غیرت مند تلوار ساز
کوجہ علی قفس میں بند ایک تربیت یافتہ شیر کی طرح اپنی دکان میں تن تنہا رات دن ہتھوڑا چلاتا اور چنگاریاں اُڑاتا رہتا۔ اس کی دکان میں دروازے کے سوا کہیں سے روشنی نہیں آ سکتی تھی۔ جسمی طور پر وہ ایک طویل قامت، چوڑے چکلے پہلوان کی طرح تھا۔ پنجے بھاری اور بازو قوی تھے۔ وہ اس تاریک کمرے میں 10 سال سے کچا لوہا پیٹ پیٹ کر جو تلواریں بنا رہا تھا، اُن کی وجہ سے اس کا نام نہ صرف اناطولیہ کے طول و عرض میں بلکہ ساری رومیلی اور سلطنتِ عثمانیہ کے تمام سرحدی علاقوں میں مشہور ہوچکا تھا حتیٰ کہ استنبول میں بھی (ترکی کا ایشیائی علاقہ اناطولیہ کہلاتا تھا اور یورپ میں ترکی کے مقبوضات رومیلی کہلاتے تھے۔ینی چری سپاہی وہ خنجر، تلوار اور نیزے خریدتے تھے جن پر ’’عمل استاد علی‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ (عثمانی سلطنت کی پیدل فوج کو ینی چری یعنی نئی فوج کہتے تھے۔ یہ دنیا کی پہلی باضابطہ فوج سمجھی جاتی تھی۔ اس کی تشکیل چودھویں صدی کے آغاز میں ہوئی تھی) استاد علی تلوار کو آب دینے اور دھار لگانے کے فن میں ماہر تھا۔ اُس کی تلواروں میں اتنی لچک ہوتی تھی کہ وہ دُہری ہو جاتی تھیں لیکن ٹوٹتی نہیں تھیں۔ یہی خوبی اس کے بنائے ہوئے خنجروں اور چاقوئوں میں تھی۔ ایسی تلواریں اور خنجر کوئی دوسرا شخص نہیں بنا سکتا تھا۔ یہ اس کا مخصوص راز تھا جس سے کوئی دوسرا واقف نہیں تھا۔ اس کام میں اس کا کوئی مددگار اور ساتھی بھی نہیں تھا۔کوجہ علی کم گو شخص تھا۔ زیادہ باتیں کرنے کا عادی نہیں تھا۔ تلوار، لوہے اور آگ کے سوا اس کی گفتگو کا کوئی موضوع نہیں ہوتا تھا۔ فروخت کے موقع پر وہ کوئی سودے بازی بھی نہیں کرتا تھا۔ خریدار جو قیمت دیتا، وہی لے لیتا۔ وہ اپنی دکان سے باہر بہت کم جاتا۔ اُس کی بھٹی صرف جنگ کے زمانے میں بُجھتی تھی۔ اس موقع پر وہ دروازہ بند کرکے تالا لگا دیتا اور غائب ہوجاتا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ پھر واپس آجاتا اور اپنے کام میں پہلے کی طرح مصروف ہوجاتا۔شہر میں اس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں۔ کوئی کہتا کہ وہ جلاد کے ہاتھ سے بھاگا ہوا ایک شریف انسان ہے۔ کوئی کہتا کہ وہ ایک غریب کسان تھا اور اس کا کوئی پیارا مر گیا تھا جس کے غم میں وہ ترکِ دنیا پر مجبور ہوگیا۔ لیکن کوجہ علی جس پُروقار انداز، جس سکون و اطمینان سے متوازن اور معقول گفتگو کرتا، وہ اس قسم کی باتوں کی تردید کرتی تھی۔ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے اور کہاں سے یہاں آیا ہے۔ لوگ صرف یہ جانتے تھے کہ وہ موٹے سے موٹا اور سخت سے سخت لوہا ہتھوڑے سے پیٹ پیٹ کر مکی کے پتے کی طرح باریک بنا دیتا ہے اور اپنے فن میں ماہر ہے۔ لوگ یہ بھی کہتے سُنے گئے تھے کہ اسے ذوالفقار کا راز معلوم ہے۔ بہرحال کوجہ علی کی ذات ہر شخص کے لیے باعثِ افتخار تھی اور ہر شخص اپنے انداز میں اس کی تعریف کرتا تھا۔ کوجہ علی نے یہ فن کسی دوسرے سے نہیں سیکھا تھا۔ وہ خود اس کا موجد تھا۔جو لوگ اس سے زیادہ واقف تھے ان کا کہنا تھا کہ کوجہ علی ابھی بارہ سال کی عمر کا تھا کہ کسی نے اس کے باپ کو قتل کر دیا تھا۔ اس کا باپ ایک سخت مزاج ٹیلربے یعنی صوبے دار تھا۔ اس کا چچاوزیر تھا اور بہت دولت مند۔ اس نے کوجہ علی کو اپنے پاس رکھ کر اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا تاکہ وہ کسی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہوسکے لیکن کوجہ علی کسی کا احسان نہیں لینا چاہتا تھا۔ چنانچہ اپنے چچا کے گھر سے فرار ہوگیا اور ایک آوارہ انسان کی طرح پہاڑ، جنگل اور دریا ناپتا ہوا مختلف ملکوں اور شہروں کے چکر لگاتا رہا۔ آخر میں مشرقی ترکی کے شہر ارضِ روم میں وہ ایک بوڑھے لوہار کے پاس ملازم ہوگیا۔ تیس سال کی عمر تک اناطولیہ میں کوئی ایسا شہر نہیں تھا جہاں اُس نے کچھ دن نہ گزارے ہوں۔ لیکن اُس نے کسی کے آگے سر نہیں جُھکایا، کسی کا احسان نہیں لیا۔ وہ محنت سے جی نہیں چراتا تھا اور اپنی روزی خون پسینہ ایک کرکے کماتا تھا۔ دولت کی اس نے کبھی ہوس نہیں کی۔ جتنا کماتا، اسی پر قناعت کرتا اور مگن رہتا۔ ایک تخلیقی کام کرنے والے انسان کی طرح اس نے اپنا فن دولت کے لیے استعمال نہیں کیا۔ بلکہ فن کو ترقی دے کر اپنے ذوق کی تسکین کی۔ تلوار کی دھار پر آب چڑھانا اس کا دل پسند مشغلہ تھا۔کوجہ علی جنگوں میں رضاکار کی حیثیت سے شرکت کرتا تھا اور جب اس موقع پر ینی چری سپاہیوں اور سگ بانوں سے اپنی بنائی ہوئی تلواروں کی تعریف سُنتا تو خوشی سے پھولا نہ سماتا۔ (سلطان کے کتوں کے رکھوالے سگ بان کہلاتے تھے اور ینی چری فوج کا ایک حصہ تھے)۔ اگر کوجہ علی زندگی بھر اسی طرح کام کرتا رہتا، تو نہ معلوم کتنے ہزار غازیوں کو نہ ٹُوٹنے والی تلواریں، ڈھالیں، ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والی نیزے اور زرہ کاٹنے والے خنجر بنا کر دیتا۔ وہ جب کام کے وقت اپنی اس خدمت پر غور کرتا تو دل ہی دل میں خوش ہوتا۔ چہرے پر مُسکراہٹ آ جاتی۔ سندان پر ہتھوڑے کی رفتار تیز ہوجاتی اور ہر طرف چنگاریاں اُڑنے لگتیں۔ (سندان لوہے کا وہ ٹکڑا جس پر ہتھوڑے سے لوہا کوٹا جاتا ہے۔ اسے نہائی بھی کہتے ہیں۔صبح کی نماز کے بعد سے کوجہ علی دس گھنٹے تک برابر کام میں لگا رہتا۔ وہ کبھی ہتھوڑا چلاتا، کبھی لوہا بھٹی میں ڈالتا اور کبھی اُسے ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی میں ڈالتا۔ آگ کے شعلے بجھنا شروع ہوتے تو اُنہیں بھڑکاتا۔ اذان کی آواز کان میں آتی تو کام بند کردیتا۔ ہتھوڑا رکھ کر پسینہ پونچھتا، دروازے پر آتا اور ایک چادر کندھوں پر ڈال کر باہر نکل جاتا۔ دکان کے دروازے پر تالا ڈالنے کی ضرورت اُس نے کبھی محسوس نہیں کی۔ بس دروازہ اچھی طرح بند کردیتا اور میدان میں واقع مسجد کی طرف روانہ ہوجاتا۔ اس نے اکثر عصر کے وضو سے مغرب کی نماز پڑھی۔ ایسے میں وہ صرف ہاتھ دھونے پر ہی اکتفا کرتا۔ مسجد شہر کے ایک کنارے پر واقع تھی۔ اس سادہ سی مسجد میں صرف غریب طبقے کے لوگ ہی آتے۔ منار میں سڑک کی طرف ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی، مؤذن اسی سے سر باہر نکال کر اذان دیتا تھا۔ایک دن کوجہ علی مغرب کے وقت مسجد میں گیا تو اس نے وہاں معمول سے بہت زیادہ لوگ بیٹھے دیکھے۔ روزانہ مسجد میں صرف تین مشعلیں جلتی تھیں لیکن آج رمضان کے مہینے کی طرح ہر طرف مشعلیں روشن تھیں اور لوگ دروازے تک بیٹھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ قونیہ سے دو درویش آئے ہیں، وہ عشاء کی نماز تک مثنوی پڑھیںگے۔ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد کوجہ علی گھر نہیں آیا۔ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مسجد ہی میں بیٹھا رہا۔ اس کے سر میں درد ہورہا تھا۔ اس نے سوچا مثنوی سننے سے ذرا طبیعت بہلے گی۔ چنانچہ وہ درویشوں کے روح پرور نغمے خشوع و خضوع سے سنتا رہا۔ مثنوی کے اشعار پر وہ ایک صاحبِ دل کی طرح بار بار وجد میں آجاتا۔ وہ شعروں کا مطلب نہیں سمجھتا تھا کیونکہ مولانا روم کی مثنوی فارسی زبان میں تھی اور اس کی زبان ترکی تھی۔ لیکن زبان کا آہنگ اور درویشوں کا ترنم کوجہ علی کو مست کردینے کے لیے کافی تھا۔ اُس کے خون میں گرمی پیدا ہوئی اور سارے جسم پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی۔قریب تھا کہ اس کی زبان سے اللہ ہُو کا نعرہ بلند ہو لیکن جذبات کی شدت میں گلے سے آواز نہیں نکلی۔ اسی حالت میں اُس نے عشاء کی نماز پڑھی۔ پھر مسجد سے نکلا لیکن دکان کی طرف نہیں گیا حالانکہ دکان اس کا گھر بھی تھی۔ نیند غائب ہو چکی تھی۔ گرمیوں کی رات تھی، تارے چمک رہے تھے، سنہرے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اِدھر اُدھر تیر رہے تھے۔ وہ اس راستے پر چلتا رہا جو بستی سے مویشیوں کی منڈی تک جاتاتھا۔ یہاں تک کہ ایک پُل آگیا۔ پُل کے نیچے ایک چشمہ بہہ رہا تھا۔ وہ پُل کے کنارے بنی ہوئی دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ چشمے کے پانی میں تاروں کا عکس پڑنے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے پانی کے اندر کے پتھر جگ مگ جگ مگ کر رہے ہوں۔ کوجہ علی دیر تک مست و بے خود کھڑا رہا۔ وہ اپنے آپ میں کھو چکا تھا۔ مثنوی نے اس کے دل کے تار ہلا دیے تھے۔ کافی دیر تک مست و بے خود کھڑا رہا۔ کافی دیر تک وہ اسی حالت میں کھڑا رہا۔ ابھی اسی حالت میں تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک گرجتی ہوئی آواز آئی ’’کون ہو تم؟‘‘آواز کے ساتھ ہی کوجہ علی خواب کے عالم سے بیدار ہوگیا۔ اُس نے پُل کے دوسرے کنارے پر نظر ڈالی تو اسے دو تین سائے اپنی طرف بڑھتے نظر آئے۔ اُس نے بے اختیاری میں جواب دیا ’’میں اجنبی نہیں ہوں۔‘‘
آخر ہو کون؟
علی ۔
کون علی؟‘‘ سائے قریب آچکے تھے۔ وہ کوجہ علی سے دو تین قدم دور رہ گئے کہ اُنہوں نے اُسے پہچان لیا۔ ’’کوجہ علی، کوجہ علی۔…
ارے تم ہو استاد علی؟ ایک نے کہا۔
ہاں میں ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
تم اس وقت یہاں کیا تلاش کر رہے ہو؟
کچھ نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ شاید تمہارا ہتھوڑا پانی میں گِر گیا ہے؟‘‘ کوجہ علی نے کوئی جواب نہیں دیا۔یہ لوگ شہر کے صوباشی یعنی پولیس سپرنٹنڈنٹ کے آدمی تھے اور بستی کا گشت کر رہے تھے۔ کوجہ علی نے کوئی جواب نہیں دیا تو اُنہیں حیرت ہوئی۔ راتوں کو آوارہ پِھرنے والے لوگ اُن کی نظر میں چوروں سے زیادہ خطرناک ہوتے تھے۔ اگر کوجہ علی کے سوا کوئی اور شخص اس طرح پکڑا جاتا تو یہ سپاہی اس کی ڈنڈوں سے مرمت کرتے لیکن وہ استاد علی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس سے کوئی بدسلوکی نہیں کی۔ ’’استاد! کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟‘‘ افسر نے سوال کیا۔
نہیں۔ تو پھر آدھی رات کو یہاں کیا کر رہے ہو۔؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عشاء کے بعد اِدھر اُدھر پھرنا ہمارے آقا کو پسند نہیں۔
معلوم ہے۔تو پھر تم یہاں کس کی تلاش میں ہو؟
’’کسی کی تلاش میں نہیں۔‘‘ علی نے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ وہ زیادہ بات کرنے کا عادی بھی نہیں تھا لیکن افسر شریف تھا اور جانتا تھا کہ علی ایک باعزت اور نیک آدمی ہے۔ اس لیے اُس نے صرف یہ کہا: ’’اچھا اب اپنے گھر جائو، اِدھراُدھر نہ پھرو۔‘‘
کوجہ علی واپس آگیا۔ اُس کے قدم گھر کی طرف تیزی سے اُٹھ رہے تھے لیکن دل و دماغ میں مثنوی کے اشعار گونج رہے تھے۔ دور مویشیوں کے باڑے سے کتے بھونکنے کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔ وہ دکان کے سامنے پہنچا تو دروازہ کسی قدر کھلا نظر آیا۔ کچھ دیر وہ خیالات میں گُم کھڑا رہا اور سوچنے لگا کہ دروازہ تو اس نے سختی سے بند کردیا تھا پھر یہ کیسے کُھل گیا؟ شاید ہوا سے کُھل گیاہو۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ دکان میں سندان اور ہتھوڑے کے سوا کون سی قیمتی چیز تھی جسے کوئی چُراتا۔یہ دونوں چیزیں ایسی تھیں جو کسی کے کام کی نہیں تھیں۔ چور اُنہیں اُٹھانے کی زحمت کیوں مول لیتا؟ کوجہ علی اندر چلا گیا لیکن اندر سے اُس نے کواڑ میں چٹخنی لگالی۔ پولیس کی مداخلت کے باعث وہ ذہنی کوفت میں مبتلا تھا۔ اُس نے سوچاکہ اس طرح شہر میں رہنا اور قید کی زندگی گزارنا برابر ہے لیکن کیا کیا جائے، دیہات میں روزگار نہیں۔ وہ اسی حالت میں تھا کہ نیند کا غلبہ ہوا۔ اُس نے ایک کونے سے ریچھ کی کھال نکالی اور اسے بچھا کر لیٹ گیا۔کوجہ علی گہری نیند سو رہا تھا کہ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز کانوں میں آئی۔ وہ چونک کر اُٹھ بیٹھا۔ ’’کون ہے؟‘‘ اُس نے نیم غنودگی کی حالت میں پوچھا۔
صبح ہوچکی تھی اور کواڑ کی جھڑیوں سے دن کی روشنی اندر داخل ہو رہی تھی۔ کوجہ علی اس طرح گہری نیند کبھی نہیں سویا تھا۔ وہ ہمیشہ سورج نکلنے سے پہلے اُٹھ جاتا۔ وہ جلدی سے اُٹھا اور جُوتے پہنے بغیر اُس نے دروازے پر جا کے چٹخنی کھول دی۔ سامنے بڑی بڑی مونچھوں اور اُونچی ٹوپی والا پولیس افسر کھڑا تھا۔ اُس کے پیچھے نمدے کی ٹوپی پہنے دو آدمی اور کھڑے تھے۔ کوجہ علی نے حیرت سے اُن پر نظر ڈالی اور دل میں سوچا کہ کیا معاملہ ہے؟
’’علی استاد! تمہاری دکان کی تلاشی لیں گے۔‘‘ پولیس افسر نے کہا۔’’کس لیے؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’آج رات بوداک بے کے مویشیوں کے باڑے میں چوری ہوگئی ہے۔‘‘
’’تومیں کیا کروں؟‘‘ علی نے جواب دیا۔
’’ہم اس سلسلے میں تمہاری دکان کی تلاشی لینے آئے ہیں۔ جن لوگوں نے بھیڑ چرائی ہے اُنہوں نے اُسے پُل کے نیچے ذبح کیا تھا اور جو رقم چُرا کر لے گئے ہیں، اس میں سے کچھ تھیلی میں وہیں چھوڑ گئے تھے۔‘‘ افسر نے وضاحت کی۔
’’ارئے بھائی اس سارے واقعہ سے میرا کیا تعلق؟‘‘’’تھیلی کے سکوں میں سے ایک سکہ آج صبح تمہاری دکان کے سامنے سے ملا ہے۔ ذرا اپنی دہلیز پر نظر ڈالو، یہاں خون کے دھبے بھی موجود ہیں۔‘‘ علی نے اپنے دروازے کی صاف ستھری دہلیز پر نظر ڈالی تو واقعی خون کے دھبے موجود تھے۔ افسر نے دریافت کیا۔
’’میں نے پچھلی رات تمہیں پُل کے اوپر کھڑے دیکھا تھا، تم وہاں کیا کر رہے تھے ؟‘‘
علی نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور پولیس افسر سے کہا ’’آئیے تلاشی لے لیجیے۔‘‘ افسر اپنے سپاہیوں کے ساتھ دکان میں داخل ہوا۔ وہ بھٹی کے پاس پہنچا تو چیخ پڑا۔
’’یہ ہے، یہ ہے۔‘‘ علی نے بے اختیار اُس طرف دیکھا۔ زمین پر ایک کھال پڑی تھی جو تازہ تازہ اُدھیڑی گئی تھی۔ علی حیران رہ گیا کہ یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ سپاہی نے فوراً کھال اُٹھا لی۔ وہ ابھی تک گرم تھی۔ سپاہی اور ساتھ آنے والے دوسرے لوگ کبھی پولیس افسر کو دیکھتے کبھی استاد علی پر نظر ڈالتے۔
’’بتائو! چُرائی ہوئی رقم تم نے کہاں چُھپائی ہے؟‘‘ افسر نے غضبناک انداز میں علی سے پوچھا۔’’میں نے کوئی رقم چوری نہیں کی۔‘‘
’’انکار مت کرو۔ بھیڑ کی کھال تمہاری دکان سے برآمد ہوئی ہے۔‘‘
یہ کھال میں نے یہاں نہیں رکھی۔‘‘
’’تم نے نہیں رکھی تو کس نے رکھی؟‘‘’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ رات کو جب پولیس افسر نے کوجہ علی سے پوچھا تھا کہ وہ پُل پر کیا کر رہا ہے تو اُس نے اپنی کم گوئی کے باعث کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس کا یہ طرزِعمل اب اس کے خلاف جا رہا تھا۔ علاوہ ازیں بوداک بے نے 500 بھیڑیں فروخت کرکے جو رقم حاصل کی تھی، وہ بھی باڑے سے چوری ہوگئی تھی اور چوروں نے باڑے کے چوکیدار کو رسیوں سے باندھ دیا تھا۔ دوسرے دن چوکیدار نے حاکمِ شہر کے سامنے بیان دیتے ہوئے ایک چور کو علی کی شکل و صورت جیسا بتایا۔ رات کو دیر تک گھر سے باہر رہنا، بھیڑ کی کھال اُس کے گھر سے ملنا اور چوری کی رقم میں سے ایک سِکہ علی کے دروازے کے پاس دیکھا جانا ایسی شہادتیں تھیں کہ اب علی کا جُرم سے انکار کرنا بے معنی تھا۔ قاضیٔ عدالت نے چوری کے الزام میں اس کا بایاں ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ کوجہ علی کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ فیصلہ سُن کر اس کا چہرہ زرد پڑگیا اور وہ غصے سے ہونٹ کاٹنے لگا۔ لیکن اب تقدیر کے آگے سر جُھکانے کے سِوا کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے کھڑا ہوا اور بلند آواز میں اس نے قاضی سے درخواست کی۔جناب عالی! میرا ہاتھ نہ کاٹا جائے بلکہ سرقلم کرنے کا حکم دیا جائے۔‘‘ اُ س نے ساری عمر میں پہلی مرتبہ کوئی درخواست کی تھی۔
لیکن قاضی ایک منصف حاکم تھا۔ اُس نے انکار کرتے ہوئے کہا ’’نہیں میرے فرزند! تم نے کسی انسان کو قتل نہیں کیا۔ اگر تم چوکیدار کو قتل کر دیتے تو تمہارا سر قلم کیا جاتا۔ سزا جُرم کے مطابق دی جاتی ہے تم نے صرف چوری کی ہے اس لیے صرف ہاتھ کاٹا جائے گا۔ حق یہی ہے اور شریعت بھی یہی کہتی ہے۔‘‘کوجہ علی کو سزا کی تکمیل ہونے تک ایک کمرے میں قید کردیا گیا۔ علی کے لیے اس کے ہاتھ سر سے زیادہ قیمتی تھے۔ لچک دار تلوار بنانا اور اُسے آب دینا ہاتھوں ہی کا کام تھا۔ وہ غازیوں کے لیے یہ کام دولت کمانے کی خاطر نہیں کرتا تھا بلکہ اپنا فرض سمجھ کر کرتا تھا۔ اُسے اپنے کام سے غیرمعمولی عشق تھا۔ لیکن اب وہ ایک کمرے میں قید قصاص کے دن کا انتظار کر رہا تھا۔ اپنے پسندیدہ کام سے محروم ہوجانے اور لُولا ہو کر زندگی گزارنے کا خیال اُس کے لیے سوہانِ روح ثابت ہورہا تھا۔ چونکہ اس نے دولت کمانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی اس لیے بازو کی دیت ادا کرنے کے لیے اس کے پاس رقم بھی نہیں تھی۔شہر کے تمام لوگ کوجہ علی جیسے ماہرِفن کا ہاتھ کٹنے کے اندیشے سے رنجیدہ تھے۔ ہر شخص اُسے پسند کرتا تھا۔ وہ ایک خُوبرو، جواں مرد اور محنتی انسان تھا۔ ایسے شخص کا ساری عمر ایک لُولے آدمی کی طرح زندگی گزارنا سب کے لیے تکلیف دہ تھا۔ چنانچہ فوج کے جن سپاہیوں کے لیے وہ دستی تلواریں تیار کرتا تھا، اُنہوں نے آپس میں مشورہ کرکے اُسے بچانے کی تدابیر پر غور کیا۔ وہ بستی کے سب سے دولت مند حاجی محمد کے پاس گئے۔ یہ شخص ایک قصاب تھا اور قارون کی طرح دولت کا مالک تھا لیکن انتہائی کنجوس تھا۔ اس نے فوجیوں کی اس تجویز پر دیر تک غور کیا کہ وہ کوجہ علی کے ہاتھ کی دیت ادا کردے۔ پہلے تو اس نے طرح طرح کے نخرے کیے، منہ بنایا، انکار میں سرہلایا لیکن آخر میں سوچا کہ فوج والوں کو خوش رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے بولا ’’چونکہ آپ لوگ اصرار کر رہے ہیں، اس لیے میں علی کے ہاتھ کی دیت ادا کرنے کو تیار ہوں لیکن ایک شرط ہے۔‘‘’’وہ کیا؟‘‘ سپاہیوں نے پوچھا۔
’’اُسے زندگی بھر کسی معاوضے کے بغیر میری خدمت کرنی ہوگی۔ اگر اُسے یہ شرط منظور ہے تو میں اُس کے ہاتھ کی دیت ادا کردوں گا۔‘‘ ٹھیک بالکل ٹھیک۔‘‘ سپاہیوںنے کہا۔ سپاہی پولیس چوکی پہنچے اور حاجی قصاب کی شرط کوجہ علی کو بتائی۔ اُس نے پہلے تو یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ قصاب کا کام نہیں کرسکتا۔ لوگوں نے اُسے سمجھایا کہ قصاب کا کام کرنا تمہارے لیے کیا مشکل ہے۔ تم نے اس قدر جنگوں میں حصہ لیا ہے اور تلوار چلائی ہے۔ پھر تمہارے لیے ایک بندھی ہوئی بھیڑ زمین پر گِرا کر ذبح کرنا کون سا مُشکل کام ہے؟ لیکن کوجہ علی کے لیے کسی شخص کا احسان لینا اور زندگی بھر کسی کی غلامی کرنا، ایک بدترین عذاب تھا۔اُس نے نوجوانی میں اپنے چچا کا احسان مند ہونا گوارا نہیں کیا تھا اور عیش و آرام کی زندگی کو لات مار کر غربت کی زندگی گزارنا پسند کیا تھا لیکن اب قسمت کی ستم ظریفی سے اُسے ایک کنجوس قصاب کی غلامی کرنی پڑ رہی تھی۔ سپاہیوں کا اِصرار جاری تھا۔ اُنہوں نے علی کو سمجھایا کہ حاجی قصاب کی عمر ۷۰؍سال سے زیادہ ہو گئی ہے، اب وہ اور کتنا جیے گا۔ اس کے مرنے کے بعد تم آزاد ہوجائو گے۔ آزاد ہو کے اپنا کام پھر سے شروع کردینا اور ہمارے لیے تلواریں اور نیزے بنانا۔ اس لیے اب زیادہ مت سوچو اور حاجی قصاب کی شرط تسلیم کرلو۔سپاہیوں کے مسلسل اصرار پر آخر کار کوجہ علی راضی ہوگیا۔ حاجی قصاب نے اُس کے ہاتھ کی دیت ادا کردی اور اُس کا ہاتھ کٹنے سے بچ گیا۔
حاجی قصاب نے جس دن کوجہ علی کے ہاتھ کی دیت ادا کی تھی، اسی دن اُسے کام پر لگا دیا گیا۔ حاجی قصاب بڑا بدمزاج اور چڑچڑا انسان تھا۔ وہ ہر وقت بڑبڑاتا رہتا۔ کنجوسی کی وجہ سے اُس نے کبھی کوئی نوکر نہیں رکھا۔ کوجہ علی کے آنے کے بعد اُس نے ساری ذمے داریاں اُسی کے سپرد کردیں اور خود کام کرنا بالکل چھوڑ دیا۔ دکان کے ایک کونے میں اُس نے چبوترا بنا کے چٹائی ڈال لی۔ وہ اُسی پر بیٹھا دن بھر حکم صادر کرتا رہتا۔کوجہ علی صبح کی نماز سے کئی گھنٹے پہلے اُٹھتا اور بکرامنڈی جاتا۔ منڈی بستی سے دو گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ وہاں سے وہ جانور خرید کر لاتا۔ اُنہیں ذبح کرتا، کھال اُتارتا، پھر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گوشت لٹکاتا اور سارا دن گوشت فروخت بھی کرتا۔ مغرب کی نماز تک وہ مصروف رہتا۔ اس کے بعد اُسے اُبلے اور کُوٹے ہوئے گیہوں کا شوربا دیا جاتا،صرف شوربا۔ کھانے کی کوئی اور چیز ساتھ نہیں ہوتی تھی۔ ہاں کبھی کبھی حاجی اپنا بچا ہوا کھانا اُس کے سامنے کردیتا تھا جیسے کُتے کو دیا جاتا ہے۔ رات کو دکان بھی علی دھوتا۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹنا، پانی بھرنا حتیٰ کہ گھر کے باغچے کے لیے کھاد لانا اور بچھانا بھی اسی کی ذمے داری تھی۔کوجہ علی صرف گیہوں کے شوربے اور بچی کُھچی روٹی سالن پر کئی دن تک مالک کی خدمت کرتا رہا لیکن کام سے زیادہ اُس کے لیے حاجی کے طعنے تکلیف کا باعث تھے۔ کوئی دن نہ جاتا تھا کہ حاجی اپنا احسان نہ جتاتا ہو۔ ’’ابے علی! میں نے تیرے ہاتھ کی دیت ادا کی ہے۔ تو میرا غلام ہے۔ اگر میں دیت ادا نہ کرتا تو آج تو لُولا ہوتا۔‘‘ یہ جملے حاجی علی کا تکیہ کلام بن گئے تھے۔ کوجہ علی چاہے کتنی ہی مشقت کرتا۔ اسے یہ جملے دن میں ایک دو بار ضرور سُننے پڑتے۔ حاجی کو اپنی اس نیکی کا بار بار ذکر کیے بغیر چین نہیں پڑتا تھا۔ وہ ہر حکم کے ساتھ اپنی گندی ڈاڑھی، بدصورت شکل اور اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے کوجہ علی کو نیچے سے اوپر تک دیکھتا اور کہتا ’’یاد رکھ بے! تو میرا غلام ہے۔علی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ لیکن خاموشی کے سِوا کیا چارہ تھا۔ جانور کی کھال اُتارتے ہُوئے، خریداروں کے لیے گوشت کاٹتے ہوئے اور دوسرے کام انجام دیتے وقت اُس کے کانوں میں یہی طعنے گونجتے رہتے اور وہ سوچتا رہتا کہ اس عذاب سے کِس طرح نجات پائے لیکن وہ کسی فیصلے تک نہ پہنچ پاتا۔ وہ سوچتا کہ اس نے تو کبھی کسی پر انگلی تک نہیں اُٹھائی۔ کبھی کسی کو بُرا بھلا نہیں کہا۔ وقاروقناعت سے زندگی گزاری لیکن اب حاجی کی صورت میں ایک بَلا اُس پر نازل ہوگئی ہے۔ وہ بھاگنا پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ اس طرح اس کی عزت پر حرف آتا تھا۔ لوگ اسے واقعی چور سمجھنے لگتے۔ بہرحال حاجی کے جملے اس کے لیے موت سے زیادہ سخت ثابت ہو رہے تھے۔حاجی قصاب کا غلام بنے علی کو کئی روز ہوگئے تھے۔ ایک جمعہ کو وہ علی الصبح مویشیوں کی منڈی گیا اور بھیڑیں خرید کر لایا۔ اُنہیں ذبح کیا، کھال اُتاری اور کاٹ کاٹ کر ٹکڑے دکان پر لٹکا دیے۔ وہ دکان کے بائیں طرف رکھے ہوئے بڑے سے کالے پتھر پر چُھرا تیز کر رہا تھا۔ حاجی قصاب ابھی نہیں آیا تھا۔ چُھرا تیز کرنے کے بعد علی نے بڑی ران کاٹنا شروع کی تو حاجی قصاب آگیا۔ ’’ابے! یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘ حاجی نے نہایت کرخت آواز میں پوچھا۔
ران کاٹ رہا ہوں۔‘‘ علی نے جواب دیا۔’’ابے سست، کاہل! صبح سے ابھی تک تُو نے بس اتنا کام ہی کیا ہے؟‘‘ علی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن حاجی قصاب کو گھور کے دیکھا۔ علی پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ آج تک کسی نے اُسے سست اور کاہل نہیں کہا تھا لیکن یہ شخص اس کے ساتھ صرف بدزبانی ہی نہیں کر رہا تھا بلکہ اس کی تحقیر بھی کر رہا تھا۔ حاجی قصاب نے علی کو گھورتے ہوئے دیکھا تو اپنی اصلیت پر اُتر آیا۔ ’’مجھے گھور کیا رہا ہے شاید تُو بُھول گیا کہ تیرے ہاتھ کی دیت میں نے ادا کی تھی۔ اگر میں دیت ادا نہ کرتا تو آج تو لُولا نظر آتا۔ کوجہ علی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کھسیانے انداز میں مُسکرانے لگا۔ دوسرے ہی لمحے وہ یہ کہتا ہوا تیزی سے مُڑا کہ ’’ہاں لُولا نظر آتا‘‘ اس کا رنگ پہلے سُرخ ہوا، پھر زرد۔ اُس نے ایک بڑا سا چھرا اُٹھایا۔ آستین چڑھائی اور اپنا بایاں ہاتھ گوشت کاٹنے والی لکڑی پر رکھ کر دائیں ہاتھ سے چھرے کی ایسی ضرب لگائی کہ اُس کا ہاتھ کٹ کر الگ ہوگیا۔ حاجی قصاب نے دہشت سے آنکھیں پھیرلیں۔ علی نے اپنا کٹا ہوا پنجہ دوسرے ہاتھ سے اٹھایا اور اُسے حاجی قصاب پر پھینکتے ہوئے کہا ’’لو جس ہاتھ کی تم نے دیت دی تھی، وہ واپس لے لو۔‘‘ پھر اُس نے کٹے ہوئے بازو پر آستین سے گرہ لگائی اور دکان سے نکل گیا۔ جس طرح لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔ اسی طرح کسی کویہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ وہ کہاں گیا۔