ہم حشر کے میدان کی سمت جارہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ نحور اور شائستہ نظر آئے۔ انھیں دیکھ کر میری حسِ مزاح بیدار ہوگئی۔ میں نے صالح سے کہا:

’’آؤ ذرا چلتے چلتے انھیں تنگ کرتے جائیں۔‘‘

ان دونوں کا رخ جھیل کی طرف تھا اس لیے وہ ہمیں قریب آتے ہوئے دیکھ نہیں سکے۔ میں شائستہ کی سمت سے اس کے قریب پہنچا اور زور سے کہا:

’’اے لڑکی! چلو ہمارے ساتھ۔ ہم تمھیں ایک نامحرم مرد کے ساتھ گھومنے پھرنے کے جرم میں گرفتار کرتے ہیں۔‘‘

شائستہ میری بلند آواز اور سخت لہجے سے ایک دم گھبراکر پلٹی۔ تاہم نحور پر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے اطمینان کے ساتھ مجھے دیکھا اور کہا:

’’پھر تو مجھے بھی گرفتار کرلیجیے۔ میں بھی شریک جرم ہوں۔‘‘، یہ کہتے ہوئے انہوں نے دونوں ہاتھ آگے پھیلادیے۔ پھر ہنستے ہوئے کہا:

’’مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نہ جیل ہے اور نہ سزا دینے کی جگہ۔‘‘

’’جیل تو یہاں نہیں ہے، مگر سزا ضرور مل سکتی ہے۔ وہ یہ کہ مغویہ ہی کے ساتھ آپ کی شادی کرادی جائے۔ ساری زندگی ایک ہی خاتون کے ساتھ رہنا وہ بھی جنت میں بڑی سزا ہے۔‘‘

اس پر نحور نے ایک زوردار قہقہہ بلند کیا۔ شائستہ جو میرے ابتدائی حملے کے بعد سنبھل چکی تھی، ہنستے ہوئے بولی:

’’ویسے تو آپ لوگ توحید کے بڑے قائل ہیں، مگر اس معاملے میں آپ لوگوں کی سوچ اتنی مشرکانہ کیوں ہوجاتی ہے؟‘‘

نحور نے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی لاتے ہوئے کہا:

’’آپ کو معلوم ہے عبداللہ! مشرکوں کا انجام جہنم ہوتا ہے۔ اس لیے آئندہ آپ شائستہ کے سامنے ایسی مشرکانہ گفتگو مت کیجیے گا وگرنہ آپ کی خیر نہیں۔‘‘

صالح نے اس گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا:

’’شائستہ! آپ اطمینان رکھیں۔ یہ عملاً موحد ہیں۔ ان کی ایک ہی بیگم ہیں۔‘‘

اس پر نحور مسکراتے ہوئے بولے:

’’یہ ان کا کارنامہ نہیں، ان کے زمانے میں یہ مجبوری تھی۔ خیر چھوڑیں اسے۔ یہ بتائیے کہ آپ کی بیگم صاحبہ ہیں کہاں؟‘‘

میں ابھی بھی سنجیدگی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میں نے ان کی طرف شرارت آمیز انداز میں دیکھتے ہوئے کہا:

’’ہمیں بعض دوسرے بزرگوں کی طرح بیگمات کے ساتھ گھومنے کی فراغت میسر نہیں۔‘‘

’’لیکن دوسروں کی فراغت کو نظر لگانے کی فرصت ضرور میسر ہے۔‘‘، نحور نے اسی لب و لہجے میں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

’’ہم خوش ہونے والے لوگ ہیں، نظر لگانے والے ہرگز نہیں۔‘‘

’’مگر آپ نے مجھے تو نظر لگادی ہے۔‘‘، پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے بولے:

’’میرے پیغمبر یرمیاہ نبی کو شہادت دینے کے لیے بلالیا گیا ہے۔ میں چونکہ ان کا قریبی ساتھی تھا، اس لیے میرا وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔‘‘

یہ آخری بات کہتے ہوئے ان کے چہرے پر سنجیدگی آگئی تھی۔

’’آپ جارہے ہیں؟‘‘، شائستہ نے پوچھا۔

’’ہاں۔ تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔ میں کچھ دیر تک ان معاملات میں مصروف رہوں گا۔ عبد اللہ نے مجھے نظر جو لگادی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ ان فرشتوں کے ساتھ روانہ ہوگئے جو انہیں لینے آئے تھے۔

’’انبیا تو اپنی امتوں پر گواہی دے چکے۔ یہ یرمیاہ نبی کی گواہی کس چیز کی ہورہی ہے؟‘‘، میں نے صالح کی سمت دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔

’’جن مجرموں نے ان کے ساتھ زیادتی کی تھی، انہیں بھی ان کے انجام تک پہنچنا ہے۔ یہ گواہی اس سلسلے کی ہے۔‘‘

صالح نے جواب دیا۔ پھر ہم دونوں بھی حشر کی طرف روانہ ہوگئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عرش کے سامنے یرمیاہ کے زمانے کے تمام یہود جمع تھے۔ ان کا زمانہ یہود کی تاریخ کا ایک اہم ترین دور تھا۔ یہود یا بنی اسرائیل حضرت ابراہیم کے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاق اور ان کے بیٹے یعقوب کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت یعقوب جن کا لقب اسرائیل تھا ان کے بارہ بیٹے تھے۔ انہی کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا گیا۔ ان بارہ بیٹوں میں سب سے نمایاں حضرت یوسف تھے۔ حضرت یعقوب اور ان کے بارہ بیٹے فلسطین میں آباد تھے۔ مگر حضرت یوسف کے زمانے میں یہ سب مصر منتقل ہوگئے۔ کئی صدیوں تک یہ مصر میں رہے اور ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔

حضرت موسیٰ کی بعثت کے وقت فرعون نے یہود کو غلام بنارکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعے سے ان لوگوں کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات عطا کی اور ان لوگوں کو ایک امت بنایا۔ کتاب و شریعت ان پر نازل ہوئی۔ مگر صدیوں کی غلامی نے ان میں بزدلی، شرک اور دیگر اخلاقی عوارض پیدا کردیے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اللہ کے حکم کے باوجود فلسطین کو وہاں موجود مشرکوں سے جہاد کرکے فتح کرنے سے انکار کردیا۔ بعد میں حضرت موسیٰ کے جانشین یوشع بن نون کے زمانے میں فلسطین فتح ہوا اور یہ لوگ وہاں آباد ہوگئے۔

اس کے بعد حضرت داؤد اور سلیمان علیھما السلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک زبردست حکومت عطا کی جس کا شہرہ دنیا بھر میں تھا۔ مگر اس کے بعد ان میں اخلاقی زوال آیا اور ہر طرح کی اخلاقی خرابیاں اور شرک ان میں پھیل گیا۔ انھیں پیغمبروں نے بہت سمجھایا مگر یہ باز نہیں آئے۔ نتیجتاً ان پر محکومی مسلط کردی گئی۔ اردگرد کی اقوام نے ان پر پے در پے حملے کرکے ان کی سلطنت کو بہت کمزور کردیا۔

جس وقت حضرت یرمیاہ کی بعثت ہوئی بنی اسرائیل اس دور کی عظیم سپر پاور عراق کی آشوری سلطنت اور اس کے حکمران بخت نصر کے باج گزار تھے۔ اس دور میں بنی اسرائیل کا اخلاقی زوال اپنی آخری حدوں کو چھورہا تھا۔ ان میں شرک عام تھا۔ زنا معمولی بات تھی۔ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یہ لوگ بدترین ظلم و ستم کا معاملہ کرتے۔ سود خوری اور غلامی کی لعنتیں عام تھیں۔ ایک طرف اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا اور دوسری طرف سیاسی امنگیں عروج پر تھیں۔ ہر طرف بخت نصر کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھایا جارہا تھا۔ ان کے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی ساری توجہ اس بات کی طرف تھی کہ اس سیاسی محکومی سے نجات مل جائے۔ قوم کی اصلاح، اخلاقی تعمیر، ایمانی قوت جیسی چیزیں کہیں زیر بحث نہ تھیں۔ مذہب کے نام پر ظواہر کا زور تھا۔ ایمان و اخلاق اور عمل صالح کی کوئی وقعت نہ تھی۔

ایسے میں حضرت یرمیاہ اٹھے اور انھوں نے پوری قوت کے ساتھ ایمان واخلاق کی صدا بلند کی۔ انھوں نے اہل مذہب اور اہل سیاست کو ان کے رویے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی اخلاقی کمزوریوں، شرک اور دیگر جرائم پر انہیں تنبیہ کی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی قوم کو سختی سے اس بات پر متنبہ کیا کہ وہ بخت نصر کے خلاف بغاوت کا خیال دل سے نکال دیں۔ انھیں سمجھایا کہ جذبات میں آکر انہوں نے اگر یہ حماقت کی تو بخت نصر قہر الٰہی بن کر ان پر نازل ہوجائے گا۔ مگر ان کی قوم باز نہ آئی۔ اس نے انہیں کنویں میں الٹا لٹکادیا اور پھر جیل میں ڈال دیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے بخت نصر کے خلاف بغاوت کی۔ جس کے نتیجے میں بخت نصر نے حملہ کیا۔ چھ لاکھ یہودیوں کو اس نے قتل کیا اور چھ لاکھ کو غلام بناکر ساتھ لے گیا۔ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ پورا شہر خاک و خون میں بدل گیا۔ قرآن مجید نے اس واقعے کو بیان کیا اور یہ بتایا کہ حملہ آور لوگ دراصل قہر الٰہی تھے کیونکہ بنی اسرائیل نے زمین پر فساد مچارکھا تھا۔

میں اسی سوچ میں تھا کہ صالح نے غالباً میرے خیالات پڑھ کر کہا:

’’ٹھیک یہی کام تمھارے زمانے میں تمھاری قوم کررہی تھی۔ وہ علم، تعلیم، ایمان، اخلاق میں بدترین پستی کا شکار تھی، مگر اس کے نام نہاد رہنما اسے یہی سمجھاتے رہے کہ ساری خرابی وقت کی سپر پاورز اور ان کی سازشوں کی وجہ سے ہے۔ ایمان و اخلاق کی اصلاح کے بجائے سیاسی غلبہ اور اقتدار ہی ان کی منزل بن گیا۔ ملاوٹ، کرپشن، ناجائز منافع خوری، منافقت اور شرک قوم کے اصل مسائل تھے۔ ختم نبوت کے بعد ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا بھر میں اسلام کا پیغام پہنچاتے، مگر ان لوگوں نے قوم کی اصلاح اور غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے بجائے غیرمسلموں سے نفرت کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ ان کے خلاف جنگ و جدل کا محاذ کھول دیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بنی اسرائیل نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے بخت نصر کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی طرح انھوں نے بھی اس عمل کا برا نتیجہ بھگت لیا۔‘‘

اسی اثنا میں اعلان ہوا:

’’یرمیاہ کو پیش کیا جائے۔‘‘

تھوڑی دیر میں یرمیاہ کچھ فرشتوں کی معیت میں تشریف لائے۔ وہ عرش کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ مگر انھوں نے کچھ کہا نہیں۔

صالح نے کہا:

’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی کا مقدمہ خود پیش کریں گے۔‘‘

صالح نے یہ الفاظ کہے ہی تھے کہ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ اور تمام نگاہیں ان مناظر کو دیکھنے کے لیے اوپر کی طرف اٹھ گئیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ایک عظیم تباہی کا منظر تھا۔ ہر طرف آگ بھڑک رہی تھی۔ شعلوں کا رقص جاری تھا۔ جلتے ہوئے مکانات اور املاک سے اٹھنے والے سیاہ بادل آسمان کی بلندیوں کو چھورہے تھے۔ فضا میں آہیں، چیخیں اور سسکیاں بلند ہورہی تھیں۔ زمین بے گناہوں اور گناہگاروں کے خون سے رنگین تھی۔ انسانوں کو بے دریغ مارا جارہا تھا۔ گھروں کو لوٹا جارہا تھا۔ خواتین کی ناموس گلی کوچوں میں پامال ہورہی تھی۔ یروشلم کی گلیوں میں ہر طرف عراق کے طاقتور ترین حکمران بخت نصر کے فوجی دندناتے ہوئے پھررہے تھے۔ ان کے سامنے ایک ہی مقصد تھا۔ بنی اسرائیل کے اس مقدس ترین شہر اور اس کے باسیوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیں۔

اس افراتفری اور ہنگامے میں کچھ سپاہی ایک کمانڈر کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار تیزی سے ایک سمت بڑھے جارہے تھے۔ شہر کے کونے میں بنے جیل خانے کے قریب پہنچ کر وہ رکے اور اپنے گھوڑوں سے اتر کر کھڑے ہوگئے۔ ان کا کمانڈر آگے بڑھا اور جیل خانے میں موجود قیدیوں کی سمت دیکھتے ہوئے پکارا:

’’تم میں سے یرمیاہ کون ہے؟‘‘

اس کی بات کا کوئی جواب نہیں آیا، لیکن تمام قیدیوں کی نظریں ایک پنجرے کی طرف اٹھ گئیں جہاں ایک قیدی کو پنجرے کے اندر انتہائی بے رحمی سے رسیوں سے جکڑ کر رکھا گیا تھا۔ کمانڈر کو اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ اس نے سپاہیوں کی سمت دیکھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھے۔ پنجرے کو کھولا اور یرمیاہ کو رسیوں کی قید سے رہائی دلائی۔ وہ اتنے نڈھال تھے کہ زمین پر گر پڑے۔ کمانڈر ان کی سمت بڑھا اور ان کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا اور نرمی سے پکار کر کہا:

’’یرمیاہ! تم ٹھیک تو ہو۔‘‘

قیدی نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ مگر شدتِ ضعف سے ان کی آنکھیں پھر بند ہوگئیں۔ کمانڈر نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے فخر کے ساتھ کہا:

’’یرمیاہ تمھاری پیش گوئی پوری ہوگئی۔ ہمارے بادشاہ بخت نصر شاہِ عراق نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ آدھی آبادی قتل ہوچکی ہے اور آدھی آبادی کو ہم غلام بناکر اپنے ساتھ لے جارہے ہیں۔ مگر تمھارے لیے بادشاہ کا خصوصی حکم ہے کہ تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ تم ایک سچے آدمی ہو۔ تم نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا، مگر وہ باز نہ آئی اور اب اس نے اس کی سزا بھگت لی۔‘‘

یہ کہہ کر وہ پیچھے مڑا اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا:

’’یرمیاہ کو چھوڑدو اور باقی قیدیوں کو قتل کردو۔ اس کے بعد اس شہر کے آدمیوں کے لہو سے اپنی پیاس بجھاؤ اور ان کی عورتوں سے اپنے خون کی گرمی کو ٹھنڈا کرو۔ جو چیز ہاتھ آئے اسے لوٹ لو اور جو باقی بچے اسے آگ لگادو۔‘‘

قیدیوں کو قتل کردیا گیا اور سپاہی لوٹ مار کے لیے دوسری سمتوں میں نکل گئے۔ یرمیاہ پوری قوت مجتمع کرکے اٹھے اور پنجرے کی دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا شہر جل رہا تھا۔ ان کے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، مگر اس سے کہیں زیادہ درد انھیں اپنی قوم کی ہلاکت کا تھا۔

پھر اسکرین پر ان کی زندگی اور ان کے دور کے کئی مناظر ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے۔ وہ قوم کے اکابرین اور عوام کو سمجھارہے تھے۔ مگر ان کی بات کوئی نہیں سن رہا تھا۔ ان کی قوم عراق کے سپر پاور بادشاہ اور آشوریوں کے زبردست حکمران بخت نصر کے تابع تھی۔ سالانہ خراج بخت نصر کو بھیجنا ہی ان کی زندگی اور عافیت کا سبب تھا۔ اس غلامی کا سبب وہ اخلاقی پستی تھی جو قوم کے رگ و پے میں سرایت کرگئی تھی۔ توحید کے رکھوالوں میں شرک عام تھا۔ زنا اور قمار بازی معمول تھی۔ بددیانتی اور اپنے لوگوں پر ظلم ان کا چلن تھا۔ جھوٹی قسمیں کھاکر مال بیچنا اور پڑوسیوں سے زیادتی کرنا ان کا معمول تھا۔ یہ لوگ بھاری سود پر قرض دیتے۔ جو مقروض قرض ادا نہ کرپاتا اس کے خاندان کو غلام بنالیتے۔ علما لوگوں کی اصلاح کرنے کے بجائے انھیں قومی فخر میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔ ایمان، اخلاق اور شریعت کے بجائے ذبیحوں اور قربانیوں کو اصل دین سمجھ لیا گیا تھا۔ ان کے حکمران ظالم اور رشوت خور تھے۔ انصاف کے بجائے عیش و عشرت ان کا معمول تھا۔ مگر پوری قوم اس بات پر جمع تھی کہ ہمیں بخت نصر کی غلامی سے نکل کر بغاوت کردینی چاہیے۔ حقیقت یہ تھی کہ ان پر خدا کا غضب تھا، مگر ان کو یہ بات بتانے کے بجائے قومی فخر اور سلیمان و داؤد کی عظمتِ رفتہ کے خواب دکھائے جارہے تھے۔ انھیں امامتِ عالم کی دہائی دی جارہی تھی حالانکہ وہ بدترین ایمانی اور اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔

پھر اسکرین پر وہ منظر سامنے آیا جب یرمیاہ پر وحی آئی کہ اپنی قوم کی اصلاح کرو۔ انھیں سیاست سے نکال کر ہدایت کی طرف لاؤ۔ ایک دفعہ سچی خدا پرستی پیدا ہوگئی تو سیاست میں بھی تمھی غالب ہوگے۔ انھیں حکم تھا کہ وہ شادی کرکے گھر بسانے کے بجائے قوم کو آنے والی تباہی سے خبردار کریں۔ مگر جب یرمیاہ یہ پیغام لے کر اٹھے تو ہر طرف سے ان کی مخالفت شروع ہوگئی۔ خدا کے اس نبی نے اپنے زمانے کے عوام و خواص، اہلِ مذہب اور اہلِ سیاست سب کو پکارا، مگر گنتی کے چند لوگوں کے سوا کسی نے ان کی بات نہ سنی۔ ان کی دعوت بالکل سادہ تھی۔ بخت نصر سے ٹکرانے کے بجائے اپنے ایمان و اخلاق کی اصلاح کرو۔

اسکرین پر سب سے زیادہ ڈرامائی منظر وہ تھا جب یرمیاہ بادشاہ کے دربار میں لکڑی کا جوا (ہل کا وہ حصہ جو جانوروں کو جوتنے کے لیے ان کے گلے پر ڈالا جاتا ہے) پہن کر پہنچ گئے تھے۔ یہ ان لوگوں کو سمجھانے کی آخری کوشش تھی کہ اس وقت تم پر لکڑی کا جوا ڈلا ہوا ہے اسے توڑنے کی کوشش کرو گے تو لوہے کے جوے میں جکڑدیے جاؤ گے۔ مگر درباریوں اور اہل علم نے ان کو بخت نصر کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ بادشاہ نے آگے بڑھ کر لکڑی کا جوا تلوار سے کاٹ ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی فیصلہ ہوگیا۔ اب ان کے گلے میں لوہے کی بیڑیاں ڈالی جائیں گی۔

اللہ کے اس نبی کو بخت نصر کا ایجنٹ قرار دے کر بطور سزا پہلے کنویں میں الٹا لٹکایا گیا اور پھر ایک پنجرہ میں باندھ دیا گیا۔ بخت نصر کے خلاف بغاوت کردی گئی۔ جواب میں بخت نصر عذاب الٰہی بن کر ٹوٹ پڑا۔ پھر اسکرین پر وہی پہلا منظر آگیا جب عذاب کی بارش سے یروشلم نہارہا تھا۔ یرمیاہ نے آنکھیں کھول کر ارد گرد پڑی بے گور و کفن لاشوں اور چاروں طرف رقصاں تباہی کے مناظر پر ایک نظر ڈالی اور بلند آواز سے کہا:

’’میں نے تم لوگوں کو کتنا سمجھایا ۔ مگر تم نے سیاسی شعبدہ بازوں اور متعصب جاہل مذہبی لیڈروں کی پیروی کو پسند کیا۔تم حق و باطل کے معاملے میں غیر جانبدار رہے۔ تم معاشرے کے خیر و شر اور خدائی احکام سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارتے رہے۔ آخرکار اس کی سزا سامنے آگئی۔‘‘

پھریرمیاہ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور دھیرے سے بولے:

’’عدلِ کامل کا دن آئے گا۔ ضرور آئے گا۔ مگر کچھ انتظار کے بعد۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے ساتھ ہی منظر ختم ہوگیا اور ایک زوردار ڈانٹ فضا میں بلند ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا غصہ اپنے عروج پر تھا۔ ان کے نبی کے ساتھ جو کچھ بنی اسرائیل نے کیا تھا اس کی جو سزا بخت نصر کی صورت میں انہوں نے بھگتی تھی وہ بہت معمولی تھی۔ اصل سزا کا وقت اب آیا تھا۔ حکم ہوا ہر اس شخص کو پیش کیا جائے جو کسی درجے میں بھی یرمیاہ کے ساتھ کی گئی اس زیادتی میں شریک تھا۔

بادشاہ امرا اور مذہبی لیڈروں کا وہ گروپ پیش ہوا جو اس سانحے کا ذمہ دار تھا۔ ان میں سزا دینے والے بھی تھے اور وہ بھی جو یرمیاہ کو بخت نصر کا ایجنٹ قرار دے کر ان کے خلاف فضا ہموار کررہے تھے۔ ان سب کے لیے جہنم کا فیصلہ سنادیا گیا۔ پھر اس کے بعد ایک ایک کرکے اس زمانے کے عوام کا احتساب شروع ہوا۔ نبی کے مجرموں کا احتساب جس طرح ہونا چاہیے تھا ویسے ہی ہوا اورہر مجرم کے لیے بدترین سزا کا فیصلہ ہوگیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں اس دفعہ حشر میں دیر تک کھڑا رہا اور لوگوں کا حساب کتاب دیکھتا رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس سے قبل میں نے چند ہی لوگوں کا حساب کتاب دیکھا تھا۔ مگر اب اندازہ ہورہا تھا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی مکمل اور جامع حساب کررہے ہیں۔ ہر شخص کے حالات، اس کے ماحول اور اس کی تربیت اور پرورش کے نتیجے میں بننے والی نفسیات کی روشنی میں اس کے اعمال کا جائزہ لیا جارہا تھا۔ لوگوں نے رائی کے دانے کے برابر بھی عمل کیا تو وہ ان کی کتاب اعمال میں موجود تھا۔ ان کی نیت، محرکات اور اعمال ہر چیز کو پرکھا جارہا تھا۔ فرشتوں کا ریکارڈ، دیگر انسان، در و دیوار اور سب سے بڑھ کر انسان کے اپنے اعضا گواہی میں پیش ہورہے تھے۔ ان سب کی روشنی ہی میں کسی شخص کے ابدی مستقبل کا فیصلہ سنایا جاتا۔ یوں انسان پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں ہورہا تھا۔ جس کو معاف کرنے کی ذرا بھی گنجائش ہوتی اسے معاف کردیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے عدل کامل اور رحمت کامل کا ایسا ظہور تھا کہ الفاظ اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

میں اسی حال میں تھا کہ صالح نے میرے کان میں سرگوشی کی:

’’ناعمہ بڑی شدت سے تمھیں ڈھونڈرہی ہے۔‘‘

’’خیریت؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔

’’بڑا دلچسپ معاملہ ہے۔ بہتر ہے تم چلے چلو۔‘‘

یہ کہہ کر صالح نے میرا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم ناعمہ کے پاس کھڑے تھے۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ناعمہ کے ساتھ ایک بہت خوبصورت پری پیکر لڑکی کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے اپنی یادداشت پر بہت زور ڈالا مگر میں اسے پہچان نہ سکا۔

ناعمہ نے خود ہی اس کا تعارف کرایا:

’’یہ امورہ ہیں۔ ان کا تعلق حضرت نوح کی امت سے ہے۔ یہ مجھے یہیں پر ملی ہیں۔ یہ آخری نبی یا ان کے کسی نمایاں امتی سے ملنے کی خواہشمند تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک تو میں انہیں نہیں لے جاسکتی تھی۔ البتہ میں نے سوچا کہ آپ سے انہیں ملوادوں۔ آخر آپ بھی بڑے نمایاں لوگوں میں سے ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ امورہ سے میرا تعارف کرانے لگی۔ اس تعارف میں زمین آسمان کے جو قلابے وہ ملاسکتی تھی، اس نے ملائے۔ میں نے بیچ میں مداخلت کرکے ناعمہ کو روکا اور کہا:

’’ناعمہ میری بیوی ہیں۔ اس وجہ سے میرے بارے میں کچھ مبالغہ آمیز گفتگو کررہی ہیں۔ البتہ ان کی یہ بات ٹھیک ہے کہ میں آپ کو اس امت کے نمایاں لوگوں بلکہ اپنے نبی سے بھی ملوادوں گا۔‘‘

ناعمہ کو میری بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئی۔ وہ جھلاکر بولی:

’’اگر میں مبالغہ کررہی ہوں تو بتائیں یہ صالح آپ کے ساتھ کیوں رہتے ہیں اور یہ آپ کو کہاں کہاں لے کر جاتے ہیں؟‘‘

میں نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے کہا:

’’اچھا چلو میں نے ہار مانی لیکن پہلے امورہ سے تفصیلی تعارف تو ہولینے دو۔‘‘

امورہ ہنستے ہوئے بولی:

’’انسان ہزاروں برس میں بھی نہیں بدلے بلکہ دوبارہ زندہ ہوکر بھی ویسے ہی ہیں۔ آپ دونوں ویسے ہی جھگڑا کررہے ہیں جیسے میرے اماں ابا کرتے تھے۔‘‘

’’ان کے اماں ابا سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے۔‘‘

ناعمہ بیچ میں بولی، مگر یہ اس کا اگلا خوشی سے بھرپور جملہ تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ امورہ سے مل کر اتنا خوش کیوں ہے اور کیوں اس نے مجھے میدان حشر سے واپس بلوایا ہے۔

’’امورہ کے شوہر نہیں ہیں۔‘‘

میرے اندازے کی تصدیق صالح نے کردی ۔وہ میرے کان میں بولا:

’’ناعمہ نے تمھاری ہونے والی بہو سے ملوانے کے لیے تمھیں بلایا ہے۔‘‘

میرا اندازہ بالکل درست تھا۔ ناعمہ جمشید کے لیے دلہن ڈھونڈ رہی تھی اور آخرکار اسے اس کوشش میں اس حد تک کامیابی ہوچکی تھی کہ لڑکی اسے پسند آگئی تھی۔ مگر لڑکے لڑکی نے ایک دوسرے کو پسند کیا یا دیکھا بھی ہے یہ مجھے علم نہیں تھا۔ مگر ناعمہ کو اس سے کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ اس کے خیال میں اس کا راضی ہوجانا ہی اس رشتے کے لیے کافی تھا۔

میں نے دریافت کیا:

’’امورہ آپ کے شوہر کہاں ہیں؟‘‘

امورہ نے نسبتاً شرماکر کہا:

’’دنیا میں صرف 15 سال کی عمر میں میرا انتقال ہوگیا تھا۔ میں بچپن سے ہی بہت بیمار رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ بغیر کسی حساب کتاب کے شروع ہی میں میرے لیے جنت کا فیصلہ ہوگیا۔‘‘

’’اور باقی فیصلے تمھاری ہونے والی ساس کررہی ہیں۔‘‘، میں نے دل ہی دل میں سوچا۔

صالح کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ پھر امورہ بولی:

’’مجھے آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ جنت میں بھی ہم ملتے رہا کریں گے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔ میرے اماں ابا مجھے ڈھونڈرہے ہوں گے۔‘‘

ناعمہ بھی اس کے ساتھ جانے کے لیے مڑی تو میں نے کہا:

’’ٹھہرو مجھے تم سے کچھ کام ہے۔‘‘

ناعمہ نے امورہ سے کہا:

’’تم وہیں رکو جہاں ہم ملے تھے۔ میں ابھی آتی ہوں۔‘‘

میں نے مذاق میں ناعمہ سے کہا:

’’امورہ سے اس کا موبائل نمبر لے لو، اس رش میں کہاں ڈھونڈتی پھرو گی۔‘‘

’’یہ موبائل کیا ہوتا ہے؟‘‘، امورہ نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔

’’یہ ایک ایسی بلا کا نام ہے جس کے بعد تم ناعمہ سے بچ نہیں سکتیں۔‘‘، میں نے جواب دیا۔ صالح نے بیچ میں دخل دیتے ہوئے کہا:

’’میرا خیال ہے کہ امورہ اپنی منزل تک پہنچ نہیں سکے گی، میں اسے پہنچاکر آتا ہوں۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

امورہ اور صالح کے جانے کے بعد میں ناعمہ کو لے کر حوض کے کنارے ایک جگہ بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے کہا:

’’تمھیں معلوم ہے تم کیا کرہی ہو؟‘‘

’’ہاں میں نے جمشید کے لیے امورہ کو پسند کیا ہے۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔ مگر تمھیں معلوم ہے کہ تمھاری پسند سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔ پچھلی دنیا میں ھما کے تجربے کے بعد اب جمشید میرے سامنے کچھ نہیں بول سکتا اور امورہ کے والدین سے میں بات کرچکی ہوں۔‘‘

’’یعنی متعلقہ فریقوں لڑکا اور لڑکی دونوں کے علم میں یہ بات نہیں۔ نہ ان کی مرضی لی گئی اور سب کچھ تم نے طے کردیا۔ ناعمہ یہ دنیا نہیں ہے۔ یہاں ہم ماں باپ بس رسمی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں وہی ہوگا جو ان لوگوں کی مرضی ہوگی۔ اس لیے اپنے دل میں کوئی امید باندھنے سے پہلے ان دونوں سے پوچھ لو۔‘‘

’’اور اگر انھوں نے انکار کردیا؟‘‘

’’تو اور بہت لڑکیاں ہیں۔ آج کسی چیز کی کمی نہیں۔ تم اس معاملے میں بے فکر ہوجاؤ۔‘‘

ناعمہ خاموش ہوگئی مگر اس کا ذہن ابھی تک اپنی بہو میں الجھا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا:

’’ ناعمہ ہمیں پہلی دفعہ یہاں تنہائی میسر آئی ہے۔ تم کچھ دیر کے لیے اپنی مادرانہ شفقت کو کونے میں رکھ دو اور یہ دیکھو کہ یہاں کتنا اچھا ماحول ہے۔‘‘

پھر میں نے اس سے کہا:

’’تمیں یاد ہے ناعمہ! ہم نے کتنے مشکل وقت ساتھ ساتھ دیکھے تھے۔ خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے میں نے اپنی زندگی لگادی۔ اپنا کیرئیر، اپنی جوانی، اپنا ہر سانس اسی کام کے لیے وقف کردیا۔ مگر دیکھو ناعمہ میں نے جو سودا کیا تھا اس میں کوئی خسارہ نہیں ہوا۔ میں تم سے دنیا میں کہا کرتا تھا نا کہ جو خدا کے ساتھ سودا کرتا ہے وہ کبھی گھاٹا نہیں اٹھاتا۔ دیکھو ہم ہر خسارے سے بچ گئے۔ کتنی شاندار کامیابی ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ ہم جیت گئے ناعمہ۔ ۔ ۔ ہم جیت گئے۔ اب زندگی ہے، موت ختم۔ اب جوانی ہے، بڑھاپا ختم۔ اب صحت ہے، بیماری ختم۔ اب امیری ہے، غربت ختم۔ اب ہمیشہ رہنے والی خوشیاں ہیں اور سارے دکھ ختم۔‘‘

’’مجھے تو اب کوئی دکھ یاد بھی نہیں آرہا۔‘‘

’’ہاں آج کسی جنتی کو نہ دنیا کا کوئی دکھ یاد ہے اور نہ کسی جہنمی کو دنیا کا کوئی سکھ یاد ہے۔ دنیا تو بس ایک خیال تھی، خواب تھا، افسانہ تھا، سراب تھا۔ حقیقت تو اب شروع ہوئی ہے۔ زندگی تو اب شروع ہوئی ہے۔‘‘

’’ذرا سامنے دیکھیے سماں بدل رہا ہے۔‘‘

میں نے اس کے کہنے سے توجہ کی تو احساس ہوا کہ واقعی اب شام ڈھلنے کے بالکل قریب ہوچکی ہے۔ اب مغرب کے جھٹپٹے کا سا وقت ہورہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ تبدیلی کسی اہم بات کا پیش خیمہ ہے۔

پیچھے سے ایک آواز آئی:

’’ہاں تم ٹھیک سمجھے۔‘‘

یہ صالح کی آواز تھی۔ وہ میرے قریب بیٹھتے ہوئے بولا:

’’اس تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ حساب کتاب ختم ہورہا ہے۔ تمام لوگوں کا حساب کتاب ہوچکا ہے۔‘‘

’’پہلے یہ بتاؤ تم امورہ کو چھوڑکر کہاںرہ گئے تھے۔ تم نہ پانی پینے جاسکتے ہو نہ بیت الخلا جانا تمھارے لیے ممکن ہے۔ پھر تم تھے کہاں؟‘‘

’’میں امثائیل کے ساتھ تھا۔‘‘

اس کے ساتھ ہی امثائیل پیچھے سے نکل کر سلام کرتا ہوا سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ یہ میرے الٹے ہاتھ کا فرشتہ تھا۔ میں نے سلام کا جواب دیا اور ہنستے ہوئے صالح سے دریافت کیا:

’’ان کی وجہ نزول؟‘‘

’’حساب کتاب ختم ہوچکا اب تمھیں پیش ہونا ہے۔ ہم دونوں مل کر تمھیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے۔‘‘

پیشی کا سن کر مجھے پہلی دفعہ گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ میں نے گھبرا کر سوال کیا:

’’حساب اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیا؟‘‘

’’میں تمھیں پہلے بتاچکا ہوں کہ یہاں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور حشر میں وقت بہت آہستہ۔ اس لیے جتنا عرصہ تم یہاں رہے ہو اتنے عرصے میں وہاں حساب کتاب ختم ہوچکا۔‘‘

’’وہاں میرے پیچھے کیا ہوا تھا؟‘‘

’’تمام امتوں کا جب عمومی حساب کتاب ہوگیا تو میدان حشر میں صرف وہ لوگ رہ گئے جو ایمان والے تھے، مگر ان کے گناہوں کی کثرت کی بنا پر انھیں روک لیا گیا تھا۔ آخر کار حضور کی درخواست پر ان کا بھی حساب ہوگیا۔ اب آخر میں سارے انبیا اور شہدا پیش ہوں گے۔‘‘

’’کیا شہید وہ لوگ ہیںجو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے؟‘‘، ناعمہ نے صالح سے سوال کیا۔

’’نہیں یہ وہ شہدا نہیں۔ وہ بھی بڑے اعلیٰ اجر کے حقدار ہوئے ہیں۔ مگر یہ شہدا حق کی گواہی دینے والے لوگ ہیں۔ یعنی انہوں نے انسانیت پر اللہ کے دین کی گواہی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے انبیا کے بعد ان کی دعوت کو آگے پہنچایا۔‘‘

’’کیا ان کا بھی حساب ہوگا؟‘‘، میں نے سوال کیا کیونکہ مجھ پر حساب کے تصور سے گھبراہٹ طاری تھی۔

’’نہیں بس بارگاہ ربوبیت میں ان کی پیشی ہوگی اور ان کی نجات کا اعلان ہوگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ رب العالمین اور مالک کل ہیں۔ وہ جب چاہیں جس کا چاہیں حساب کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی ان کو روک نہیں سکتا۔‘‘

میرے منہ سے نکلا:

’’رب اغفر وارحم۔‘‘

میں خدا کے اختیار کا بیان کررہا ہوں۔ یہ نہیں کہہ رہا کہ اللہ تعالیٰ یہ کریں گے۔ دراصل اب جنت و جہنم میں داخلے کا وقت آرہا ہے۔ چنانچہ اب اہل جنت اور اہل جہنم سب کو میدان حشر میں جمع کردیا جائے گا۔ ان سب کے سامنے انبیا اور شہدا کی کامیابی کا اعلان ہوگا۔ پھر گروہ در گروہ نیک وبد لوگوں کو جنت و جہنم میں بھیجا جائے گا۔ جس کے بعد ختم نہ ہونے والی زندگی شروع ہوجائے گی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔