آٹھواں باب: حوض کوثر پر
حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھنے کے بعد ہم دونوں نے حوض کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ میں نے راستے میں صالح سے پوچھا:
’’حضرت عیسیٰ نے جو سفارشی کلمات کہے تھے یعنی اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے، کیا ان الفاظ کا کوئی اثر نہیں ہوا؟‘‘
’’تم نے جواب میں اللہ تعالیٰ کی بات نہیں سنی تھی کہ آج سچوں کو ان کی سچائی ہی نفع پہنچائے گی۔‘‘
’’ہاں سنی، مگر اس سے تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کی سفارش قبول نہیں ہوئی۔‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون واضح کردیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ پیغمبر کی لائی ہوئی تعلیم کو سچ تسلیم کرنا اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق کرنا کامیابی اور نجات کی بنیادی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بات کا مطلب یہ تھا کہ جس کسی نے یہ بنیادی شرط پوری کردی، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اب درگزر کا معاملہ کریں گے۔ یعنی جو غلطیاں ایسے لوگوں سے ہوتی رہیں اور انھوں نے ان پر توبہ اور اصلاح نہیں کی، ان پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے گرفت نہیں کررہے۔
ہر نبی اپنی امت کی اسی طرح دبے لفظوں میں سفارش کررہا ہے اور کرے گا۔ مگر اس کے نتیجے میں سردست صرف اتنی ہی رعایت مل رہی ہے۔ اس وقت کوتاہیاں معاف ہورہی ہیں، جرائم نہیں۔ اور یہ کوتاہیاں جنھیں معمولی سمجھ کر توبہ نہیں کی گئی تھی بہرحال اسی طرح کی خواری کا سبب بنی ہیں جو تمھاری بیٹی لیلیٰ کو اٹھانی پڑی تھی۔ باقی جن لوگوں نے ہمہ وقت ایمان و عمل صالح اور توبہ اور اصلاح کا مستقل رویہ اختیار کیے رکھا وہ تو اول وقت ہی سے عافیت میں ہیں اور جن لوگوں نے مستقل نافرمانی اور بڑے گناہوں کی راہ اختیار کی وہ اس وقت بدترین سختی کا شکار ہیں۔‘‘
یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم ایک ایسی جگہ آگئے جہاں فرشتے لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک رہے تھے۔ صالح میرا ہاتھ تھامے ان کے قریب چلا گیا۔ اسے دیکھتے ہی فرشتوں نے راستہ چھوڑدیا۔ ہم ذرا دور چلے تو ایک جھیل سی نظر آنے لگی۔ اسے دیکھتے ہی صالح بولا:
’’یہی حوض کوثر ہے۔‘‘
میں نے کہا:
’’مگر یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں۔‘‘
’’وہ آگے کی طرف ہیں۔ ہم دوسری سمت سے داخل ہوئے ہیں۔ میں تمھیں اس کا تفصیلی مشاہدہ کرانا چاہ رہا تھا اسی لیے یہاں سے لایا ہوں۔‘‘
صالح کی بات پر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ عام معنوں میں کوئی حوض نہیں ہے۔ میں نے قدرے تعجب کے ساتھ صالح سے کہا:
’’یار یہ تو جھیل بلکہ شاید سمندر جتنا بڑا ہے جس کا دوسرا کنارہ مجھے نظر ہی نہیں آتا۔‘‘
’’ہاں یہ ایسا ہی ہے۔ تم دیکھ نہیں رہے کتنے سارے لوگ اس کے کنارے کھڑے پانی پی رہے ہیں۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا حوض ہو تو فوراً ہی خالی ہوجائے گا۔‘‘
اس نے ٹھیک کہا تھا۔ یہاں ہر جگہ بہت سارے لوگ موجود تھے۔
ویسے پچھلی دنیا میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے مجھے اندازہ تھا کہ یہ عام سا حوض نہیں ہوگا بلکہ کوئی سمندر ہوگا۔ بلکہ حضور کے ارشادات سے مجھے خیال ہوتا تھا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پچھلی دنیا میں عر ب ور افریقہ کو جدا کرنے والا بحیرۂ احمر (Red Sea) بہتا تھا۔ میں نے اپنے اس اندازے کا اظہار صالح سے کیا تو وہ بولا:
’’بڑی حد تک یہ اندازہ ٹھیک ہے۔ زمین پھیل کر گرچہ بہت بڑی ہوچکی ہے، مگر یہ کم و بیش وہی جگہ ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ میدان حشر سرزمین عرب میں برپا ہورہا ہے؟‘‘
’’ہاں تمھارے اندازے ٹھیک ہیں۔‘‘
میں خاموشی سے سوچنے لگا کہ کیسا وقت تھا وہ جب دنیا آباد تھی۔ لوگ اس وقت دنیا کے ہنگاموں میں گم تھے۔ کاش انہیں اندازہ ہوجاتا کہ اصل دنیا تو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کو بھیج کر پچھلی دنیا میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا، مگر لوگ مان کر ہی نہیں دیے۔ پھر اللہ نے ان انبیا میں سے کچھ کو منصب رسالت پر فائز کردیا۔ یہ رسول نہ صرف لوگوں کو صحیح راستے کی طرف بلاتے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر لوگوں کو متنبہ کردیتے کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تو اللہ تعالیٰ قیامت سے قبل ہی اس قوم پر اپنا عذاب بھیج دے گا جس سے صرف ماننے والے بچائے جائیں گے۔ چنانچہ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، قوم شعیب، آل فرعون اور خود قریش مکہ کے ساتھ یہی ہوا۔
ان اقوام کے رسولوں نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا، مگر جب وہ نہ مانے تو قیامت سے قبل ہی دنیا میں انہیں عذاب دیا گیا۔ قوم نوح اور آل فرعون کو پانی میں ڈبوکر، عاد کو تند آندھی سے، قوم ثمود اور قوم شعیب کو ایک کڑک سے، قوم لوط کو پتھر والی ہوا سے اور کفار مکہ کو مؤمنوں کی تلواروں سے ختم کیا گیا اور اہل ایمان کو بچاکر زمین کا اقتدار انہیں دے دیا گیا۔ خاص کر کفار مکہ اور حضور کا معاملہ تو تاریخ کی روشنی میں ہوا اور قرآن میں اس کا ریکارڈ محفوظ کردیا گیا۔ اور کسے معلوم نہیں تھا کہ صحابہ کرام کو کس طرح چند برسوں میں دنیا کا حکمران بنادیا گیا۔ یوں اخروی سزا و جزا کا ایک دنیوی نمونہ اس طرح قائم کیا گیا کہ کوئی شخص بھی اس کا انکار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پھر بھی لوگوں نے اس دن کی تیاری نہیں کی۔
سب سے بڑھ کر اسی مڈل ایسٹ کے علاقے میں جہاں آج حشر برپا ہے، چار ہزار برس تک آل ابراہیم کی شکل میں ایک قوم کے ساتھ مستقل سزا جزا کا معاملہ کیا گیا۔ اولاد ابراہیم کی دو شاخوں یعنی بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ کا قانون یہ رہا کہ اگر وہ فرمانبرداری کرتے تو خدا کی رحمت انہیں دنیا میں نوازتی اور نافرمانی کرتے تو دنیا میں قومی حیثیت میں سزا پاتے۔ بنی اسرائیل کو اپنی تاریخ میں اپنے جرائم کی پاداش میں دو دفعہ عظیم تباہیوں کا سامنا بطور سزا کرنا پڑا۔ ایک دفعہ عراق کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں اور دوسری دفعہ رومی جرنل ٹائٹس کے ہاتھوں ان پر تباہی نازل کی گئی۔ اسی طرح امت مسلمہ کو بھی ان کے جرائم کی بنا پر دو دفعہ بڑے پیمانے پر سزا دی گئی۔ ایک دفعہ تاتاریوں کے ہاتھوں اور دوسری دفعہ یورپی اقوام کے ہاتھوں انہیں تباہی اور غلامی کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سزا کے ساتھ جب کبھی وہ توبہ اور رجوع کرتے تو ان پر حکومت و انعامات کے دروازے کھل جاتے۔ اس کی ایک مثال وہ تھی جب تاتاریوں کے ہاتھوں مکمل تباہی کے بعد مسلمانوں نے ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا تو تھوڑے ہی عرصے میں برباد شدہ مسلمان دوبارہ دنیا کی عظیم سپر پاور بن گئے۔ مگر افسوس کہ لوگوں نے سزا و جزا کے اس کھلے ہوئے معاملے کو دیکھ کر بھی قیامت کی سزا و جزا کی حقانیت کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بے اختیار میرے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی اور میں نے کہا:
’’میرے رب تو نے تو سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر انسان بڑی ہی ڈھیٹ مخلوق تھا۔ اسی لیے اسے آج کا یہ تلخ دن دیکھنا پڑرہا ہے۔‘‘
صالح نے میرا جملہ سن کر لمحہ بھر کے لیے مجھے دیکھا اور بولا:
’’نہیں! ہر انسان ایسا نہیں تھا۔ دیکھ لو تمھارے اردگرد حوض کوثر پر کتنے سارے لوگ ہیں۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا مگر کچھ بولا نہیں۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ صالح یہاں موجود لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور میں باہر حشر میں موجود لوگوں کے خیال میں تھا جن میں میرا اپنا بیٹا جمشید بھی شامل تھا۔ میں میدان حشر میں اس کی تلاش میں لوٹا تھا، مگر حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھ کر میرا حوصلہ جواب دے چکا تھا۔ اس لیے سر دست اس کا معاملہ میں نے خدا پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک جگہ پہنچ کر صالح نے مجھ سے کہا:
’’چلو اب کوثر کے VVIP لاؤنج میں چلتے ہیں۔‘‘
میں نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، مگر مجھے اندازہ تھا کہ صالح کیا کہہ رہا ہے۔ تاہم اس نے اپنی بات کی وضاحت خود ہی کردی:
’’آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں کے دو درجات ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے دین کو فرائض و واجبات کے درجے میں اختیار کیا۔ بندوں اور خالق کے حقوق ادا کیے اور خدا کے ہر ہر حکم کی پابندی کی۔ یہی لوگ جنت کی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ تھے جنھوں نے فرائض سے بڑھ کر قربانی کے مقام پر دین کو اختیار کیا۔ بدترین حالات اور مشکل ترین مواقع پر صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ نیکی اور خیر کے ہر کام میں سبقت اختیار کی۔ ہر حال میں حق کو اختیار کیا اور اس کے لیے ہر قیمت دی۔ خدا کے دین کی نصرت، اس کی نفل عبادت، اس کے بندوں پر خرچ اور ان کی خدمت کو اپنی زندگی بنالیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آج آخرت کے دن VIPs میں شامل کیے جائیں گے۔ ان کی نعمتیں، ان کے درجات، خدا سے ان کا قرب اور ان کا مقام و مرتبہ ہر چیز عام جنتیوں سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسا دنیا میں ہر معاشرے میں ایک عوام الناس کی کلاس ہوتی ہے اور ایک اشرافیہ یعنی elite اور ہائی جینٹری ہوا کرتی تھی۔ آج قیامت کے دن یہی ہورہا ہے۔ کامیاب عوام الناس کو میدان حشر کی سختی سے بچاکر حوض کوثر کے پرفضا علاقے میں ٹھہرایا گیا ہے اور جنت میں بھی انھیں اچھی جگہ ملے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ مگر اس سے بھی بلند ایک درجہ خدا کے مقربین کے لیے ہے۔ یہ اہل جنت کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اس کی حقیقت تو جنت میں داخلے کے بعد ہی سامنے آئے گی، لیکن کوثر کے پاس بھی یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ اعلیٰ درجے کے اہل جنت کی اقامت گاہ الگ بنائی جائے۔ ہم وہیں جارہے ہیں۔‘‘
وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھہرا اور میری آنکھوں میں غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا:
’’کیوں کہ ہمارا عبد اللہ عام اہل جنت میں سے نہیں بلکہ ایک سردار اور ہر اعلیٰ مقام کا حقدار ہے۔‘‘
میں نے اس کی بات سن کر اپنا سر جھکادیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم ایک ایسی جگہ داخل ہوئے جہاں کا حسن شاید الفاظ کی گرفت میں نہیں آسکتا تھا۔ جھیل کا برف کی مانند سفید اور بے آمیز پانی زمین کے فرش پر چاندنی کی طرح بچھا ہوا تھا۔ جھیل کی سطح پرسکون اور ہموار تھی اور اس کے دیکھنے سے ہی نگاہوں کو عجب طرح کی تسکین مل رہی تھی۔ جھیل کے کنارے ایسے چمک دار موتیوں کے بنے ہوئے تھے جو اندر سے خالی تھے۔ کنارے کے پاس انتہائی دبیز اور ملائم قالین بچھے ہوئے تھے جن پر چلتے ہوئے تلووں کو ناقابل بیان راحت مل رہی تھی۔ ان پر شاہانہ اور آرام دہ نشستیں موجود تھیں۔ شیشے سے زیادہ شفاف میزوں پر سونے اور چاندی کے گلاس ستاروں کی مانند جگمگا رہے تھے۔ جھیل سے ایسی مہک اٹھ رہی تھی جس سے مشام جان معطر ہوکر رہ گئے۔
میں نے ایک نشست سنبھالتے ہوئے صالح سے پوچھا:
’’یہ اتنی اچھی خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟‘‘
’’حوض کی تہہ میں جو مٹی ہے وہ دنیا کی کسی بھی خوشبو سے زیادہ معطر ہے۔ اسی کا یہ اثر ہے۔‘‘
صالح نے جھیل سے ایک گلاس بھرا اور میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا:
’’مزے کرو۔‘‘
میں نے ایک گھونٹ لیا۔ دنیا میں میں نے اس کی صرف تشبیہات سنی تھیں، دودھ، شہد وغیرہ۔ مگر یہ ان سب سے کہیں زیادہ بہتر مشروب تھا۔ گرچہ میں پہلے بھی جامِ کوثر پی چکا تھا، مگر اس ماحول میں پینے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ باہر محشر میں سخت اور چلچلاتی دھوپ تھی مگر یہاں شام کے جھٹپٹے کا منظر تھا۔ ٹھنڈی، خنک اور سبک ہوا چل رہی تھی۔ بالکل سورج ڈوبنے سے پہلے کا سماں محسوس ہوتا تھا۔ سفید آسمان پر شفق کی سی لالی چھائی ہوئی تھی۔ یہ شفق کہیں گہری سرخ تھی، کہیں نارنجی اور کہیں زرد۔ آسمان کے یہ رنگ جھیل کے سفید پانی پر اپنا عکس یوں پھیلائے ہوئے تھے کہ گویا کوئی گوری چٹی دوشیزہ سر پر رنگ برنگا دوپٹہ پھیلائے ہوئے ہو۔ بلاشبہ یہ ایک انتہائی دلکش اور خوبصورت منظر تھا۔
میں نے اپنے اردگرد نظر ڈالی۔ مجھے یہ بالکل کسی پکنک پوائنٹ کا منظر لگ رہا تھا۔ لوگ ٹولیوں میں، تنہا تنہا اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس جھیل یا حوض کے کنارے کھڑے اور بیٹھے اور آپس میں خوش گپیاں کررہے تھے۔ سب لوگ بے حد خوش اور مسرور نظر آتے تھے۔ ان کے چہروں پر پھیلا سکون و اطمینان یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ ان لوگوں نے پالا مار لیا ہے۔ یہ موت، دکھ، بیماری، غم اور تکلیف کے ہر امکان سے دامن چھڑا کر ابدی اور سچی خوشی کے بحر ناپیدا کنار کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔
ختم نہ ہونے والی کامیابی، ماند نہ پڑنے والی خوشی، کم نہ ہونے والی لذتیں، فنا نہ ہونے والی زندگی اور واپس نہ لی جانے والی آسائشیں آج ان کے قدموں میں تھیں۔ کتنی کم محنت کرکے کتنا زیادہ صلہ ان لوگوں نے پالیا تھا۔ اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے ان کے قہقہوں کی آوازیں دور دور تک سنی جارہی تھیں۔ ان کے چہروں کی مسکراہٹیں ہر طرف بہار بن کر چھارہی تھیں۔
انہیں دیکھ کر مجھے اپنے بیوی بچوں کا خیال آیا۔
صالح نے میرا خیال میرے چہرے پر پڑھ لیا۔ وہ بولا:
’’آؤ چلو لگے ہاتھوں تمھیں تمھارے گھر والوں سے بھی ملوادیتے ہیں۔ انھیں بھی یہیں بلوالیا گیا ہے۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے سب سے پہلے لیلیٰ نے دیکھا۔ وہ باقی گھر والوں کے ساتھ حوض کے کنارے ایک نشست پر بیٹھی تھی، مگر شاید اس کی متلاشی نگاہیں مجھے ہی ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس نے مجھے دور سے دیکھ لیا تھا۔ وہ نشست سے اٹھی اور دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ وہ کچھ بول نہیں رہی تھی بس روئے جارہی تھی۔ میں دیر تک اس کا کندھا تھپکتا رہا۔ پھر میں نے اسے خود سے جدا کیا اور اس کی شکل دیکھنے لگا۔
میں نے آخری دفعہ جب اسے میدان حشر میں دیکھا تھا تو وہاں وہ بہت بدحال تھی۔ مگر اب میری بیٹی پریوں کی مانند حسین لگ رہی تھی۔ اسے یوں دیکھ کر میں نے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا شکریہ ادا کیا، جس کی بنا پر آج وہ مجھ سے آملی تھی۔ میں نے اس سے کہا:
’’لیلیٰ! مصیبت اور تکلیف کے دن ختم، اب خوشی اور راحت ہمیشہ تمھارا مقدر رہے گی۔‘‘
اتنے میں باقی لوگ بھی میرے پاس آچکے تھے۔ میری دیگر دو بیٹیاں عارفہ اور عالیہ دونوں ہمیشہ کی طرح خوبصورت لگ رہی تھیں۔ جبکہ میرا چھوٹا بیٹا انور اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔ میں نے سارے بچوں کو گلے لگایا۔ پھر ان سے کہنے لگا:
’’میرے بچوں مجھے تم پر فخر ہے۔ تم نے دنیا کی رنگینیوں کے اوپر اپنے رب کے وعدوں کو ترجیح دی۔ تم نے حقیر دنیا کے عارضی فائدوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کی زندگی کا انتخاب کرلیا۔ آج تمھاری ابدی کامیابی کا دن ہے۔ آؤ اس دن کی کامیابی کا آغاز جام کوثر ایک ساتھ پی کر کریں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں قریبی موجود ایک نشست پر بیٹھ گیا۔ باقی لوگ بھی میرے اردگرد بیٹھ گئے۔ میں نے بیٹھتے ہی لیلیٰ سے کہا:
’’بیٹا میں تمھاری روداد سننا چاہتا ہوں، مگر پہلے انور، عالیہ، عارفہ تم بتاؤ! تم لوگ خیریت سے اپنی ماں تک پہنچ گئے تھے؟‘‘
تینوں نے ایک ہی جواب دیا کہ وہ اول وقت ہی سے محفوظ تھے اور مختلف فرشتوں نے روز حشر کے آغاز ہی پر انہیں بحفاظت عرش کے سائے تلے پہنچادیا تھا۔ ان کے بعد لیلیٰ بولی:
’’ابو میں نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔ میں صور کی آواز سن کر جب قبر سے نکلی تو عجیب وحشت کا عالم تھا۔ سب لوگ ایک ہی سمت بھاگے جارہے تھے۔ اس وقت کسی کے جسم پر بھی کپڑے نہیں تھے، مگر خوف، دہشت اور پریشانی کا عالم یہ تھا کہ کوئی کسی کو نہ دیکھ رہا تھا اور نہ کسی کو اپنی بے حجابی کی پروا تھی۔ میں نے آپ سب لوگوں کو بہت تلاش کیا، مگر آپ لوگوں کا کوئی اتا پتہ نہ تھا۔ لاچار ہوکر میں بھی اسی سمت دوڑنے لگی جس سمت سب لوگ بھاگے جارہے تھے۔
خبر نہیں اس حال میں مجھے چلتے چلتے کتنا وقت گزرگیا۔ لگتا تھا کہ ہر کسی کو ایک منزل پر پہنچنے کا جنون سوار ہے۔ لوگ دہشت زدہ تھے، پریشان تھے، مگر مجبور تھے کہ ایک ہی سمت بھاگتے چلے جائیں۔ ‘‘
میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا:
’’یہ صور اسرافیل کا اثر تھا کہ ہر شخص میدان حشر کی طرف دوڑنے پر خود کو مجبور پاتا تھا۔ لوگ دنیا کے کسی حصے میں بھی تھے، مگر سب کا رخ ایک ہی سمت کردیا گیا تھا۔‘‘
’’جی ہاں ابو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ سب لوگ ایک ہی سمت میں جارہے تھے۔ چلتے چلتے میرے پاؤں میں چھالے پڑگئے۔ ان سے خون نکلنے لگا۔ تھکان سے جسم ٹوٹ رہا تھا، مگر اندر کوئی چیز تھی جو رکنے نہیں دیتی تھی۔ پیاس کے مارے حالت خراب تھی، مگر پانی کا قطرہ تک کہیں نہ تھا۔ بلا کی گرمی تھی مگر کہیں کوئی درخت اور سایہ نہ تھا۔ ابو سارے راستے سوائے چٹیل میدان کے کچھ نہیں ملا۔ پہاڑ، دریا، سمندر، درخت، کھائی غرض نہ کوئی نشیب تھا نہ فراز۔ کیا بتاؤں کیسا اذیت ناک سفر تھا۔ دنیا ہوتی تو میں تھک کر گرجاتی، مرجاتی۔ مگر یہاں تو نہ گرنا نصیب میں تھا نہ مرنا۔ ناچار دوڑتی رہی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘، انور نے تأسف آمیز لہجے میں دریافت کیا۔
’’اسی طرح چلتے چلتے نہ جانے کتنے عرصے میں میں میدان حشر تک آپہنچی۔ مگر یہاں ایک دوسری مصیبت انتظار کررہی تھی۔ ہر جگہ عجیب خوفناک فرشتے گھوم رہے تھے۔ ان کی شکل دیکھ کر ہی ڈر لگ رہا تھا۔ میرے ساتھ تو انھوں نے کچھ نہیں کیا، مگر دوسروں کو وہ بے دردی سے مار رہے تھے۔ مگر مار پیٹ کا یہ منظر دیکھ کر ہی میری جان نکلی جارہی تھی۔‘‘
’’عاصمہ تمھیں کہاں ملی؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’وہ بھی میدان حشر میں مجھے ایک جگہ روتی بلکتی مل گئی۔ ابو وہ بڑے ناز و نعم میں پلی ہوئی لڑکی تھی، اسے دیکھ کر تو میں اپنی تمام تکلیفیں بھول گئی۔ اس کے بعد ہم دونوں ساتھ ساتھ رہے کہ کچھ حوصلہ بلند رہے، مگر آپ سے ملنے کے بعد اس کا حوصلہ اور نجات کی امید بالکل دم توڑ گئیں۔‘‘
عالیہ نے پوچھا:
’’آخری دفعہ وہ تمھیں کہاں ملی تھی؟‘‘
’’جب سجدے کا حکم ہوا تھا میں سجدے میں چلی گئی۔ اس وقت وہ میرے برابر میں تھی، مگر وہ سجدے میں نہیں جاسکی۔ وہ دنیا میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ اللہ کوہماری عبادت، ہماری نماز کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ہے بھی تو وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔ وہ ہمیں معاف کردے گا۔ وہ روزہ یہ کہہ کر چھوڑتی تھی کہ میری خوبصورت جلد خراب ہوجائے گی۔‘‘
’’تم سجدے سے اٹھی تو وہ کہاں تھی؟‘‘، عارفہ نے پوچھا۔
’’وہ میرے برابر ہی میں تھی، مگر جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے لوگوں کو الگ کیا جائے تو فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے میرے پاس سے لے گئے۔ پھر مجھے حساب کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا گیا۔‘‘
’’وہاں کیا ہوا؟‘‘، اس دفعہ ناعمہ نے دریافت کیا۔
’’مجھے تو لگ رہا تھا کہ اب اللہ تعالیٰ میرا نامۂ اعمال میرے بائیں ہاتھ میں پکڑا کر مجھے عذاب کے فرشتوں کے حوالے کردیں گے، مگر میں قربان جاؤں اپنے رب کی رحمت کے، اس نے بڑا کرم کیا۔ مجھ سے ایمان، عبادات کے متعلق سوالات ہوئے۔ میں نے بتادیا کہ میں ہر بات پر ایمان رکھتی تھی اور ساری عبادات بھی کرتی تھی۔ پھر موٹے موٹے اخلاقی معاملات، صلہ رحمی اور حقوق العباد کا سوال ہوا۔ میں نے ان کا جواب بھی دے دیا۔ اس کے بعد مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ عام زندگی میں کی جانے والی نافرمانیوں اور گناہوں سے متعلق متعین سوال نہ کرلیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کوئی سوال ہی نہیں کیا۔‘‘
اس پر میں نے کہا:
’’لیلیٰ بیٹا! اگر اللہ تعالیٰ تم سے اگلا سوال کرلیتے تو تم ماری جاتیں۔ وہ جس کو معاف کرنے کا فیصلہ کردیتے ہیں، اس سے کوئی ایسا سوال نہیں کرتے جس کا جواب نفی میں آنا یقینی ہو۔ یہ کام صرف ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کو پکڑنا مقصود ہوتا ہے۔ انہوں نے تم سے صرف وہ پوچھا جس کا صحیح جواب تمھارے نامۂ اعمال میں موجود تھا۔ باقی تمھارے گناہ گرچہ نامۂ اعمال میں موجود تھے، مگر انہوں نے جان بوجھ کر نظر انداز کردیے۔‘‘
’’ہاں ابو انہوں نے ایک بات مجھ سے آخر میں کہی تھی۔ وہ یہ کہ تم عبد اللہ کی بیٹی ہو۔ تمھیں تو اس کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد انھوں نے فرشتوں سے کہا کہ اس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دے کر اس کو اس کے گھر والوں کے پاس بھیج دو۔ اس وقت میری خوشی کا جو عالم تھا میں اسے بیان نہیں کرسکتی۔‘‘
صالح جو میرے برابر ہی میں بیٹھا تھا اس کی بات سن کر کہنے لگا:
’’تمھاری بخشش عبد اللہ کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔ البتہ تمھارے درجات تمھارے والد کی وجہ سے بلند ہوگئے ہیں۔ تم اس وقت حوض کوثر کے VVIP لاؤنج میں بیٹھی ہو۔ جانتی ہو تم پر اور تمھارے بھائی بہنوں اور والدہ پر یہ مہربانی صرف تمھارے باپ عبد اللہ کی وجہ سے ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے کہ کامیاب لوگوں میں سے جس شخص کا درجہ سب سے بلند ہوگا اس کے قریبی اعزا کو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جمع کردیں گے۔‘‘
اس پر عالیہ نے کہا:
’’جبھی ہم بھائی بہنوں کے خاندانوں کے کسی فرد کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ملی۔ صرف ہم بہن بھائیوں اور امی کو فرشتوں نے یہاں آنے دیا ہے۔ باقی لوگ بھی یہاں ہیں مگر انہیں پیچھے ٹھہرایا گیا ہے۔‘‘
یہ سن کر ناعمہ کے چہرے پر کرب کے گہرے آثار طاری ہوگئے۔ اس کے اندر کی ماں بولی:
’’سوائے جمشید کے۔‘‘
یہ بات سن کر ایک خاموشی چھاگئی۔ آخر انور نے خاموشی کے اس پردے کو یہ کہہ کر توڑا:
’’ابو مجھے تو آپ کے استاد فرحان صاحب کی اس تحریر نے بچالیا جو میں نے آپ سے اکثر سنی تھی۔ اس تحریر کو میں نے اپنی زندگی بنالیا تھا۔‘‘
عارفہ بولی:
’’بھائی! وہ تحریر کیا تھی؟ ہمیں بھی سناؤ۔‘‘
انور نے آنکھیں بند کیں اور بولنے لگا:
’’ہمارے دور کے مصلحین لوگوں کے اندر سے ترقی کی اس فطری خواہش کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ خدا ایسا نہیں کرتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس خواہش کا رخ دنیا کے بجائے آخرت کی طرف مڑ جائے۔ دنیا کی اشرافیہ اور اہل ثروت گروہ میں شامل ہونے کے بجائے لوگوں میں یہ خواہش پیدا ہوجائے کہ وہ خدا کے مقربین اور جنت کی اشرافیہ میں شامل ہوں۔ آپ پورے قرآن کی دعوت پڑھ لیں وہ اس کے سوا انسان میں کوئی ذہن پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن کے اولین مخاطبین صحابۂ کرام اسی ذہن کی حامل ہستیاں تھیں۔ ابوبکر و عمر کا انفاق، عبدالرحمن و عثمان کی سخاوت اور علی و بو ذر کی سادگی آخرت پر اسی ایمان کے مختلف مظاہر تھے۔ آخرت پر ایمان آدمی میں جو تبدیلی لاتا ہے اسے سمجھنے کے لیے قرآن کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں:
’’تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سر و سامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے دن سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟‘‘، (القصص ۲۸:۶۱۔۶۰)
آپ اندازہ کریں کہ جس شخص کے دل میں صرف اس ایک آیت پر پکا یقین ہو اس کی زندگی کس طرح گزرے گی؟ ایسا شخص مال کماتے وقت خدا کی اس نافرمانی کا خطرہ نہیں مول لے سکتا جس کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے۔ اس کے مال کا بہترین مصرف، اپنی ضروریات پوری کرکے، آخرت کی ابدی اور زیادہ بہتر زندگی کی آرائش و زیبائش ہوگی۔ وہ دنیا میں کسی بھی نعمت کے حصول کے لیے آخرت کو کبھی خطرے میں نہیں ڈالے گا۔ وہ دنیا کے گھر سے پہلے آخرت کے گھر کی فکر کرے گا اور دنیا کی گاڑی سے پہلے آخرت کی سواری کی سوچے گا۔ اخلاق باختہ عورتوں کے عریاں اور نیم عریاں وجود پر نگاہ ڈالنے کی وقتی لذت کے لیے وہ ان حوروں سے محرومی گوارا نہیں کرے گا جن کا چاند چہرہ، حسنِدلکش اور ابدی شباب کبھی نہیں ڈھلے گا۔
گھر والوں کی ضروریات اور خواہشات اسے کبھی کسی ایسے راستے پر نہیں لے جاسکتیں جو آخر کار جہنم کی دہلیز تک جا پہنچتا ہو۔ بیوی بچوں سے اس کی محبت اسے مجبور کرے گی کہ وہ انہیں بھی جنت کے راستوں کا مسافر بنائے۔ ان کی تربیت کرے۔ انہیں وقت دے۔ انہیں بتائے کہ جینا تو صرف آخرت کا جینا ہے۔ کامیابی تو صرف جنت کی کامیابی ہے۔ یہ دنیا دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں ہم سے پہلے بھی بے گنتی لوگوں کا امتحان ہوا اور ہمارا بھی امتحان ہورہا ہے۔ چند برسوں کی بات ہے۔ نہ ہم رہیں گے نہ امتحان کے یہ صبر آزما لمحے۔ کچھ ہوگا توخدا کی رحمت ہوگی۔ اس کی جنت ہوگی۔ ختم نہ ہونے والی نعمتیں ہوں گی۔ عزت و اکرام کی رفعتیں ہوں گی۔ لہجوں میں وقار ہوگا۔ چہروں پر نکھار ہوگا۔ صالحین کی پاکیزہ قربت ہوگی۔ دوست احباب کی پرلطف صحبت ہوگی۔ ہیرے جواہرات کے محلات ہوں گے۔ مشک و عنبر کے باغات ہوں گے۔ سندس و حریر کی آرائش ہوگی۔ یاقوت و مرجان کی زیبائش ہوگی۔ دودھ و شہد کی نہریں ہوں گی۔ مائے مصفا کی لہریں ہوں گی۔ سونے چاندی کے شجر ہوں گے۔ آب و شراب کے ساغر ہوں گے۔ فرشتوں کے سلام ہوں گے۔ مرغ و ماہی کے طعام ہوں گے۔
غرض عیش و سرور اور حور و خدام کی یہ ابدی دنیا، آب و شراب اور قصر و خیام کی یہ ابدی دنیا، جاہ و حشم اور لذت و انعام کی یہ ابدی دنیا، چین و سکون اور لطف و اکرام کی یہ ابدی دنیا وہ دنیا ہوگی جہاں کوئی دکھ نہ ہوگا۔ کوئی غم نہ ہوگا۔ کوئی مایوسی نہ ہوگی۔ کوئی پچھتاوا نہ ہوگا۔ کوئی محرومی نہ ہوگی۔ کوئی محدودیت نہ ہوگی۔ بدنصیب وہ نہیں جسے فانی دنیا نہیں ملی۔ بد نصیب وہ ہے جسے یہ ابدی دنیا نہیں ملی۔‘‘ اس آخری بات پر انور کی آواز بھراگئی۔ اسے شاید اپنے بھائی جمشید کا خیال آگیا تھا، مگر اسے معلوم نہ تھا کہ اس نے یہ تحریر سناکر میرے لیے جمشید کے صدمے کے ساتھ میرے استاد فرحان صاحب کا صدمہ بھی جمع کردیا ہے۔ میں نے دل میں سوچا:
شاید میدان حشر میں بھی ہمیں کچھ نہ کچھ غم دیکھنے ہی ہیں۔ یہ صرف جنت ہی ہے جہاں داخلے کے بعد ہر غم اور ہر پریشانی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔