قافلہ ابھی شہر سے تھوڑا پیچھے تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت جو کہ کھجوروں اور اناج پر مشتمل تھا بھیگنے لگا . بارش سے محفوظ جگہ پر پہنچتے پہنچتے آدھا مال بھیگ چکا تھا. منڈی میں پہنچ کر تاجروں نے مال اتارنا شروع کیا ان تاجروں میں ایک بہت معصوم چہرے والا انتہائی خوش شکل نوجوان تاجر بھی موجود تھا. اس نوجوان تاجر نے جب اپنا مال اتارا تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا. خشک کھجوریں اور خشک اناج ایک طرف رکھ دیا اور بھیگی کھجوریں اور اناج علیحدہ کر کے رکھ دیا. جب خرید و فروخت شروع ہوئی تو نوجوان تاجر کے پاس جو خریدار آتا وہ اسے بھیگے مال کا بھاؤ کم بتاتے جب کہ خشک مال کا بھاؤ پورا بتاتے گاھک پوچھتا کہ ایک جیسے مال کا الگ الگ بھاؤ کیوں تو وہ بتاتے کہ مال بھیگنے سے اس کا وزن زیادہ ہوگیا ہے خشک ہونے کے بعد وزن کم ہوجائے گا یہ بددیانتی ہوتی . لوگوں کیلئے یہ نئی بات تھی تھوڑی ہی دیر میں پوری منڈی میں ان کی دیانتداری کا چرچا ہوگیا. لوگ جوک در جوک معصوم صورت والے تاجر کے گرد جمع ہونے لگے. اتنی چھوٹی سی بددیانتی ان کے لئے معمولی بات تھی لیکن جنہوں نے تاجدار انبیا علیہ السلام بننا تھا ان کے لئے یہ بات معمولی کیسے ہوسکتی تھی.

میں اپنے اردگرد لوٹ مار اور نفسا نفسی دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کیا ہم سب اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جو اتنی معمولی سی بات کو بھی بددیانتی سمجھتے تھے . آج تو ہم خود وزن زیادہ کرنے کیلئے مال میں مٹی اور پتھر تک ملانے سے گریز نہیں کرتے . کس منہ سے قیامت کے دن ان کے حضور پیش ہونگے کیا کبھی سوچا ہم نے ؟

ہمارے رویے عجیب طرح کے ہیں

رجوع الله کی طرف نہیں ہے ، اپنے معاملات اور خواہشات کی طرف زیادہ ہے – حالانکہ الله نے ہمیں جو پرچہ زندگی حل کرنے کے لئے دیا ہے اس کو حل کرنے کی ترکیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں دے دی گئی ہے –

لیکن اسی مقام سے میری کوتاہی شروع ہو جاتی ہے کہ ہم اس ترکیب پر عمل نہیں کرتے –
میں آپ سے بھی رائے لونگا کہ میں اس کوتاہی سے باہر نکلنے کے لئے کیا کروں ؟
میں ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائی لیتے وقت پرچہ ترکیب ضرور دیکھتا ہوں –
پرچہ زندگی حل کرتے وقت خدا کے دیے گئے احکامات یا دی گئی ترکیب کو نذر انداز کر دیتا ہوں –
الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسنیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین

علاج تو اللہ تعالی سے قربت میں ہی ہے، نجانے لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟؟
—————————-

باز اور شکروں کی موجودگی میں چڑیا کے بچے پرورش پاتے رہتے ہیں – آندھیاں سب چراغ نہیں بجھا سکتیں – شیر دھاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کے بچے کلیلیں بھرتے رہتے ہیں- یہ سب اسی مالک کے کام ہیں –

اس کی پیدا کردہ مخلوق ، اپنے اپنے مقرر شدہ طرز عمل سے گزرتی ہی رہتی ہے – فرعون نے سب بچے ہلاک کر دیے ، مگر وہ بچہ بچ گیا ، یہ سب قدرت کے کھیل ہیں – زمانہ ترقی کر گیا ، مگر مکھی ، مچھر ، اور چوہے اب بھی پیدا ہوتے ہیں – جراثیم کش دوائیں نئے جراثیم پیدا کرتی ہیں – طب مشرق و مغرب میں بڑی ترقی ہوئی ہے ، بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے – انسان کل بھی دکھی تھا ، آج بھی سکھی نہیں ، علاج خالق کے قرب میں ہے لوگ کیوں نہیں سمجھتے.
.

اپنے حال پر افسوس کرنا ، اپنے آپ پر ترس کھانا ، اپنے آپ کو لوگوں میں قابل رحم ثابت کرنا الله کی نا شکر گزاری ہے . الله کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا . بیمار اور لاغر روحیں ہمیشہ گلہ کرتی ہیں اور صحت مند ارواح شکر .

زندگی پر تنقید ، خالق پر تنقید ہے اور یہ تنقید ایمان سے محروم کر دیتی ہے