For afia siddiquee
بحرِ ہند کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا پانی عزتِ محمدیہ ص کی سسکیوں کے باعث پریشان ہے اس کی لہریں ساحلوں پر سر پٹخ پٹخ کر لوٹ جاتی ہیں ماتم کرتی ہیں کہ وہ عذابِ الہی اور ناراضگئ مصطفی کیسے سہیں گے ،،، دور پار خدا کی سر زمین پر حجاج اور بن قاسم پریشان ہیں کہ ایک بہن ایک بیٹی کے لئے ایسا کیا کریں کہ اسے ایک خراش بھی نہ آئے ،،، شیکسئپیر کہتا ہے دنیا ایک اسٹیج ہے کردار بدلتے ہیں کہانی وہی رہتی ہے نہ جانے کیوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر اسٹیج سجا ہے کہانی وہی ہے کردار بھی وہی ہیں مگر پھر بھی کچھ کمی سی ہے مظلوم عبدیہ بھی ہے راجہ داہر بھی ہے مگر،،،،بن قاسم اور حجاج نظر نہیں آتے
آج بھی عزتِ محمدیہ ص کی سسکیاں دور پار تک جانے اور دل دہلا دینے کی صلاحیت رکھتیں ہیں مگر آپ کو تو معلوم ہے کہ آگ کل کتنی security ہے کہ کہیں کوئی حملہ آور نہ آجائے جو سب کچھ تہس نہس کر دے اس لئے اس مظلوم کی چیخیں پریذیڈنٹ ہاوس ، پرائم منسٹر ہاوس، آرمی چیف ہاوس ، اور ایوانوں میں entry نہیں لے پاتیں مگر،،، پھر مجھے احساس ہوتا ہے کہ آسمانوں کے پردوں سے پہلے تو کوئی security نہیں ہوتی تو جب یہ چیخیں آسمان کا سینہ چیرتی ہونگی اور جب آسمان کا عذاب نیچے اترے گا تو کوئی سیکیورٹی اسے روک نہیں پائے گی کیونکہ اسے کسی entry pass کسی appointment letter اور کسی body scanning کی ضرووت نہیں پھر مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ سب میں کیوں سوچتی ہوں بھئی “مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو ،جہاں تیرا ہے یا میرا” اور پھر زندگی میں اور بھی غم ہیں اس”عشق” کے سوا ،،،اور پھر جب خود اقبال نے کہہ دیا کہ
اقبال یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علمِ نباتات
تو پھر میں کیوں سوچوں ،،،مگر،،، نہ جانے کیوں جب سونے لیٹتی ہوں تو نیند نہیں آتی ایک آواز باربار دل کے سکون میں پتھر اچھال دیتی ہے ۔۔۔کہ
مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
مری آہِ پر اثر نے کئی آفتاب ڈھالے
آپ بتائیں میں کیا کروں ؟؟؟