ایک ہنستی مسکراتی تحریر
مصنف: شہزادرضا
کیا لڑکیاں مظلوم ہوتی ہیں؟
میں نے لڑکوں پر آرٹیکل کیا لکھا، میری تو شامت آ گئی، الزامات کی ایک بوچھاڑ تھی جو مجھ پر برسنا شروع ہوگئی، ایک صاحب گویا ہوئے: “آپ نے لڑکیوں کی کسی این جی او سے پیسے لئے ہیں”۔ ایک دوسرے صاحب فرمانے لگے: “آپ لڑکیوں کی ہمدردیاں سیٹنا چاہتے ہیں”۔ میرے ایک بھائی دور کی کوڑی لائے، انکا خیال تھا کہ میں دراصل لڑکی ہوں اور مردانہ نام سے “لکھتا ہوں“۔
بس یہ بات مجھے ہضم نہ ہو سکی، یہ میری مردانگی کو کھلا چیلنج تھا، پس میں نے لڑکیوں کی خبرگیری کی ٹھانی، مگر دل میں ڈر بھی تھا کہ لڑکیوں کی بدخوئی کہیں مجھے کسی مصیبت میں نہ ڈال دے۔ سنا ہے کہ مظلوم اور اللہ رب العزت کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا، مظلوم کی آہ پلک جھپکتے میں اللہ باری تعالٰی کے پاس پہنج جاتی ہے۔۔۔۔!!! میں لڑکیوں کے بارے میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ
ان کی پیدائش پر نہ خوشی منائی جاتی ہے۔۔۔۔۔ نہ ان کے مرنے پر غم کیا جاتا ہے۔ لڑکیاں بے چاری ساری زندگی اپنے بھائیوں، شوہر اور بچوں کے ہاتھوں ایکسپلائٹ ہوتی رہتی ہیں۔ بھائی بہنوں سے قرض لے کر بھول جاتے ہیں، میں نے خود اپنی اکلوتی بہن سے تقریبا 64 بار “قرضِ ہسنہ” لیا۔ “ہسنہ” اس لئے کہ جب بھی وہ بیچاری قرض کی واپسی کا تقاضا کرتی میں “ہنس” کے دکھا دیتا۔
لڑکیاں بہت بھولی ہوتی ہیں۔۔۔۔ اسی “بھولپن“ میں کئی بھولے بھالے لڑکوں کی نیندیں حرام کر دیتی ہیں اور بھول جاتی ہیں۔ سچے پیار کی سدا متلاشی ہوتی ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک 40 سالہ لڑکی ہوا کرتی تھی جسے ہم تائی صغراں کہا کرتے تھے۔ تائی صغراں کے 13 بچے تھے، مگر تائی پھر بھی شکائت کرتی رہتی تھی کہ اس کے شوہر کو اس سے “محبت” نہیں ہے!!!
لڑکے کھل کر محبت کرتے ہیں۔۔۔۔ جبکہ لڑکیاں محبت کے بعد کھلتی ہیں، لڑکا محبت کرے تو پورے خاندان کو پتا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ لڑکی کو محبت ہو جائے تو اسے خود بھی معلوم نہیں ہوتا۔۔۔!!!
ہماری ایک کلاس فیلو “شبانہ” ہوا کرتی تھی۔ لڑکوں کی بہت نمائندہ قسم کی خاتون!!! ہر وقت مرد اور عورت کی برابری کی بحث میں مشغول رہتی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جب لڑکیاں ہر کام کر سکتی ہیں تو انہیں “صنفِ نازک” کیوں کہا جاتا ہے۔ میری شبانہ سے خاصی لگتی چُبھتی تھی۔ “
ایک دن جب مس شبانہ حسبِ معمول کلاس ڈسکشن کے دوران لڑکوں لڑکیوں کی “برابری” پر لیکچر دے رہی تھیں تو مجھ سے نہ رہا گیا میں نے سوال داغا:
مس شبانہ ! کیا آپ کو “گولی پِل” کھیلنا آتا ہے؟
شبانہ ششدر رہ گئی!
کیا آپ گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے زور سے “ٹُل” لگا سکتی ہیں؟ میں نے دوسرا میزائل چھوڑا۔
پھر کلاس میں صرف تالیاں گونج رہی تھیں اور مس شبانہ کی پھنکاریں۔۔۔!!!
دوسرے ہفتے ہی معلوم ہوا کہ مس شبانہ نے باقاعدگی سے اسلامی درس میں شرکت کرنا شروع کر دیا ہے۔
قارئین! اگر دنیا میں صرف لڑکیاں ہی ہوتیں۔۔۔۔ تو یقین جانئے نہ ایٹم بم ایجاد ہوتا۔۔۔۔ نہ ہی کسی طرح کے دوسرے ویپن آف مَیس ڈسٹرکشن ۔۔۔ بلکہ ان کی جگہ “ٹِڈابم”، “چھپکلی میزائل” اور “لیزر گائیڈڈ کاکروچ میزائل” ہوتے۔۔۔۔!!!
امن ہی امن ہوتا، نہ ماحول کو خطرہ، نہ دنیا کے بھسم ہونے کا ڈر۔۔!
ایک دفعہ مجھے لڑکیوں کی لڑائی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔۔۔ دو لڑکیاں صرف ایک دوسرے کے بال کھینچ رہی تھیں۔ لڑائی کے اختتام پر فاتح اور مفتوح دونوں لڑکیاں باقاعدہ ہچکیاں لے کے زاروقطار رو رہی تھیں۔
لڑکیاں گاڑی چلانے میں بہت محتاط ہوتی ہیں۔ ان کے گاڑی سڑک پر لاتے ہی دوسرے گاڑیوں والے فوراً محتاط ہو جاتے ہیں۔انہیں صرف گاڑی چلانا آتی ہے۔گاڑی کیسے چلتی ہے؟ ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں۔ اگر کبھی کوئی لڑکی غلطی سے انجن کا ہُڈ کھول کر اندر جھانک لے تو فوراً غش کھا کر گر پڑے۔ان کے نزدیک کاربوریڑ اور ریڈی ایٹر میں صرف سپیلنگ کا فرق ہوتا ہے۔ قارئین ! کیا آپ نے اپنی زندگی میں کسی لڑکی کو گاڑی کا ٹائر تبدیل کرتے دیکھا ہے۔۔۔۔؟ کبھی نہیں!!! کبھی دیکھیں گے بھی نہیں!!!
ان میں حسِ مزاح کا خاصا فقدان ہوتا ہے۔ لڑکوں کے ننانویں فیصد لطیفے ان کے جُوڑے کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک مزاح ہوتا ہے۔ کچھ ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ ! اللہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ !!! میں تایا جان کے گھر گئی (اب پتہ نہیں یہ ثمینہ سے مخاطب ہیں یا اللہ سے) جونہی اندر داخل ہوئی، ایک اتنا بڑا کتا آگے کھڑا تھا، میری تو جان ہی نکل گئی۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔!!!
قارئین! اللہ کو حاضر ناظر جان کر بتائیں کہ اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟
لڑکیوں کا محبوب مشغلہ اپنے بھائی کے لئے دلہن ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ محض “لڑکے کی بہن ہیں” سننے کے لئے تیس چالیس گھر یونہی پھر پھرا لیتی ہیں۔ رشتے والے گھر میں ان کی “ٹور” دیکھنے والی ہوتی ہے۔ مگر جب کوئی اور لڑکی ان کا اپنا رشتہ دیکھنے کے لئے ان کے گھر آ جائے تو ان کو چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملتی۔۔۔۔!
لڑکیوں کے بارے میں ایک غلط پروپیگنڈا یہ بھی ہے کہ یہ بولتی بہت ہیں! میں اس سے متفق نہیں ہوں۔
ایک لڑکی تو محض دوسری کو چپ کروانے کے لئے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بول لیتی ہے۔۔۔ اور دوسری پہلی کو چُپ کروانے کے واسطے مزید گھنٹہ دو گھنٹے بول لے تو آخر اس میں کیا بُرائی ہے، بھلا بتائیں؟
دوسرے ان کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اگر یہ چپ ہو گئیں تو دوسروں کو سوال کرنے کا موقع مِل جائے گا۔۔۔۔ اور ظاہر ہے کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لئے عقل درکار ہوتی ہے۔۔۔!!!
لڑکیاں بہت جلد رو دیتی ہیں۔ یہ رونا ان کے دُکھی ہونے کی علامت نہیں، دراصل یہ ایک ایکسرسائز ہے۔ سارے دکھ آنسوؤں کے راستے فوراً نکال باہر کرتی ہیں۔۔۔۔ پلک جھپکتے میں دِل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور یہ بھلی چنگی۔۔۔!!! جیسے کُچھ ہُوا ہی نہیں۔۔۔ جبکہ لڑکے بیچارے غم سینے سے لگائے برسوں سلگتے رہتے ہیں۔
خیر قارئین! لڑکیاں جیسی بھی ہیں، ہماری زندگی کے کینوس کے رنگ انہی کے دم قدم سے کِھلتے ہیں۔۔۔ ماں، بہن، بیٹی یا بیوی ہر صورت میں ہم ان کی محبتوں کے محتاج ہوتے ہیں۔
میں جب سے گوروں کے دیس میں آن بسا ہوں۔۔۔ اپنی مشرقی لڑکیوں کی عِزت و حُرمت سو گُنا زیادہ ہو کر میرے دل میں گھر کر چُکی ہے۔
یہ عزت اور احترام لڑکیوں کو ہمارے معاشرے کے علاوہ دنیا کے کسی حصے خصوصاً مغربی ممالک میں نہیں ملے گا۔۔۔۔!!!
یہاں عورتوں کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ حیران مت ہوئیے، یہ حقیقت ہے۔ مغرب میں لڑکی کی نہ کوئی عزت ہے ۔۔۔ نہ گھر ۔۔۔ نہ آبرو۔۔۔ نہ حِفاظت!!!
یونائیٹڈ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس نے 1995ء میں امریکہ میں نیشنل کرائم وِکٹِمائزیشن کے نام سے سروے کیا۔ اس سروے رپورٹ کا نمبر این سی جے154348 ہے۔ آپ دل دماغ کی تسلی کے لئے “بیورو آف جسٹس سٹیٹِسٹِکس کو فون نمبر 1-800-732-3277 پر کال کر کے اس کی کاپی منگوا سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ مغربی نام نہاد مہذب معاشرے اور آزادیء نسواں کے رخسار پر ایک غلیظ طمانچہ ہے۔ پڑھئیے اور سر دُھنیئے۔۔۔۔!!!
امریکہ میں 1993-1992ء میں تشدد کا شکار ہونے والی لڑکیوں کی تعداد 5 ملین ہے۔ ان میں 12 سال تک کی بچیاں بھی شامل ہیں۔
ہر سال صرف امریکہ میں عصمت دری کا شکار بننے والی عورتوں کی تعداد 5 لاکھ ہے۔
مالی طور پر لُٹنے والی عورتوں کی تعداد 3۔8 ملین ہے۔
عزت کے نام پر قتل۔۔۔!!!
جی ہاں۔۔۔!!! اگر پاکستان کے کسی پسماندہ علاقے میں کوئی خاوند اپنی بیوی کو بدچلنی کے الزام میں قتل کر دے (جو بالکل سراسر ظلم ہے) تو مغربی میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے، یہاں بھی یہ قتل ہوتے ہیں۔
1990ء میں ایف بی آئی کے ریکارڈ کے مطابق 5328 قتل ہوئے۔ یہ قتل خاوند یا بوائے فرینڈ کے ہا تھوں “ہونر کِلنگ” یعنی مقدس قتل کے نام پر ہوئے۔
16 فیصد امریکی جوڑے آپس میں ایک دوسرے کو مارتے پیٹتے اور گالی گلوچ کرتے ہیں، زیادہ نقصان عورت ہی اُٹھاتی ہے۔
1993ء میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق 34 فیصد عوام نے اپنی آنکھوں سے عورتوں پر ظلم ہوتے دیکھا۔۔۔ 14 فیصد عورتوں نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔
امریکی ہسپتالوں کے ریکارڈز کے مطابق 20 سے 30 فیصد تک ایمرجنسی میں لائی جانے والی عورتوں کوٹارچ کیا گیا تھا۔۔۔ ان میں سے 10 فیصد عورتیں تشدد کے وقت ماں بننے والی تھیں ۔۔۔ !!!
اس طرح کے ہزاروں ایسے واقعات ہیں جن میں عورتیں اپنی زبان نہیں کھولتیں۔
ایک ہم ہیں کہ مغربی آزادی کے نام پر اپنی لڑکیوں کے پردے کے درپے ہیں۔ ہم تو اسلام کے پیروکار ہیں۔۔۔ ایک ایسا مذہب، ایسا کامل دین، جس نے لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا۔۔۔ عورت کو پردے کی شکل میں ایک “سینس آف سیکیورٹی” دی۔ ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی۔۔۔ بیٹی کو رحمت کا سدا بہار اور مُستقِل “ٹائٹل” دیا۔ بیوی سے حُسنِ سلوک کا سختی سے حُکم دیا۔۔۔!!!
آج ہم اسی اسلام سے آزادی حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔
اس کائنات کے سب سے بڑے انسان، ربِ کریم کے بعد سب سے قابلِ احترام ہستی، صحابہ (رض) کے کمانڈر انچیف حضرتِ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیٹی اور دودھ شریک بہن کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ اپنی وہ چادر مبارک جس کے آگے قیصر و کسریٰ کے تمام خزانے ہیچ تھے۔۔۔ ان کے نیچے بِچھا دیتے۔۔۔ اس سے بڑھ کر لڑکیوں کا احترام کیا ہو سکتا ہے؟
اللہ نے اپنے آخری نبی (ص) سے بیٹا بھی واپس لے لیا۔ صرف بیٹیوں کا باپ رہنے دیا۔۔۔ صرف بیٹیوں کا۔۔۔!!!
قارئین! کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جس بیٹی یا بہن کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اتنا پروٹوکول دیا۔۔۔ اسی بیٹی یا بہن کو دینے کے لئے ہمارے پاس کیا ہے؟
کیا ہم کبھی اپنی بیٹی یا بہن۔۔۔ یا کِسی دوسرے کی بیٹی یا بہن کے لئے احتراماً کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔
ذرا۔۔۔ ایک بار کھڑے ہو کر دیکھئے۔۔