ابو سفیان کی بیوی ہند نے پہلے تو علی اور حمزہ کو بلند آواز سے برا بھلا کہا پھر بولی۔” اﷲ کی قسم! میں اپنے باپ اور اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے خون کا بدلہ لوں گی۔“ابو سفیان پر خاموشی طاری تھی۔خالد کا خون کھول رہا تھا۔ قریش کے ستر آدمی مارے گئے تھے اور جو جنگی قیدی ہوئے تھے ان کی تعداد بھی اتنی ہی تھی ۔خالد اٹھا ۔دری جھاڑکر لپیٹی اور گھوڑے کی زِین کے ساتھ باندھ کر سوار ہوا اور مدینہ کی سمت چل پڑا۔اس نے ذہن کو یادوں سے خالی کر دینا چاہا لیکن اس کا ذہن مدینہ پہنچ جاتا جہاں رسول اﷲﷺ تھے اور جو تبلیغِ اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔ آپﷺ کا خیال آتے ہی اس کا ذہن پیچھے چلا جاتا اور اسے وہ منظر دکھاتا جس کے خالق حضورﷺ تھے۔اس کے ذہن میں ہند کے الفاظ یادآ ئے جو اس نے اپنے خاوند ابو سفیان سے کہے تھے: ”میں اپنے باپ اور چچا کو بھول سکتی ہوں۔“ ہند نے کہا تھا ۔”کیا میں اپنے لختِ جگر حنظلہ کو بھی بھول جاؤں؟ ماں اپنے بیٹے کو کیسے بھول سکتی ہے ؟اﷲکی قسم !میں محمد کو اپنے بیٹے کا خون معاف نہیں کروں گی۔یہ لڑائی محمد نے کرائی ہے۔ میں حمزہ اور علی کو نہیں بخشوں گی ۔وہ میرے باپ، میرے چچا اور میرے بیٹے کے قاتل ہیں۔“”میرے خون کو صرف میرے بیٹے کا قتل گرمارہا ہے ۔“ابو سفیان نے کہا تھا۔” مجھ پر اپنے بیٹے کے خون کا انتقام فرض ہو گیا ہے۔ میں سب سے پہلے یہ کام کروں گا کہ محمد کے خلاف زبردست فوج تیار کرکے اسے آئندہ لڑنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔“ مشہور مؤرخ اور وقائع نگار واقدی لکھتا ہے کہ اگلے ہی روز ابو سفیان نے تمام سرداروں کو بلایا ۔ان میں زیادہ تعداد ان سرداروں کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگِ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور ا ن میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی عزیز اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ سب انتقام کاارادہ لے کر اکھٹے ہوئے ۔کیا مجھے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت ہے ؟ابو سفیان نے کہا۔” میرا اپنا جوان بیٹا مارا گیا ہے۔ اگر میں انتقام نہیں لیتا تو مجھے جینے کا کوئی حق نہیں۔“سب ایک ہی بار بولنے لگے۔ وہ اس پر متفق تھے کہ مسلمانوں سے بدر کی شکست کا انتقام لیا جائے ۔
”لیکن آپ میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں نہ بیٹھا رہے ۔“خالد نے کہا۔” بدر میں ہم صرف اس لیے ذلت میں گھرے کہ سردار گھروں میں بیٹھے رہے اور ان لوگوں کو لڑنے بھیج دیا جو قریش کی عظمت کو نہیں سمجھتے تھے ۔“

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)