والدین انٹرنیٹ کے حقیقی اثرات سے لا علم
نت نئی ایجادیں زندگی کو سہل بنانے میں معاون ہیں۔ آج خاتون خانہ کے لئے باورچی خانہ ، صفائی ستھرائی اور دھلائی مشکل نہیں رہی۔ وقت کی بچت پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔ اسی لئے دوسرے مشاغل میں دلچسپیاں بڑھ چکی ہیں۔ اس سے جہاں فائدے ہیں نقصانات بھی ہیں۔ مشہور ہے کہ “ایکسیس آف اینی تھنگ از بیڈ”۔ اس ایکسیس یا کثرت کا مثبت انداز میں استعمال ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نو جوان نسل پر میڈیا کا اثر فیملی اور اسکول سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
کم سن ذہن ان سے کس انداز میں اور کس شدت سے متاثر ہوں گے ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
فیس بک نے گھروں کی پرائیوسی پر ایسی ضرب لگائی ہے کہ سکون تباہ ہوچکا ہے۔ ہمارے کلچر کی تباہی کی ذمہ داری اس پر ہے کہ ہم مغرب کی تقلید میں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینا ہی ترقی ہے۔ بس یہی ہماری غلطی ہے۔
اندازہ لگائیے کہ مائیکرو سافٹ کے بانی “بل گیٹس” نے اپنا فیس بک اکاونٹ اپنی بیٹی کی وجہ سے بند کرادیا اور بیٹی پر یہ پابندی لگا دی کہ وہ روزآنہ 45 منٹ سے زیادہ کمپیوٹر استعمال نہیں کرے گی البتہ چھٹی کے دن بونس کے طور پر ایک گھنٹہ زیادہ دینے کا وعدہ کیا ۔ اس مغربی باپ کو معلوم ہے کہ 10، 11 برس کی بچی کتنی باشعور ہوسکتی ہےاور اس بھروسے کے کیسے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں؟
افسوس تو یہ ہے کہ ہر شئے میں ہمیں اسٹیٹس اور ناک کٹنے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے اور ہم حقائق کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برائی میں کشش زیادہ ہوتی ہے اور پابندیاں تجسس کو بڑھاتی ہیں۔ آج کے دور میں والدین کی ذمہ داریاں بڑھ چکی ہے۔ اکثر والدین یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا بچہ کمپیوٹر پر پڑھ رہا ہے یا کسی اجنبی کے ساتھ “سوشلا ئزنگ” میں مصروف ہے۔ “وائس چاٹ نے بھی بہت سے مسائل کھڑے کر دئیے ہیں۔ “ویڈیوچیٹنگ” کا بھوت بھی سروں پر سوار ہے۔ ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اگر ہم جدید ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے تو لوگ ہمیں دقیانوسی کہنے لگیں گے۔ ذرا سوچئے کیا ہماری اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہیں؟
ماضی میں والدین بچوں پر خاص نظر رکھتے تھے۔ تمام سہیلیوں اور دوستوں کے بارے میں ان کو بخوبی علم ہوتا تھا لیکن آج گھر میں بیٹھے بچے کس قسم کے دوستوں سے رابطے میں ہیں ، یہ معلوم کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ آج والدین کے پاس بھی وقت نہیں کہ وہ بچوں سے بات چیت کریں۔ اس عدم توجہی کے نتیجے میں غلط رویہ کا اظہار ملتا ہے تو انہیں شکایت ہوتی ہے۔ والدین کے بعد اساتذہ کا کردار بھی اہم ہے۔ بچے ان کی شخصیت کو قابلِ تقلید سمجھتے ہیں ان کی توجہ انہیں بہترین فرد بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
معصوم ذہن اپنی سوجھ بوجھ سے زیادہ جان لیں تو نتائج منفی برآمد ہوتے ہیں۔ ان تمام مسائل کے لئے حکومتی سطح پر کام ہونا چاہئے۔ حال ہی میں جرمنی میں اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ وہاں “ڈجیٹل کانگرس فار ینگ جینریشن” بنائی جائے گی جو ہر عمر کے بچوں و جوانوں کے مسائل کا حل تلاش کرے گی۔ ہم خوش ہیں کہ دنیا سمیٹ کر گلوبل ولیج بنی گئی لیکن ضرورت بیداری کی ہے جس سے ان ایجادات کا صحیح استعمال ہوسکے۔ ہماری سوچ جدید انداز کی متقاضی ہے