے پر آمادہ کرلیا۔ کانتی پہلے تو کافی جھجکی پھر بولنا شروع کردیا :
میں نے اسکول میں ٹیچروں کو بتادیا کہ مجھے رقم کی اشد ضرورت ہے، اگر کوئی طالبہ ٹیوشن پڑھنا چاہتی ہو تو اسے میرے نام کی سفارش کردیجئے گا۔ اسکول میں تقریبا تین ماہ کی ملازمت کے بعد ایک لڑکی نے اپنے گھر پر مجھ سے ٹیوشن پڑھنا شروع کردیا۔ اس سے مجھے 50 روپے مہینہ ملنے لگے ۔ اس طرح تنخواہ سمیت 150 روپے ملنے سے میری زندگی میں بڑا فرق پڑگیا۔ تاہم جہاں تک میری ضرورتوں کا تعلق تھا، یہ بہت کم تھے۔ مجھے بہن بھائیوں کی کانونٹ کی تعلیم جاری رکھنے اور گھر میں ہم تینوں کے اخراجات کے حصے کے طور پر اداکرنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ آمدنی کی ضرورت تھی۔ بہر حال سردست اس سے زیادہ میں کہاں سے لاتی۔ میں نے جب کمانا شروع کیا تو باپو نے ، میری بہن اور بھائی کی کانونٹ فیس دینے کا سلسلہ …. مجھے یقین ہے کہ اس ظالم آنٹی کے اکسانے پر … بند کردیا اور ہمارے کھانے کی مقدار بھی گھٹادی۔ اس طرح مجھے اپنی بڑی توہین اور بے چارگی کا احساس ہونا شروع ہوگیا۔
اس دوران اسکول میں مجھے یہ بات بھی محسوس ہونے لگی کہ دوسری استانیاں مجھ سے ہمیشہ بہتر لباس میں ملبوس ہوتی ہیں، کیا مجھے ان جیسی نہیں ہونا چاہیئے؟ اس پر میرا خیال اس لڑکی کے والد کی طرف گیا جسے میں پرائیویٹ ٹیوشن پڑھارہی تھی۔ وہ بہت دولتمند آدمی تھا اور دولتمندوں سے اس کی دوستیاں اور جان پہچان بھی کافی تھی۔ چنانچہ اس سے پہلی ملاقات میں جو ٹیوشن فیس وصول کرتے وقت ہوئی، میں نے اس سے کہا کہ میں بہت ضرورتمند ہوں۔ اپنی تنخواہ کی کمی کو ٹیوشن سے پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، اگر آپ کے کسی دوست یا رشتہ دار کو اپنے بچوں کے لیے ٹیوٹر کی ضرورت ہوتو میں توجہ سے پڑھاوں گی اس سے مجھے بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے گا۔
یہاں پہنچ کر وہ اچانک رک گئی ، ایسا لگا کہ شاید وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں بتانا چاہتی۔ چنانچہ کچھ دیر تک میں بھی خاموش رہی۔ میں نے اس پر اس کے ماضی کے تجربات کے انکشاف کے لیے زور دینا مناسب خیال نہ کیا۔ ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں، جن میں اس کے اسکول کے حالات ، ساتھی استانیوں کے رہن سہن ، مشاغل اور دلچسپیوں کے بارے میں سوالات وغیرہ شامل تھے۔
پھر میں نے اس کا موڈ موزوں پاکر بڑی ہوشیاری سے پرائیویٹ ٹیوشن پڑھنے والی طا لبہ کے والد کا ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا اس نے اسے کچھ مزید ٹیوشنز دلوادیں؟ اس پر اس نے دوبارہ اپنے تجربات بتانا شروع کردیئے :
” ….انتہائی غیر متوقع طورپر … میری زندگی کا پہلا بڑا تحیر خیز واقعہ پیش آگیا۔ اس وقت میری عمر بمشکل 17 برس تھی…میری پرائیویٹ شاگرد کے والد نے اپنے گھر پر ایک روز مجھے کہا کہ میں اس کے ہمراہ اس کے دوست کے گھر چلوں میں فورا راضی ہوگئی کہ یہ مجھے اپنے دوست سے متعارف کرواکر اس کے ذریعے ٹیوشنیں دلوادے گا۔ اس شام جب ہم وہاں پہنچے تو ایک بہت بڑی پارٹی ہورہی تھی ۔ اس کی رونقیں دیکھ کر میری مرعوبیت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میں اس بات پر کچھ شرم بھی محسوس کر رہی تھی کہ کیونکہ میرا لباس ، ایسی محفل کے شایان شان نہ تھا۔ بہر حال ، اس نے اپنے دوست سے میرا تعارف کروایا اور مجھے اس کے پاس ہی کرسی مل گئی ۔ مجھے شراب کا پیگ پیش کیا گیا، پہلے تو میں نے انکار کیا لیکن اس کے اصرار پر میں کچھ نرم ہوگئی کیونکہ میں پسماندہ یا مغرور ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہتی تھی۔ میں نے پیگ تھام لیا، اس کی کڑواہٹ کے باوجود تین یا چار پیگ پی لیے۔ مجھے اپنا سرجلد ہی چکراتا ہوا محسوس ہونے لگا اور ساتھ ہی میں باتونی اور زیادہ ہشاش بشاش ہونے کا مظاہرہ کرنے لگی۔ میں کھانے میں ہر کسی کے ساتھ شریک ہوئی، چند نوالے ایک میز سے اور چند دوسری میز سے اٹھائے اور مہکتی ہوئی پورے ہال میں گھومنے لگی۔
جب ڈنر ختم ہوگیا تو میں نے اپنی شاگرد کے والد سے کہا کہ مجھے میرے گھر ڈراپ کردے، تو اس نے مجھے کچھ دیر انتظارکرنے کو کہا، کیونکہ بقول اس کے اس کا دوست مجھ سے علیحدگی میں کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ میں نے سوچا، شاید اپنی بچی کی ٹیوشن فیس اور پڑھانے کے اوقات وغیرہ مقرر کرنا چاہتا ہوگا۔ اس لیے میں اس کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی ۔ اس نے وہاں مجھ سے میرے کام و مشاغل ، میری ملازمت اور خاندان کے حالات اور آمدنی وغیرہ پوچھنے کے بعد مجھے کچھ رقم دی اور پھر بتایا کہ جو دوست تمہیں اپنے ہمراہ لایا ہے اس نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا ہے کہ تم بہت ضرورتمند ہو۔ اس لیے میں تمہاری ہر مدد کرنے کو تیار ہوں۔ میں اس پر خاموش رہی، صرف مسکرا دی۔ اس پر اس نے میری طرف بڑھنا شروع کردیا۔ جس پر میں نے ذرا مزاحمت کی لیکن نشے کے اثر کی وجہ سے میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ نشے نے دماغ کو ماوف کر رکھا تھا اس لیے معلوم نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
چونکہ میں کافی رقم مل جانے کی وجہ سے دلی طورپر خوش بھی تھی اس لیے میں نے اسے آگے بڑھنے دیا اور اپنے ہاتھ اسے پکڑنے دیئے اور اس کےبعد اس نے تقریبا زبردستی ہی میرے ساتھ جنسی فعل کردیا۔
تاہم مجھے اعتراف ہے کہ یہ حرکت اتنی خوفناک اور درد پہنچانے والی نہ تھی جتنی کہ میں پہلے سمجھ رہی تھی۔اپنے کپڑوں کو جھاڑ واڑ کر صاف کیا، بالوں کو سمیٹتی ہوئی باہر نکل آئی۔ باہر اس کا دوست جس نے اس پروگرام کو عملی جامہ پہنوایا منتظر کھڑا تھا، وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر جھینپا۔ پھر راستے بھر کچھ کہے بغیر گاڑی چلاتا رہا اور مجھے گھر ڈراپ کردیا۔
کانتی نے بعد ازاں بتایا کہ اس واقعہ کے کئی روز بعد ، یعنی کئی ناغے کرکے وہ اپنی شاگرد کو ٹیوشن پڑھانے کے لیے گئی۔ اس کے باپ نے مجھے فراغت کے بعد ٹھہرنے کے لیے کہا جیسے کہ وہ کوئی بات کہنا چاہتا ہو۔ اپنی بیٹی کو اندر بھیج دینے کے بعد اس نے کہا کہ وہ اس کی مدد کرنا چاہتا ہے ۔ اس سے اسے پیسے ملیں گے بشرطیکہ وہ اس کی ہر بات مانتی رہے۔ کانتی نے پہلے غصے کا اظہارکرکے انکار کیا اور کہا کہ اگر وہ ویسی ہی حرکت کرنا چاہتاہے جیسی اس رات اس کے دوست نے کی تھی تو ….
مجھے اس کے تاثرات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انکار کیا تو ممکن ہے ، اس کی بیٹی کی ٹیوشن بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ ابھی میں کچھ اور کہنے کی کوشش کر ہی رہی تھی تو بولا کہ اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ اس رات والی بات اس کے والدین اور اسکول والوں کو بھی بتاسکتا ہے ۔ اس طرح اسکول سے بھی چھٹی ہوجائے گی۔ اس دھمکی پر میری نظروں کے سامنے اپنے گھر کے دکھ مصیبتیں، نوکری سے قبل بہن بھائی کے غمگین چہرے گھوم گئے اور سنگدل والدین کا رویہ بھی یاد آگیا۔ میں نے سوچا کہ اگر سچ مچ ایسا ہو گیا تو اسکول میں بدنام ہونے کے علاوہ گھر سے بھی باہر پھینک دی جاوں گی ۔ چنانچہ میں نے جھجکتے ہوئے کہا… اچھا جیسے آپ کی مرضی… اس طرح میں نے کال گرل کے طورپر کام شروع کردیا۔
میرے اس سوال پر کہ کال گرل کے طورپر کام کے بارے میں تمہارا ردعمل کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ گاہکوں کے ساتھ پہلے چند تجربات تو کافی ناخوشگوار اور نفرت انگیز تھے لیکن بعد میں اس کے احساسات کافی تبدیل ہوگئے ۔ پھر بھی وہ ان حرکتوں کو مضحکہ خیز بیہودہ گندی اور واہیات باتیں سمجھتی ہے۔
میں اب بھی اسی اسکول میں پڑھارہی ہوں اور اس شخص کی بیٹی کی پرائیویٹ ٹیوشن بھی جاری ہے۔ مجھے اپنے امیر دوستوں کاروباری ساتھیوں کے ہاں لانا، لیجانا، اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔ وہ ان دوستوں سے تجارتی فوائد حاصل کرتا ہے اور مجھ سے خود جو جو حرکتیں کرتا ہے ان کے عوض الگ رقم دیتا ہے ۔ گھر میں میں نے یہ بتارکھا ہے کہ مجھے اور ٹیوشنیں بھی مل گئی ہیں۔ اس لیے زیادہ پیسے بن جاتے ہیں۔ جب کبھی بہت دیر سے پہنچوں تو بتادیتی ہوں کہ میری فلاں شاگرد کی طرف سے پارٹی تھی۔ میں تقریبا تین سال سے اسی جھوٹ کو نبھارہی ہوں۔ میری شاگرد کا باپ ہفتے میں ایک یا دوبار ایسے معاملات کہیں نہ کہیں فکس کردیتا ہے ، مجھے گاڑی پر وہاں لے جاتا ہے اور گھرپر ڈراپ بھی کردیتا ہے وہ بیک وقت دلال کا کام بھی کرتا ہے اور مجھے خود بھی استعمال کرتا ہے ۔ اس کے عوض تین سوروپے مہینہ اداکرتاہے ۔ اس طرح اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت کی پاکیزگی مجروح کر کے مجھ سے گندے کام کرتا بھی اور کراتا بھی ہے۔
آخر میں کانتی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ مجھ سے گندے بوڑھے لوگ جو کچھ کرتے ہیں یا جن حرکتوں کی توقع کرتے ہیں، میں ان پر برانہیں مناتی ، وہ قسم قسم کی حرکتوں سے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسے پیٹ کی آگ اور بھائی بہن کی خاطر سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ ان سے ملنے والے پیسوں سے روٹی کپڑا اور چھوٹوں کی کانونٹ کی تعلیم کے لیے فیس کا انتظام ہوجاتا ہے اور گھر سے طویل غیر حاضری سے اس مکروہ ماحول سے بھی نجات ملتی رہتی ہے جو اس کی آنٹی نے پیدا کر رکھا ہے ۔ اپنے مستقبل کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا :
میں بھی ہر شخص کی بیٹی کی طرح ، کسی اچھے مرد سے شادی کرکے اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں۔ لیکن چھ سات سال تک اس پیشے کو ترک نہیں کرسکتی کیونکہ بھائی کو اس کے قدموں پر کھڑا کرنا اور بہن کو بیاہنا میری ہی ذمہ داری ہے۔ میں یقینا برے کام کو براسمجھتی ہوں اور کوئی آبرومندانہ کام کرکے زندگی گزارنے کی متمنی ہوں۔ لیکن موجودہ مالی حالات اور اپنی تعلیم کی کمی کے باعث اس سائیڈ بزنس کو کیسے ترک کرسکتی ہوں؟ تاہم مجھے یقین نہیں کہ میری شادی ہوسکے گی مجھے اپنا گھر اور اپنے بچے نصیب ہوں گے۔ یہ خفیہ زندگی آخر آشکار ہوکر رہتی ہے۔ کون ہے جو ایسی باتیں معلوم ہوجانے کے بعد بھی بیوی بنائے رکھے گا؟