کبھی آپ یوں کہتے ہیں کہ جب مجھ سے گناہ سرزد ہو تو پھر میں اس سے توبہ کیسے کروں۔اس گناہ کے بعد وہ کونسا کام ہے جو مجھے فورا کرنا چاہیئے ۔

جواب: گناہ چھوڑنے کے بعد دو کام کرنے چاہئیں:

پہلا کام دل کا عمل ہے کہ وہ پشیمان ہو اور آئندہ کبھی وہ کام نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔ اور یہ اللہ سے ڈر کا نتیجہ ہوتا ہے۔
دوسرا کام اعضاء کا عمل ہے کہ وہ مختلف قسم کے نیکی کے کام کرے جن میں سے ایک توبہ کی نماز بھی ہے۔ جس کی صراحت یوں ہے:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ

ما من رجل یذنب ذنبا ثم یقوم فیتطھر ثم یصلی رکعتین ثم یستغفراللہ غفراللہ لہ
جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہو، پھر وہ پاک صاف ہو، پھر وہ دو رکعت نماز ادا کرے پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:-

اور وہ لوگ کہ جب کوئی برا کام کرتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا گناہ معاف کرنے والا ہے بھی کون؟ اور وہ اپنے کیے ہوئے کام پر اصرار نہیں کرتے اور وہ یہ بات جانتے ہیں۔(آل عمران:135)

پھر کچھ دوسری صحیح روایات بھی ہیں جن میں ان گناہوں‌کو دور کرنے والی دو رکعات کی دوسری صفات مذکور ہیں۔جن کا خلاصہ یہ ہے:

1۔ جو شخص بھی وضو کرے اور اچھی طرح سے کرے (کیونکہ جس پانی سے اعضاء کو دھویا جاتا ہے اس پانی سے اعضاء سے گناہ بھی نکل جاتے ہیں یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ نکل جاتے ہیں)۔ اور اچھی طرح وضو کرنا یوں ہے کہ وضو کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھے اور اس کے بعد اذکار کرے جو یہ ہیں:

اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ (او) اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین (او) اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں‌کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اے اللہ مجھے توبہ کرتے رہنے والوں میں سے بنا دے اور صاف ستھرے رہنے والوں میں سے بنا دے۔
اے اللہ ! تیری تعریف کے ساتھ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔

(یہ اذکار وضو کے بعد کے ہیں اور ان میں‌ سے ہر ایک کا بڑا اجر ہے)

2۔کھڑا ہو کر دو رکعت نماز ادا کرے۔
3۔اپنے دل کو سامنے رکھے اور ان پر پوری طرح متوجہ ہو۔
4۔ان میں بھولے نہیں
5۔ان میں اپنے دل میں بھی کوئی بات نہ کرے
6۔ان میں‌ ذکر اور خشوع اچھی طرح کرے
7۔پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگے اور اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ:
ا: اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے
ب: اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی

پھر اس کے بعد نیک اور اطاعت کے کام بکثرت کرنا چاہئے۔آپ دیکھتے نہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مباحثہ کیا۔ پھر جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تو اس کے بعد کئی اچھے کام کئے تاکہ وہ گناہ کو دور کر دیں۔
اس طرح اس صحیح حدیث میں بھی غور فرمائیے۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ مَثَلَ الَّذِي يَعْمَلُ السَّيِّئَاتِ ثُمَّ يَعْمَلُ الْحَسَنَاتِ كَمَثَلِ رَجُلٍ عَلَيْهِ دِرْعٌ (لباس من حدید یرتدیہ المقاتل) ضَيِّقَةٌ قَدْ خَنَقَتْهُ ، فَكُلَّمَا عَمِلَ حَسَنَةً انْفَكَّتْ حَلْقَةٌ ثُمَّ أُخْرَى حَتَّى يَخْرُجَ إِلَى الأَرْضِ

جو برے کام کرتا ہو، پھر اچھے کام کرے اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے تنگ سی زرہ (لوہے کالباس جس کو جنگ کرنے وال پہنتا ہے) پہن رکھی ہو، جس نے اس کا گلا گھونٹ رکھا ہو پھر وہ ایک نیکی کرتا ہے تو اس کا ایک حلقہ کھل جاتا ہے اور دوسری کرتا ہے تو دوسرا کھل جاتا ہے حتیٰ کہ وہ آزاد پھرنے لگتا ہے۔

گویا نیکیاں گنہگار کو معصیت کی قید سے آزاد کر دیتی ہیں اور سے اطاعت کے کھلے میدان کی طرف لے جاتی ہیں۔ اور اے میرے بھائی ! آپ کے لیے درج ذیل عبرتناک قصہ کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:-
اے اللہ کے رسول ! باغ میں مجھے ایک عورت مل گئی اور میں‌ نے جماع کے سوا جو کچھ ہو سکتا تھا اس سے کیا میں‌ نے اس کا بوسہ لیا اور اسے اپنے ساتھ چمٹایا۔ اب میرے ساتھ آپ جو چاہیں سلوک کیجئیے۔
اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کہا تو وہ شخص جانے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کہا ” اللہ نے تمھارا پردہ رکھا تھا تو تمہیں خود بھی اپنا پردہ رکھنا چاہئے تھا”۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ” اسے میری طرف بھیجو۔ لوگوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی:-

وَاَقِمِ الصلوٰۃَ طَرَفَیِ الَنھارِ وَزُلَفاً مِنَ الیل إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ
دن کے دونوں کناروں (صبح اور شام) اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں‌نماز ادا کیا کرو۔ بلاشبہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرتے ہیں۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے ۔۔۔۔
اے اللہ کے رسول! کیا یہ بات صرف اس اکیلے یا سب لوگوں کے لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- بل للناس کافۃ
بلکہ یہ رعایت سب لوگوں کے لئے ہے۔