میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک نفیس اور نرم و نازک بستر پر پایا۔ ناعمہ بستر پر میرے قریب بیٹھی پریشان نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں کھلتے دیکھ کر ایک دم سے اس کے چہرے پر رونق آگئی۔ اس نے بے اختیار پوچھا:

’’آپ ٹھیک ہیں؟‘‘

’’میں کہاں ہوں؟‘‘، میں نے جواب دینے کے بجائے خود ایک سوال کردیا۔

’’آپ میرے پاس میرے خیمے میں ہیں۔ صالح آپ کو اس حال میں یہاں لائے تھے کہ آپ بے ہوش تھے۔‘‘

’’وہ خود کہاں ہے؟‘‘

’’وہ باہر ہیں۔ ٹھہریں، میں انہیں اندر بلاتی ہوں۔‘‘

اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی صالح سلام کرتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ تھی۔ میں اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھا اور پوچھا:

’’کیا ہوا تھا؟‘‘

’’تم بے ہوش ہوگئے تھے۔‘‘

’’باخدا میں نے اپنے رب کا یہ روپ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ خدا کے بارے میں میرے تمام اندازے غلط تھے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے جتنا میں تصور کرسکتا تھا۔ مجھے اب اپنی زندگی کے ہر اس لمحے پر افسوس ہے جو میں نے خدا کی عظمت کے احساس میں بسر نہیں کیا۔‘‘

میری بات سن کر صالح نے کہا:

’’یہ غیب اور حضور کا فرق ہے۔ دنیا میں خدا غیب میں ہوا کرتا تھا۔ آج پہلا موقع تھا کہ خدا نے غیب کا پردہ اٹھاکر انسان کو مخاطب کیا تھا۔ تم نصیبے والے ہو کہ تم نے غیب میں رہ کر خدا کی عظمت کو دریافت کرلیا اور خود کو اس کے سامنے بے وقعت کردیا تھا۔ اسی لیے آج تم پر اللہ کا خصوصی کرم ہے۔‘‘

’’مگر یہ بے ہوش کیوں ہوئے تھے؟‘‘، ناعمہ نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے پوچھا۔

’’دراصل ہوا یہ تھا کہ ہم عرش کے بائیں طرف مجرموں کے حصے میں کھڑے تھے۔ اُسی وقت فرشتوں کا نزول شروع ہوگیا اور حساب کتاب کا آغاز ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ غضب کے عالم میں گفتگو شروع کی تھی اور اس ناراضی کا اصل رخ بائیں ہاتھ والوں کی طرف ہی تھا، اس لیے سب سے زیادہ اس کا اثر اسی بائیں طرف ہورہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے کبھی مغلوب نہیں ہوتے، اس لیے اس غضب میں ہونے کے باوجود بھی انہیں احساس تھا کہ اس وقت ان کا ایک محبوب بندہ الٹے ہاتھ کی طرف موجود ہے۔ اس لیے انہوں نے عبد اللہ کو بے ہوش کردیا۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو عبد اللہ کو اس قہر و غضب کا سامنا کرنا پڑجاتا جو بائیں جانب والوں پر اس وقت ہورہا تھا۔‘‘

صالح کی بات سن کر بے اختیار میری آنکھوں سے اپنے رب کریم کے لیے احسان مندی کے آنسو جاری ہوگئے۔ میں بستر سے اترا اور سجدے میں گرگیا۔ میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلنے لگے:

’’معبود تو نے مجھے کب کب یاد نہیں رکھا۔ ماں کے پیٹ سے آج کے دن تک تیری کسی مصروفیت نے تجھے مجھ سے غافل نہیں کیا اور میں؟ میں نے کبھی تیری کریم ہستی کی قدر نہ کی۔ میں نے کبھی تیرے کسی احسان کا شکر ادا نہ کیا۔ میں نے کبھی تیری بندگی کا حق ادا نہ کیا۔ تو پاک ہے۔ تو بلند ہے۔ ہر حمد تیرے ہی لیے ہے اور ہر شکر تیرا ہی ہے۔ مجھے معاف کردے اور اپنی رحمتوں کے سائے میں لے لے۔ اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا، میں برباد ہوجاؤں گا۔‘‘

میں دیر تک یہی دعا مانگتا رہا۔ ناعمہ نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہا:

’’اب آپ اٹھیے۔ آپ نے تو عمر بھر اللہ کی مرضی اور پسند کی زندگی گزاری ہے۔ میں آپ کو جانتی ہوں۔‘‘

ناعمہ کی بات سن کر میں خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اسے دیکھتے ہوئے بولا:

’’تم ابھی خدا کے احسانوں اور اس کی عظمت کو نہیں جانتیں۔ ۔ ۔ وگرنہ کبھی یہ الفاظ نہ کہتیں۔‘‘

’’عبد اللہ ٹھیک کہہ رہا ہے ناعمہ۔‘‘، صالح نے میری تائید کرتے ہوئے کہا۔

’’انسان کا بڑے سے بڑا عمل بھی خدا کی چھوٹی سے چھوٹی عنایت کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ خدا عبد اللہ سے زبان چھین لیتا تو یہ ایک لفظ نہیں بول سکتا تھا۔ ہاتھ چھین لیتا تو لکھ نہیں سکتا تھا۔ ہر نعمت اور ہر توفیق اسی کی تھی۔ انسان کچھ بھی نہیں۔ سب کچھ خدا ہے۔‘‘

’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں نے اس پہلو سے غور نہیں کیا تھا۔‘‘، ناعمہ نے اعتراف میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’اب ہمیں کہاں جانا ہے؟‘‘، میں نے صالح سے دریافت کیا۔

’’حساب کتاب شروع ہوچکا ہے۔ تمھیں وہاں پہنچنا ہوگا۔ لیکن پہلے ایک اچھی خبر سنو۔‘‘

’’وہ کیا ہے؟‘‘

’’جب حساب کتاب شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے امت مسلمہ کے حساب کا فیصلہ کیا ہے۔ اور جانتے ہو اس عمل میں تمھاری بیٹی لیلیٰ نجات پاگئی۔‘‘

’’کیا؟‘‘، میں حیرت اور خوشی کے مارے چلّا اٹھا۔

’’ہاں! صالح ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘، ناعمہ بولی۔

’’میں اس سے مل چکی ہوں۔ وہ اپنے باقی بھائی بہنوں کے ساتھ دوسرے خیمے میں موجود ہے۔ وہاں سب آپ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘

’’اور جمشید؟‘‘، میں نے صالح سے اپنے بڑے بیٹے کے متعلق پوچھا۔

جواب میں ایک سوگوار خاموشی چھاگئی۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔ میں نے کہا:

’’پھر میں واپس حشر کے میدان میں جانا پسند کروں گا۔ شاید کوئی راستہ نکل آئے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘، صالح بولا اور پھر میرا ہاتھ تھام کر خیمے سے باہر آگیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خیمے سے باہر آکر میرا پہلا سوال یہ تھا:

’’میں جمشید کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟‘‘

’’تم لیلیٰ کے لیے کچھ نہیں کرسکے تو جمشید کے لیے کیا کرسکو گے۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو بتاؤ گے کہ اسے کیا کرنا چاہیے؟‘‘

’’استغفرا للہ۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا۔‘‘، میں نے فوراًجواب دیا،مگر صالح کی بات پر جمشید کو بچانے کا میرا جوش ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ کچھ دیر توقف کے بعد میں نے دریافت کیا:

’’اچھا یہ بتاؤ کہ میرے بے ہوش ہونے کے بعد حشر کے میدان میں کیا ہوا؟‘‘

’’تم جب ہوش میں تھے تمھیں اس وقت بھی پوری طرح معلوم نہیں تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ اسے پوچھنا ہے تو کسی مجرم سے پوچھو۔ ادھر گروہ در گروہ فرشتے نازل ہورہے تھے اور ادھر مجرموں کی جان پر بن رہی تھی۔ پھر جس وقت سجدے میں جانے کا حکم ہوا تو سارے لوگ سجدے میں تھے اور یہ بدبخت اس وقت بھی خدا کے سامنے سینہ تانے کھڑے تھے۔‘‘

’’یہ ان کی کمر تختہ ہوجانے کا نتیجہ تھا؟‘‘

’’ہاں یہ ان کی سزا تھی۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا کہ میں بادشاہ ہوں۔ میرے سوا ور بادشاہ کہاں ہیں؟ اس وقت بھی یہی مجرم سینہ تانے اس کے سامنے کھڑے تھے۔ کاش! تم دیکھ سکتے کہ اس وقت ان مجرموں کے ساتھ کیا ہورہا تھا۔ ان کے دل کٹے جارہے تھے۔ کلیجے منہ کو آرہے تھے۔ آنکھیں خوف اور دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ مجرم بے بسی سے اپنی انگلیاں چبارہے تھے، مگر مجبور تھے کہ اس وقت بھی ساری کائنات کے بادشاہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہیں۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ظاہر ہے حساب کتاب تو فرداً فرداً ہونا تھا، لیکن اس موقع پر مجرموں کے سامنے ان کا انجام بالکل نمایاں کردیا گیا۔ وہ اس طرح کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا۔ جس کے بعد میدان حشر کے بائیں حصے کا ماحول انتہائی خوفناک ہوگیا۔ جہنم گویا جوش کے مارے ابلی جارہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجرموں کو دیکھ کر شدت غضب سے پھٹی جارہی ہو۔ اس کے دھاڑنے کی آوازیں دور دور تک سنی جارہی تھیں اور اس کے شعلے بے قابو ہوکر باہر نکلے جارہے تھے۔ یہ شعلے اتنے بڑے تھے کہ ان سے اٹھنے والی چنگاریاں بڑے بڑے محلات جتنی وسیع و عریض تھیں ۔ ان کے بلند ہونے سے آسمان پر گویا زرد اونٹوں کے رقص کا سماں بندھ گیا تھا۔ نہ پوچھو کہ یہ سب کچھ دیکھ کر لوگوں کی حالت کیا ہوگئی ۔ انہیں محسوس ہورہا تھا کہ اس سے قبل حشر کی جو سختیاں تھیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔‘‘

’’حساب کتاب کیسے شروع ہوا؟‘‘

’’سب سے پہلے حضرت آدم کو پکارا گیا جو پوری انسانیت کے باپ اور پہلے نبی تھے۔‘‘

انہوں نے عرض کیا:

’’لبیک و سعدیک۔ میں حاضر ہوں اور تیری خدمت میں مستعد ہوں اور سب بھلائیاں تیرے دونوں ہاتھوں میں ہیں۔‘‘

’’اپنی اولاد میں سے اہل جہنم کو الگ کرلو۔‘‘، حکم ہوا۔

’’کتنوں کو الگ کروں؟‘‘، انھوں نے دریافت کیا فرمایا گیا۔

’’ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔‘‘

’’تم اندازہ نہیں کرسکتے عبد اللہ ! یہ سن کر حشر کے میدان میں کیا کہرام مچ گیا تھا۔‘‘

’’لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جہنم کا فیصلہ کیوں ہوا؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔

’’یہ فیصلہ نہیں اس بات کا اظہار تھا کہ میدان حشر میں جو لوگ موجود ہیں، ان میں ہزار میں سے ایک ہی اس قابل ہے کہ جنت میں جاسکے۔ دراصل انسانیت مجموعی طور پر ایمان و اخلاق کے امتحان میں بری طرح فیل ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے عدل کے تحت اصولی طور پر اتنے ہی لوگ جہنم کے مستحق ہوچکے ہیں۔ مگر جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں بتادیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصے کیے جائیں تو اس کی رحمت کا صرف ایک حصہ دنیا میں ظاہر ہوا تھا اور باقی ننانوے حصے اس نے آج کے دن کے لیے روک رکھے تھے۔ چنانچہ اس کی رحمت کا ظہور ہوا اور اس نے ناکام لوگوں کی جہنم کا فیصلہ سنانے کے بجائے پہلے مرحلے پر ان لوگوں کو بلانے کا فیصلہ کیا جن کے کامیاب ہونے اور نجات پانے کے امکانات سب سے زیادہ تھے۔‘‘

’’یعنی مجموعی طور پر اچھے لوگ؟‘‘

’’ہاں۔ ہر امت کے ان لوگوں کو جن کی نجات بس ایک رسمی حساب کتاب کا تقاضا کرتی ہے۔ اس عمل کا آغاز امت مسلمہ سے شروع ہوچکا ہے پھر دیگر امتوں کا نمبر بھی جلد آجائے گا کیونکہ کل انسانی آبادی میں سے ایسے لوگ صرف ایک فیصد ہی ہیں۔ باقی لوگوں کا معاملہ وہ بعد میں دیکھیں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر حشر کی سختی کسی کے گناہوں کا بدل بن سکتی ہے تو بن جائے۔‘‘

یہ کہنے کے بعد صالح لمحہ بھر کو رکا اور پھر تأسف سے بولا:

’’ویسے میں دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ امکانات نہیں دیکھتا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘، میں نے پوچھا۔

’’اس کی وجہ شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک کے معاملے میں بہت غیرت مند ہیں۔ تم جانتے ہو کہ انسانیت کا ہر دور میں سب سے بڑا مسئلہ شرک ہی رہا ہے۔ اسی شرک کی وجہ سے آج سب سے زیادہ لوگ مارے جائیں گے۔ کیونکہ شرک کی معافی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہاں کسی کے حالات اور ماحول کا کوئی عذر ہوا تو خیر ہے وگرنہ شرک کرنے والے کسی شخص کے لیے آج نجات کی معمولی سی بھی کوئی امید نہیں ہے۔‘‘

’’چاہے وہ مسلمان ہوں؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔

’’ہاں۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔

’’شرک جہنم کی آگ کا شعلہ تھا۔ آج یہ لازماً ہر اس شخص کو جلائے گا جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو اس کی ذات، صفات یا حقوق و اختیارات میں شریک ٹھہرایا تھا۔ غیر اللہ کی عبادت کی تھی۔ اس سے دعا مانگی تھی۔ اس کو سجدہ کیا تھا۔ اس کو خدا کا شریک سمجھا تھا اور صفات و اختیاراتِ الٰہی میں حصہ دار ٹھہرایا تھا۔‘‘

’’اللہ اکبر، لاالٰہ الاللہ!‘‘، بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘، میں نے چلتے چلتے صالح سے پوچھا۔

’’وہ کیا؟‘‘

’’وہ یہ کہ اولین سے آخرین تک مسلمانوں کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں میں تھی۔ تو پھر لیلیٰ کا نمبر بالکل ابتدا ہی میں کیسے آگیا؟‘‘

’’تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ شناختی کارڈ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں؟‘‘

’’میں سمجھا نہیں کہ تمھاری اس بات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

’’مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت نے اپنے لیے مسلمان ہونے کی شناخت پسند ہی نہیں کی۔ بیشتر لوگوں کے لیے ان کا اپنا فرقہ، اپنے اکابرین اور اپنا مسلک ہی اصل شناخت بنا رہا۔ چنانچہ آج کے دن جب امت مسلمہ کا حساب کتاب شروع ہوا تو پہلے پہل صرف ان لوگوں کو بلایا گیا جو صدق دل کے ساتھ توحید کے ماننے والے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی نسبت کرنے والے، ہر طرح کی بدعتوں اور انحراف سے اپنے دین کو محفوظ رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کبھی حق کے معاملے میں اپنے تعصبات اور وابستگیوں کو اہمیت نہیں دی۔ جب کبھی حق سامنے آیا انھوں نے کھلے دل سے اسے قبول کیا۔ ایسے لوگوں میں عرش کے سائے تلے کھڑے صالحین بھی شامل تھے اور وہ لوگ بھی جن کے اچھے اعمال کے ساتھ برے رویے بھی ملے ہوئے تھے اور اسی بنا پر وہ میدان حشر میں کھڑے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریم نے ان کے برے اعمال کو نظر انداز کردیا اور نیک اعمال کی بنا پر نجات کا پروانہ ان کے ہاتھ میں تھمادیا۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لیے تمھاری بیٹی لیلیٰ کا نمبر جلدی آگیا۔ وہ کم از کم اس معاملے میں بالکل پکی نکلی تھی۔ جو اس کی عملی کمزوریاں تھی وہ حشر کی سختی جھیلنے کی بنا پر قابل مؤاخذہ قرار نہیں پائیں۔ بلکہ ربِّ کریم نے کمالِ عنایت سے اسے بھی تمھارے ساتھ کردیا، حالانکہ اس کے عمل تمھارے جیسے نہیں تھے۔‘‘

’’مگر میرا حساب کتاب اور فیصلہ تو ابھی ہوا نہیں۔‘‘

’’تم اس وقت جہاں ہو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ البتہ اعلان ابھی نہیں ہوا۔ اور بے فکر رہو، حشر کے دن کے اختتام پر سب سے آخر میں ہوگا۔‘‘

’’ایسا کیوں؟‘‘، میں نے دریافت کیا تو صالح نے وضاحت کی:

’’میں نے پہلے تمھیں بتایا تھا کہ چار قسم کے لوگ ہیں جن کی نجات کا فیصلہ موت کے وقت ہی ہوجاتا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔‘‘

میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:

’’ان میں سے انبیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جن کا اصل کارنامہ عام لوگوں پر دینِ حق کی شہادت دینا اور توحید و آخرت کی طرف لوگوں کو بلانا ہے۔ آج قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کے افراد اپنی اس شہادت کی روداد اللہ کے حضور پیش کریں گے جو انہوں نے دنیا میں لوگوں پر دی تھی۔ اس طرح لوگوں کے پاس یہ عذر نہیں رہ جائے گا کہ حق اور سچائی انہیں معلوم نہیں ہوسکی۔ کیونکہ یہ انبیا اور شہدا سچائی کو کھول کھول کر بیان کرتے رہے تھے۔

چنانچہ اس شہادت کی بنیاد پر لوگوں کا احتساب ہوگا اور ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ یہ فیصلے ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ سارے انسان نمٹ جائیںگے اور آخر میں تمھارے جیسے سارے شہدا کو بلاکر ان کی کامیابی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر کہیں جاکر لوگوں کو جنت اور جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا۔‘‘

’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ فوراً جنت یا جہنم میں نہیں جائیں گے۔‘‘

’’نہیں فوراً نہیں جائیں گے۔ بلکہ ایک ایک شخص کا حساب کتاب ہوتا جائے گا۔ اگر وہ کامیاب ہے تو سیدھے ہاتھ کی طرف عزت و آسائش میں اور ناکام ہے تو الٹے ہاتھ کی طرف ذلت اور عذاب میں کھڑا کردیا جائے گا۔ جب سب لوگوں کا حساب کتاب ہوجائے گا تو پھر لوگ گروہ در گروہ جنت اور جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔‘‘

’’اور سب سے پہلے؟‘‘

’’سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کا دروازہ کھلوائیں گے اور پھر اہل جنت زبردست استقبال اور سلام و خیر مقدم کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

’’اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟‘‘

’’اس وقت حضور حوضِ کوثر کے پاس ہیں۔ آپ کی امت میں سے جس کسی کا حساب کتاب ہوجاتا ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے تو اسے پہلے حضور کے پاس لایا جاتا ہے جہاں جامِ کوثر سے اس کی تواضع ہوتی ہے۔ جس کے بعد وہ نہ صرف حشر کی ساری سختی اور پیاس بھول جاتا ہے بلکہ آئندہ پھر کبھی پیاسا نہیں ہوتا۔ ویسے تمھیں جام کوثر یاد ہوگا؟‘‘

’’کیوں نہیں؟‘‘، میں نے جواب دیا۔

صالح کی باتیں سن کر میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا اشیاق پیدا ہوگیا۔ میں نے صالح سے کہا:

’’کیوں نہ ہم پہلے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجائیں۔‘‘

ابھی میری زبان سے یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ ایک صدا بلند ہوئی:

’’امتِ محمدیہ کے کامیاب لوگوں کا حساب مکمل ہوگیا ہے۔ اب امت عیسوی کا حساب شروع ہورہا ہے۔ عیسیٰ ابن مریم، مسیح علیہ السلام، اللہ کے رسول اور بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر پروردگار عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔‘‘

میں نے سوالیہ نظروں سے صالح کو دیکھا تو اس نے کہا:

’’اب حضرت عیسیٰ اپنی قوم پر گواہی دیں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں اپنی تعلیمات کا خلاصہ پیش کریں گے۔ یہ اپنی قوم کے مجرمین کے خلاف ان کی شہادت ہوگی اور صحیح عقیدے اور عمل والوں کے حق میں یہ ایک نوعیت کی شفاعت بن جائے گی۔ اس کے بعد ان کی امت میں سے جن لوگوں کے عقیدے بالکل اس تعلیم کے مطابق ہوئے، ان کی غلطیاں اللہ تعالیٰ نظر انداز کردیں گے اور سرسری حساب کتاب کے بعد وہ سب کامیاب قرار پائیں گے۔‘‘

’’کیا یہی کچھ مسلمانوں کے معاملے میں ہوا تھا؟‘‘

’’ہاں سب سے پہلے نبی آخر الزماں کو بلایا گیا تھا اور انھوں نے گواہی دی تھی۔ یہ گواہی آپ کا انکار کرنے اور آپ کی نافرمانی کرنے والوں کے خلاف ایک شہادت بن گئی۔ کاش تم وہ منظر دیکھ لیتے جب ان میں سے ہر شخص کی خواہش یہ ہوگئی تھی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے۔ البتہ یہ شہادت لیلیٰ جیسے لوگوں کے حق میں شفاعت بن گئی۔ گرچہ نجات کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کا ایمان و عمل مجموعی طور پر حضور کی شہادت کے مطابق تھا۔‘‘

’’اس کا مطلب ہے کہ ابھی امت مسلمہ کے صرف ان لوگوں کو نجات ملی ہے جن کا عقیدہ و عمل حضور کی تعلیمات کے مطابق تھا؟‘‘

’’ہاں ان کی غلطیاں نظر انداز کردی گئیں۔ اور یہی دیگر انبیا کی امتوں کے ساتھ ہوگا۔ انبیا کی امتوں کے ان لوگوں کو نجات مل جائے گی جن کا عقیدہ و عمل مجموعی طور پراپنے نبی کی تعلیمات کے مطابق تھا۔ اس کے بعد میدان حشر میں صرف مجرم اور نافرمان ہی فیصلے کے منتظر رہ جائیں گے۔‘‘

’’پھر کیا ہوگا؟‘‘

’’اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہوگا۔‘‘

’’عمومی حساب کتاب؟‘‘، میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا توصالح نے کہا:

’’تمام امتوں کے حساب کتاب کا پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں صالحین کی کامیابی کا اعلان ہورہا ہے اور لیلیٰ جیسے لوگوں کو رسمی حساب کتاب کے بعد فارغ کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہوگا جس میں اعمال کی پوری جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ ہوگا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں سارے مجرمین زد میں آجائیں گے۔ البتہ اہل ایمان میں سے بہت سے لوگ اپنے گناہوں کے باوجود اللہ کی رحمت کی بنا پر نجات پائیں گے اور ان کی میزان کا دایاں پلڑا بھاری ہوجائے گا۔ ان کا میدان حشر میں خوار و خراب ہونا ان کی معافی کا بہانہ بن جائے گا۔ اسی کو میں عمومی حساب کتاب کہہ رہا ہوں۔

البتہ کچھ لوگ ہوں گے جن کو آخری وقت تک کے لیے روک دیا جائے گا اور حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جائے گا۔ یہ وہ مؤمن ہوں گے جن پر گناہوں کا بوجھ بہت زیادہ ہوگا۔ ان لوگوں کے لیے انتظار کا یہ انتہائی طویل وقت ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں سال تک چلتا چلا جائے گا جس میں انہیں بدترین سختیاں، مصیبت اور پریشانی جھیلنا ہوگی۔ پھر کہیں جاکر ان کی نجات کا کوئی امکان پیدا ہوگا۔‘‘

’’وہ امکان کیا ہوگا؟‘‘

’’وہ امکان اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا ظہور ہے کہ وہ اپنے عدل کے مطابق لوگوں کو مکمل سزا دینے کے بجائے حشر کی سزا کو ان کے گناہوں کا کفارہ بنادے گا اور اس کے بعد ان کی معافی کا سبب اپنے نبیوں اور خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درخواست کو بنادے گا کہ ان کا حساب کتاب بھی کرہی دیا جائے۔‘‘

’’مگر حشر کی اتنی تکلیف اٹھانا اور پھر نجات پانا تو کوئی اچھا طریقہ نہیں ہوا۔‘‘، میں نے تأسف بھرے لہجے میں پوچھا تو صالح نے جواب میں کہا:

’’اچھا طریقہ بتانے ہی تو انبیاے کرام آئے تھے کہ ایمان لاؤ، عمل صالح کرو اور کوئی غلطی ہوجائے تو معافی مانگ لو۔ نجات کا سب سے سادہ اور آسان نسخہ یہی تھا، مگر نبیوں کی بات کسی نے سنی ہی نہیں اور اس کا نتیجہ آج بھگت لیا۔‘‘

میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا:

’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ یہ تو بڑی خرابی اور خواری کے بعد معافی ہوئی۔ میں تو لیلیٰ کی پریشانی نہیں دیکھ سکا تھا جو ابتدا ہی میں نجات پاگئی تو ان لوگوں کا کیا ہوگا جو آخر تک انتظار کرتے رہیں گے اور حشر کی سختیاں اور مصائب برداشت کرتے رہیں گے۔‘‘

’’میرے بھائی تم نے لیلیٰ کو جن حالات میں دیکھا تھا وہ تو بہت اچھے تھے۔ لیکن اب میدان حشر کا ماحول بہت بھیانک ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا ہے۔ جس کے بعد صرف حشر کی گرمی ہی نہیں بلکہ جہنم کا نظارہ اور اس میں جانے کا امکان بھی لوگوں کو مارے ڈال رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا غضب مجرموں پر بھڑک رہا ہے۔ لوگ اپنے سامنے تباہی اور رسوائی کے دروازے کھلے دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب اتنا ہولناک ہے کہ انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ اس لیے اس وقت تم اہل محشر کے خوف اور ان کے ذہنی و جسمانی عذاب اور نفسیاتی اذیت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔‘‘

میں دل میں سوچنے لگا کہ کیا یہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے سے لوگ نجات کی آس لگائے بیٹھے تھے؟ کاش لوگ دنیا ہی میں سمجھ لیتے کہ نجات کا انحصار ایمان اور عمل صالح پر ہوگا۔ حضور نے ساری عمر اسی کی دعوت دی تھی۔ مگر لوگوں کی خوش فہمیوں کا کیا کیجیے۔ حضور کی اصل دعوت کو انہوں نے پیچھے پھینک دیا اور اپنے گمانوں کی جھوٹی دنیا آباد کرلی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کچھ نہ بھی کریں شفاعت انہیں بخشوادے گی۔ مگر آج یہ بالکل واضح ہوچکا ہے کہ نجات ایمان اور عمل صالح پر ملے گی۔ ہر وہ بڑا گناہ جس کی توبہ نہیں کی، اس کی سزا آج حشر کی سختی اور جہنم کے بھیانک سائے تلے بھگتنا پڑے گی۔ اے کاش کہ لوگوں کو یہ بات آج سمجھ آنے کے بجائے دنیا ہی میں سمجھ آجاتی تو ان کی ساری زندگی توبہ کرتے گزرتی۔

میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ صالح نے مجھے دیکھ کر کہا:

’’میرا خیال ہے کہ حوض کوثر پر جانے سے قبل حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھ لیتے ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں گے۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم ایک دفعہ پھر میدان حشر میں آچکے تھے۔ مگر اس دفعہ ہم عرش الٰہی کے دائیں طرف کھڑے تھے۔ عرش الٰہی کی تجلیات سے زمین و آسمان منور تھے۔ کامیاب لوگوں کے لیے یہ تجلیات مسرت و شادمانی کا پیام تھیں جبکہ مجرموں پر یہ قہر بن کر نازل ہورہی تھیں۔ عرش الٰہی کے چاروں طرف فرشتے ہاتھ باندھے حلقہ در حلقہ کھڑے تھے۔ سب سے پہلے حاملین عرش تھے اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دیگر فرشتے۔ ان فرشتوں کی زبان پر حمد، تسبیح اور تکبیر و ثنا کے کلمات تھے۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوچکے تھے۔ جبکہ اول سے آخر تک سارے عیسائیوں کو میدان حشر میں موجود فرشتوں نے دھکیل کر عرش کے قریب کردیا تھا۔ ارشاد ہوا:

’’عیسی ابن مریم قریب آؤ۔‘‘

فرشتوں نے سیدنا عیسیٰ کے لیے راستہ چھوڑ دیا اور وہ چلتے ہوئے عرش الٰہی کے بالکل قریب آکھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ارشاد ہوا:

’’عیسیٰ تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچادیا تھا؟ تمھیں کیا جواب ملا؟‘‘

’’مالک مجھے کچھ علم نہیں۔ غیب کا علم تو صرف تجھے ہے۔‘‘

ان کی یہ بات اس حقیقت کا بیان تھی کہ حضرت عیسیٰ معلوم نہ تھا کہ ان کی امت نے ان کے بعد دنیا میں کیا کیا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے اس جواب پر میدان حشر میں ایک خاموشی چھاگئی۔ کچھ لمحے بعد آسمان پر ایک دھماکہ ہوا۔ تمام نظریں آسمان کی طرف بلند ہوگئیں۔ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ اس فلم میںعیسائی حضرت عیسی اور حضرت مریم کے مجسموں کے سامنے سر ٹیک رہے تھے۔ بازاروں میں صلیب پکڑے لوگ جلوس نکال رہے تھے۔گرجوں میں مسیح و مریم کی پرستش ہوہی تھی۔ مسیح کو مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد مانگی جارہی تھی ۔ان کی تعریف کے نغمے گائے جارہے تھے۔پادری تقریروں میںانھیں خدا کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے۔

میں یہ مناظر دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا کہ عیسائیوں نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے شرک کو جنم دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ کو توحید ہی کی دعوت دے کر بھیجا تھا۔ ان کے زمانے میں یہودیوں نے شریعت موسوی میں طرح طرح کی فقہی موشگافیاں کرکے اس پر عمل کو بہت مشکل بنادیا تھا۔ ان لوگوں نے خدا اور بندے کے ایمانی اور محبت آمیز تعلق کو ایک بے روح قانونی تعلق میں بدل دیا تھا۔ چنانچہ وہ چند ظاہری اور معمولی اعمال پر تو خوب زور دیتے مگر ایمان و عمل صالح سے متعلق تمام اخلاقی احکام کے معاملے میں ان پر غفلت طاری تھی۔ ایسے میں ان کی طرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ آپ نے بڑی شدت سے بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور اخلاقی دیوالیے پن پر تنقید کی۔ اپنے زمانے کے مذہبی لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا:

’’اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو، تمہیں زیادہ سزا ہوگی۔ ۔ ۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دہ یکی (یعنی عشر: پیداوار کی زکوٰۃ) دیتے ہوپر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والوں جو مچھر کو تو چھانتے ہوا ور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی پہلے پیالی اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راستباز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں بے دینی اور ریاکاری سے بھرے ہو۔‘‘

آپ کی اس تنقید پر یہودی آپ کے سخت دشمن ہوگئے اور یہاں تک کہ وہ آپ کے قتل پر آمادہ ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے مکر سے بچاکراپنی طرف اٹھالیا۔ بدقسمتی سے مسیح کے بعد سینٹ پال نامی آپ کے ایک کٹر یہودی دشمن نے آپ کی پیروی کا لبادہ پہن کر آپ کی پوری تعلیمات کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ ایک طرف اس نے اعلان کیا کہ شریعت کی پابندی صرف یہودیوں کے لیے ضروری ہے، دیگر لوگوں کے لیے نہیں۔ دوسری طرف اس نے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو الوہیت کے مقام پر فائز کردیا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مشرکانہ مذہب بن گیا۔ عیسائی مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھتے، مشکل کشا سمجھ کر ہر مصیبت میں ان کا نام لیتے۔ مگر یہ ایک جھوٹ تھا جس کا جھوٹ ہونا آج بالکل کھل گیا ہے۔

میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میدان حشر میں عیسائیوں کے رونے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ عیسائیوں کو اپنے کرتوت صاف نظر آگئے تھے اور ان کا بھیانک انجام جہنم کی شکل میں منہ کھولے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ یکایک بہت سے مسیحی چلانے لگے:

’’خداوند ہم نے مسیح کی تعلیمات پر عمل کیا تھا۔ تو نے اپنے مسیح کو ہماری طرف بھیجا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ تیرا بیٹا ہے جسے تو نے ہماری نجات کے لیے بھیجا ہے۔‘‘

ایک تیز ڈانٹ فضا میں بلند ہوئی اور سب لوگ ٹھٹک کر خاموش ہوگئے۔ مسیح سے پوچھا گیا:

’’عیسیٰ! کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود بنالو۔‘‘

گرچہ یہ ایک سادہ سا سوال تھا، مگر یہ سنتے ہی حضرت عیسیٰ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ ان کے پاؤں کے لیے ان کا بوجھ اٹھانا مشکل ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’عیسیٰ تم میرے محبوب پیغمبر ہو۔ میرے پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے۔ اطمینان سے میری بات کا جواب دو۔‘‘

اس جملے کے ساتھ ہی دو فرشتے حضرت عیسیٰ کے قریب آئے اور انہیں سہارا دے کر ایک نشست پر بٹھادیا۔

یہ منظر انتہائی عبرتناک تھا۔ سیدنا عیسیٰ خدا کے ایک انتہائی عزیز اور محبوب پیغمبر تھے، مگر بدقسمتی سے وہی انسانی تاریخ کی ایسی ہستی بن گئے جنھیں سب سے بڑے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا گیا۔ ان سے دعا و مناجات کی جاتی، ان کی حمد و تعریف کی جاتی، ان کی عبادت و پرستش کی جاتی۔ مگر آج اللہ تعالیٰ کے ایک سوال پر ان کی جو حالت ہوگئی تھی وہ ان کو خدا سمجھنے والوں کو خون کے آنسو رلانے کے لیے بہت تھی۔ آج سب نے جان لیا تھا کہ خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

میں نے دل میں سوچا کہ ایک ایک کرکے خدا کے ایسے ہی دیگر صالح بندے آئیں گے جنھیں دنیا میں لوگ ایسے ناموں اور صفات سے پکارتے تھے جو صرف خدا کو زیب دیتی ہیں، مگر آج ان میں سے ہر شخص انکار کردے گا کہ ہم نے لوگوں سے اس نوعیت کی کوئی بات کہی تھی۔ ہر ایک کا حال یہ ہوگا کہ مسیح کی طرح کسی میں بھی خدا کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہوگی۔ کاش ان کے نام پر دھوکہ کھانے والے لوگ خدا کی یہ عظمت پہلے ہی دریافت کرلیتے۔ کاش لوگ انسانوں کو خد اکے مقابلے میں نہ لے کر آتے۔ اس دوران میں حضرت عیسیٰ پر سے خشیت الٰہی کا غلبہ کچھ کم ہوا تو وہ کرسی سے کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے:

’’آقا تو پاک ہے! میرے لیے کیسے روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو تو اسے جانتا ہوتا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا رب بھی۔ اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگران رہا۔ اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

یہ سن کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’آج صرف سچائی اپنے اختیار کرنے والے سچے لوگوں کو فائدہ دے سکے گی۔‘‘

پھر حضرت عیسیٰ کو رخصت کردیا گیا اور فرشتوں کو حکم ہوا:

’’عیسیٰ کی امت میں سے جس کسی کا علم اور عمل عیسیٰ کے پیغام کے مطابق ہے، اسے ہمارے حضور پیش کیا جائے۔‘‘ ۔۔۔۔