ابن جریر کی روایت ہے فتح مکہ کے موقع پر عورتیں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کو حکم دیا کہ وہ عورتوں سے کہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم ا للہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو. ان بیعت کے لئے آنے والوں میں حضرت ہندہ بھی تھیں جو عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی اور حضرت ابوسفیان کی بیوی تھیں، یہی تھیں جنہوں نے اپنے کفر کے زمانے میں حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی ﷲ عنہ کا پیٹ چیر دیا تھا. اس وجہ سے یہ ان عورتوں میں ایسی حالت میں آئی تھیں کہ انھیں کوئی پہچان نہ سکے. اس نے جب فرمان سنا تو کہنے لگی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں . لیکن اگر بولوں گی توحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مجھے پہچان لیں گے اور اگر پہچان لیں گے تو میرے قتل کا حکم دے دیں گے . میں اسی وجہ سے اس طرح آئی ہوں کہ پہچانی نہ جاؤں مگر وہ عورتیں سب خاموش رہیں اور ہندہ کی بات اپنی زبان سے کہنے سے انکار کردیا. آخر ان ہی کو کہنا پڑا کہ یہ ٹھیک ہے . جب شرک سے ممانعت مردوں کو ہے تو عورتوں کو کیوں نہ ہوگی؟ حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا لیکن آپﷺ نے کچھ نہ فرمایا پھر حضرت عمر سے کہا ان سے کہہ دو کہ دوسری بات یہ ہے کہ چوری نہ کریں. اس پر ہندہ نے کہا میں ابوسفیان کی معمولی سی چیز کبھی کبھی لے کر لیا کرتی ہوں کیا خبر یہ بھی چوری میں داخل ہے یا نہیں ؟ اور میرے لئے یہ حلال بھی ہے یا نہیں ؟ حضرت ابوسفیان بھی اسی مجلس میں موجود تھے. یہ سنتے ہی کہنے لگے میرے گھر میں سے جو کچھ بھی تو نے لیا ہو خواہ وہ خرچ میں آگیا ہو یا اب بھی باقی ہو وہ سب میں تیرے لئے حلال کرتا ہوں. اب تو نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صاف پہچان لیا کہ یہ میرے چچا حضرت حمزہ رضی ﷲ عنہ کی قاتلہ اور ان کے کلیجے کو چیرنے والی اور پھر اسے چبانے والی عورت ہندہ ہے. آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پہچان کر اور ان کی یہ گفتگو سن کر اور یہ حالت دیکھ کر مسکرا دئیے اور انہیں اپنے پاس بلا لیا. انہوں نے آکر حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا تھام کر معافی مانگی تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم وہی ہندہ ہو؟ ہندہ جی ہاں. فرمایا جاؤ آج میں نے تجھے معاف کیا.

( ابن کثیر ، جلد5 )
( ”صحیح اسلامی واقعات ”، صفحہ نمبر 60-58)۔