چوتھا باب: ناعمہ
ہم چلتے چلتے اس دروازے کے قریب آگئے جہاں سے حشر کا راستہ تھا۔ میں نے صالح سے دریافت کیا:
’’کیا اب ہمیں واپس میدان حشر جانا ہوگا؟‘‘
’’کیوں کیا وہاں جانے کا شوق ختم ہوگیا؟‘‘، اس نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔
’’نہیں ایسی بات نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہاں آگیا ہوں تو اپنے گھر والوں سے مل لوں۔ جب ہم شروع میں یہاں آئے تھے تو تم مجھے براہ راست اوپر لے گئے تھے۔ اب تو میرے گھر والے امت محمدیہ کے کیمپ میں پہنچ چکے ہوں گے؟‘‘
’’تم انسان اپنے جذبوں کو تہذیب کے لفافے میں ڈال کر دوسروں تک منتقل کرنے کے عادی ہوتے ہو۔ کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ اپنی گھر والی کے پاس جانا چاہتے ہو۔ یہ بار بار گھر والوں کے الفاظ کیوں بول رہے ہو؟‘‘
صالح نے میری بات پرہنستے ہوئے تبصرہ کیاتو میں جھینپ گیا۔ پھروہ مسکراکر بولا:
’’شرماؤ نہیں یار۔ ہم وہیں چلتے ہیں۔ یہ خادم تمھاری ہر خواہش پوری کرنے پر مامور ہے۔‘‘
ہم جس دنیا میں تھے وہاں راستے، وقت اور مقامات سب کے معنی اور مفہوم بالکل بدل چکے تھے۔ اس لیے صالح کا جملہ ختم ہونے کے ساتھ ہی ہم اسی پہاڑ کے قریب پہنچ گئے جس کے اردگرد تمام نبیوں اور ان کی امتوں کے کیمپ لگے ہوئے تھے۔
’’شاید میں نے تمھیں پہلی دفعہ یہاں آتے وقت یہ بتایا تھا کہ اس پہاڑ کا نام ’اعراف‘ ہے۔ اسی کی بلندی پر تم گئے تھے۔ اور یہ دیکھو امتِ محمدیہ کا کیمپ قریب آگیا ہے۔‘‘
ہم پہاڑ کے جس حصے میں تھے وہاں اس کا دامن بہت دراز تھا۔ ا س لیے وہاں بہت گنجائش تھی، مگر وہ پورا مقام اس وقت ان گنت لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ پہاڑ کے اردگرد اس قدر رش شاید کسی اور جگہ نہیں تھا۔
میں نے صالح سے مخاطب ہوکر کہا:
’’لگتا ہے سارے مسلمان یہاں آگئے ہیں۔‘‘
’’نہیں بہت کم آئے ہیں۔ امت محمدیہ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس لیے اس کے مقربین اور صالحین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ وگرنہ بیشتر مسلمان تو ابھی میدان حشر ہی میں پریشان گھوم رہے ہیں۔‘‘
’’تو میرے زمانے کے مسلمان بھی یہاں ہوں گے۔‘‘
’’بدقسمتی سے تمھارے معاصرین میں سے بہت کم لوگ یہاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ابتدائی حصے کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ آخری زمانے کے البتہ کم ہی لوگ یہاں آسکے ہیں۔ تمھارے زمانے میں تو زیادہ تر مسلمان دنیا پرست تھے یا فرقہ پرست۔ یہ دونوں طرح کے لوگ فی الوقت میدان حشرکی سیر کررہے ہیں۔ اس لیے تمھارے جاننے والے یہاں کم ہوں گے۔ جو ہوں گے ان سے تم جنت میں داخلے کے بعد دربار میں مل لینا۔ یہاں تو ہم صرف تمھارے ’گھر والوں‘ سے ملا کر تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کریں گے اور فوراً واپس لوٹیں گے۔ خبر نہیں کس وقت حساب کتاب شروع ہوجائے۔‘‘
’’یہ دربار کیا ہے؟‘‘
صالح کی گفتگو میں جو چیز ناقابل فہم تھی میں نے اس کے بارے میں دریافت کیا۔
’’حساب کتاب کے بعدجب تمام اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک نشست ہوگی۔ اس کا نام دربار ہے۔ اس نشست میں تمام اہل جنت کو ان کے مناصب اور مقامات رسمی طور پر تفویض کیے جائیں گے۔ یہ لوگوں کی ان کے رب کے ساتھ ملاقات بھی ہوگی اور مقربین کی عزت افزائی کا موقع بھی ہوگا۔‘‘
میں اس سے مزید کچھ اور دریافت کرنا چاہتا تھا، مگر گفتگو کرتے ہوئے ہم کیمپ کے کافی نزدیک پہنچ چکے تھے۔ یہ خیموں پر مشتمل ایک وسیع و عریض بستی تھی۔ اس بستی میں لوگوں کے کیمپ مختلف زمانوں کے اعتبار سے تقسیم تھے۔ بعض خیموں کے باہر کھڑے ان کے مالکان آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ یہیں مجھے اپنے بہت سے ساتھی اور رفقا نظر آئے جنہو ں نے دین کی دعوت میں میرا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ان کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جوانیاں، اپنے کیرئیر، اپنے خاندان اور اپنی خواہشات کو کبھی سر پر سوار نہیں ہونے دیا تھا۔ ان سب کو ایک حد تک رکھ کر اپنا باقی وقت، صلاحیت، پیسہ اور جذبہ خدا کے دین کے لیے وقف کردیا تھا۔ اسی کا بدلہ تھا کہ آج یہ لوگ اس ابدی کامیابی کو سب سے پہلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا وعدہ دنیا میں ان سے کیا گیا تھا۔
یہیں ہمیں امت مسلمہ کی تاریخ کی بہت سی معروف ہستیاں نظر آئیں۔ ہم جہاں سے گزرتے لوگوں کو سلام کرتے جاتے۔ ہر شخص نے ہمیں اپنے خیمے میں آکر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کی دعوت دی، جسے صالح شکریہ کے ساتھ رد کرتا چلا گیا۔ البتہ میں نے ہر شخص سے بعد میں ملنے کا وعدہ کیا۔
راستے میں صالح کہنے لگا:
’’ان میں سے ہر شخص اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھا جائے۔ تم اچھا کررہے ہو کہ ان سے ابھی ملاقات طے کررہے ہو۔ ان میں سے بہت سے لوگوں سے بعد میں وقت لینا بھی آسان نہیں ہوگا۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور محبت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولا:
’’وقت لینا تو تم سے بھی آسان نہیں ہوگا عبداللہ! تمھیں ابھی پوری طرح اندازہ نہیں۔ اس نئی دنیا میں تم خود ایک بہت بڑی حیثیت کے مالک ہوگے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم پروردگار عالم کے معیار پر ہمیشہ سے ایک بہت بڑی حیثیت کے آدمی تھے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے صالح رکا اور مجھے گلے لگالیا ۔ پھر آہستگی سے وہ میرے کان میں بولا:
’’عبد اللہ! تمھارے ساتھ رہنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔‘‘
میں نے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف بلند کیں اور دھیرے سے جواب دیا:
’’اعزاز کی بات تو خدا کی بندگی کرنا ہے۔ اس کے بندوں کو بندگی کی دعوت دینا ہے۔ یہ میرا اعزاز ہے کہ خدا نے ریت کے ایک بے وقعت ذرے کو اس خدمت کا موقع دیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے احسان مندی کے جذبات سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
’’ہاں یہی بات ٹھیک ہے۔ خدا ہی ہے جو ذرۂ ریگ کو طلوع آفتاب دیتا ہے۔ تم سورج کی طرح اگر چمکے تو یہ خدا کی عنایت تھی۔ مگر یہ عنایت خدا پرستوں پر ہوتی ہے، سرکشوں، مفسدوں اور غافلوں پر نہیں۔‘‘
ہم ایک دفعہ پھر چلنے لگے اور چلتے چلتے ہم ایک بہت خوبصورت اور نفیس خیمے کے پاس پہنچ گئے۔ میرے دل کی دھڑکن کچھ تیز ہوگئی۔ صالح میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:
’’ناعمہ نام ہے تمھاری بیوی کا؟‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔ صالح نے انگلی سے اشارہ کرکے کہا:
’’یہ والا خیمہ ہے۔‘‘
’’کیا اسے معلوم ہے کہ میں یہاں آرہا ہوں؟‘‘، میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔ پھر ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا:
’’یہ ہے تمھاری منزل۔‘‘
میں ہولے ہولے چلتا ہوا خیمے کے قریب پہنچا اور سلام کرکے اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اندر سے ایک آواز آئی جسے سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز تر ہوگئی۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’عبدا للہ۔ ۔ ۔ ‘‘
میری زبان سے عبد اللہ کا نام نکلتے ہی پردہ اٹھا اور ساری دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔ اگر روشنی تھی تو صرف اسی ایک چہرے میں جو میرے سامنے تھا۔ وقت، زمانہ، صدیاں اور لمحے سب اپنی جگہ ٹھہرگئے۔ میں خاموش کھڑا ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا رہا۔ ناعمہ کا مطلب روشن ہوتا ہے۔ مگر روشنی کا مطلب یہ ہوتا ہے یہ مجھے آج پہلی دفعہ معلوم ہوا تھا۔
ہم جب آخری دفعہ ملے تھے تو زندگی بھر کا ساتھ بڑھاپے کی رفاقت میں ڈھل چکا تھا۔ جب محبت؛ حسن اور جوانی کی محتاج نہیں رہتی۔ مگر ناعمہ نے اپنی جوانی کے تمام ارمانوں اور خوابوں کو میری نذر کردیا تھا۔ اس نے جوانی کے دنوں میں بھی اس وقت میرا ساتھ دیا تھا جب میں نے آسان زندگی چھوڑ کر اپنے لیے کانٹوں بھرے راستے چن لیے تھے۔ اس کے بعد بھی زندگی کے ہر سرد و گرم اور اچھے برے حال میں اس نے پوری طاقت سے میرا ساتھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ موت ہم دونوں کے بیچ حائل ہوگئی۔ مگر آج موت کا یہ عارضی پردہ اٹھا تو میرے سامنے چاند کا نور، تاروں کی چمک، سورج کی روشنی، پھولوں کی مہک، کلیوں کی نازکی، شبنم کی تازگی، صبح کا اجالا اور شام کی شفق سب ایک ساتھ ایک ہی چہرے میں جلوہ گر ہوگئے تھے۔ برسوں کی اس رفاقت کو میں چند لمحوں میں سمیٹ کر دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ ناعمہ کی آنکھوں میں نمی آگئی تھی جو اس کے رخساروں پر بہنے لگی۔ میں نے ہاتھ بڑھاکر اس کے رخساروں سے نمی پونچھی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا:
’’میں نے کہا تھا نا۔ تھوڑا سا انتظار تھوڑا سا صبر۔ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے۔‘‘
’’میں نے کب آپ کی بات کا یقین نہیںکیا تھا۔ اور اب تو میرا یقین حقیقت میں بدل چکا ہے۔۔ مجھے تو بس ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر گئے تھے اور پھر آگئے۔ ہم نے تھوڑا سا صبر کیا اور بہت بڑی جنگ جیت لی۔‘‘
’’ہمیں جیتنا ہی تھا ناعمہ۔ اللہ نہیں ہارتا۔ اللہ والے بھی نہیں ہارتے۔ وہ دنیا میں پیچھے رہ سکتے ہیں، مگر آخرت میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتے ہیں۔‘‘
’’اور اب؟‘‘، ناعمہ نے سوال کرتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔ شاید وہ تخیل کی آنکھ سے جنت کی اُس دنیا کا تصور کررہی تھی جو اب شروع ہونے والی تھی۔
’’ہم نے خدا کا پیغام عام کرنے کے لیے اپنی فانی زندگی لگادی اور اب بدلے میں خدا جنت کی ابدی زندگی کی کامیابی ہمیں دے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے بھی آنکھیں بند کرلیں۔ میرے سامنے اپنی پر مشقت اور جدو جہد سے بھرپور زندگی کا ایک ایک لمحہ آرہا تھا۔ میں نے اپنی نوجوانی اور جوانی کے بہترین سال خدا کے دین کی خدمت کے لیے وقف کردیے تھے۔ اپنی ادھیڑ عمر کی صلاحیتیں اور بڑھاپے کی آخری توانائیاں تک اسی راہ میں جھونک دی تھیں۔ میں ایک غیر معمولی باصلاحیت اور ذہین شخص تھا جو اگر دنیا کی زندگی کو مقصود بنالیتا تو ترقی اور کامیابی کے اعلیٰ مقامات تک باآسانی پہنچ جاتا۔ مگر میں نے سوچ لیا تھا کہ کیرئیر، جائیداد، مقام و مرتبہ اور عزت و شہرت اگر کہیں حاصل کرنی ہے تو آخرت ہی میں حاصل کرنی ہے۔ میں نے زندگی میں خواہشات کے میدان ہی میں خود سے جنگ نہیں کی تھی بلکہ تعصبات اور جذبات سے بھی لڑتا رہا تھا۔ فرقہ واریت، اکابر پرستی اور تعصب سے میں نے کبھی اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیا۔ خدا کے دین کو ہمیشہ ایمانداری اور عقل سے سمجھا اور اخلاص اور صدق دل سے اس پر عمل کیا۔ اس کے دین کو دنیا بھر میں پھیلایا اور کبھی اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کی۔ اس سفر میں خدا نے جو سب سے بڑا سہارا مجھے دیا وہ ناعمہ کی محبت اور رفاقت تھی جس نے ہر طرح کے حالات میں مجھے لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ اور اب ہم دونوں شیطان کے خلاف اپنی جنگ جیت چکے تھے۔ مشقت ختم ہوچکی تھی اور جشن کا وقت تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ صالح نے کھنکار کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور بولا:
’’آپ لوگ تفصیل سے بعد میں ملیے گا۔ ابھی چلنا ہوگا۔‘‘
اس کے ان الفاظ پر میں واپس اس دنیا میں لوٹ آیا۔ میں نے صالح کا ناعمہ سے تعارف کرایا:
’’یہ صالح ہیں۔‘‘، پھر ہنستے ہوئے میں نے اپنی بات میں اضافہ کیا:
’’یہ کسی بھی وقت مجھے تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔‘‘
ناعمہ نے صالح کو دیکھتے ہوئے کہا:
’’میں انہیں جانتی ہوں۔ مجھے یہاں پر یہی چھوڑ کر گئے تھے اور اسی وقت آپ کے بارے میں بتادیا تھا۔ وگرنہ میں بہت پریشان رہتی۔‘‘
میں نے صالح کی طرف مڑتے ہوئے کہا:
’’تم مجھ سے الگ ہی کب ہوئے ہو جو ناعمہ کو یہاں چھوڑنے آگئے تھے۔‘‘
’’تمھیں غالباً یاد نہیں۔ جس وقت تم اوپر بیٹھے پروردگار کے حضور حشر کے میدان میں گھومنے پھرنے کا پروانہ لے رہے تھے اس وقت میں تمھارے برابر سے اٹھ گیا تھا۔ عبداللہ! یہ تمھاری کمزوری بھی ہے اور طاقت بھی کہ جب تم خدا کے ساتھ ہوتے ہو تو تمھیں اردگرد کا ہوش نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہوش تو مجھے تھوڑی دیر پہلے بھی نہیں تھا، مگر اس وقت تو تم ٹلے نہیں۔‘‘
’’ہاں میں اگر ٹل جاتا تو پھر تم سے اگلی ملاقات یوم حشر کے بعد ہی ہوتی۔ ویسے تم انسان بڑے ناشکرے ہو اور بھلکڑ بھی۔ بھول گئے تمھیں کہاں جانا ہے؟‘‘
’’اوہو، ناعمہ! ہمیں چلنا ہوگا۔ تم یہیں رکو میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔‘‘
’’مگر ہمارے بچے؟‘‘
’’وہ بھی ٹھیک ہیں۔ تم انہیں یہاں تلاش کرو۔ قریب میں کہیں مل جائیں گے۔ وگرنہ میں تھوڑی دیر میں سب کو لے کر خود آجاؤں گا۔ ابھی مجھے فوراً میدان حشر میں لوٹنا ہے۔ ملنا ملانا اس کے بعد عمر بھر ہوتا رہے گا۔‘‘
اس آخری سوال کے بعد یہاں میرے رکنے کی گنجائش ختم ہوچکی تھی۔ کیونکہ مجھے جواب میں ان دو بچوں کے بارے میں بھی بتانا پڑتا جو یہاں نہیں تھے اور یہ ایک بہت تکلیف دہ کام تھا۔
ناعمہ نے کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں گردن ہلادی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واپسی پر میں نے صالح سے کہا:
’’یہاں کی زندگی میں تو خاندانوں میں بڑی ٹوٹ پھوٹ ہوجائے گی۔ کسی کی بیوی رہ گئی اور کسی کا شوہر رہ گیا۔‘‘
’’ہاں یہ سب تو ہوگا۔ آگے بڑھنے کا موقع تو وہ دنیا تھی جو گزرگئی۔ یہاں تو جو پیچھے رہ گیا سو رہ گیا۔ لیکن یہاں کوئی تنہا نہیں ہوگا۔ رہ جانے والوں کے انتظار میں کوئی نہیں رکے گا۔ نئے رشتے ناطے وجود میں آجائیں گے۔ نئے جوڑے بن جائیں گے۔ نئی شادیاں ہوجائیں گی۔‘‘
’’مگر یہاں ویسے خاندان تو نہیں ہوں گے جیسے دنیا میں ہوتے تھے۔‘‘
’’تم ٹھیک سمجھے ہو۔ دنیا میں خاندان کا ادارہ انسانوں کی بعض کمزوریوں کی بنا پر بنایا گیا تھا۔ بچوں کی پرورش اور بوڑھوں کی نگہداشت اس ادارے کا بنیادی مقصد تھا۔ خاندان کی مضبوطی اور استحکام کے لیے مردوں کو خاندان کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ اسی خاندان کو جوڑے رکھنے کے لیے عورتوں کو بہت سے معاملات میں مردوں سے کمزور بنایا گیا تھا، جبکہ مردوں کو جبلی طور پر عورتوں کا محتاج کردیا گیا تھا۔ وہ مردوں کے لیے ایک نعمت بھی تھیں اور ضرورت بھی۔ اس کے بغیر دنیا کا نظم چل نہیں سکتا تھا۔ مگر اب یہاں معاملات جدا ہوں گے۔ عورتیں مردوں کے لیے ایک نعمت تو رہیں گی، مگر خود ان کی محتاج نہیں ہوں گی۔ اسی لیے ان کی قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی اور ان کا نخرہ بھی۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں عورت ہونا زیادہ فائدے کی بات ہے۔ عورت جب چاہے گی مرد کی توجہ حاصل کرلے گی، مگر مرد کا عورتوں پر کوئی اختیار نہیں ہوگا حالانکہ وہ ان کے ضروت مند ہوں گے۔‘‘
’’ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو ہم مرد توپھر نقصان میں رہے۔‘‘
’’ہاں نقصان میں تو تم لوگ رہوگے۔‘‘
’’یہ تو بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟‘‘
’’جنت کی نئی دنیا میں ہر چیز کا حل ہوتا ہے۔ حوریں اسی مسئلے کا حل ہیں۔‘‘
’’مگر ان سے تو خواتین کو جیلیسی محسوس ہوگی۔‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ حوریں اپنے اسٹیٹس اور خوبصورتی میں کبھی جنت کی خواتین کے برابر نہیں آسکتیں۔ اس لیے وہ جنتی خواتین کے لیے کبھی رشک و حسد کا باعث نہیں بنیں گی۔ جنت کی خواتین اپنے اعمال کی وجہ سے حوروں سے کہیں زیادہ خوبصورت اور بہت بڑے اسٹیٹس کی مالک ہوں گی۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہوگی کہ ان کے شوہر کی اور دلچسپیاں کیا ہیں۔ ویسے بھی جنت انسانوں کی نہیں خدا کی دنیا ہے۔ تم جانتے ہو کہ انسانوں اور خدا کی دنیا میں کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘
میں خاموشی سے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا:
’’انسانوں کی دنیا میں رقیب سے حسد کی جاتی ہے۔ مگر خدا کی دنیا میں رقیب بھی محبوب ہوتا ہے۔‘‘
’’یہ بات تو لاجواب ہے، مگر اس مسئلے کا فیصلہ جنتی خواتین ہی کرسکتی ہیں ۔‘‘
’’جنت پاکیزہ لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ ان کی پاکیزگی خدا کی مہربانی سے کسی منفی جذبے کو ان کے پاس پھٹکنے نہیں دے گی۔‘‘، صالح نے میری بات کا براہ راست جواب دینے کے بجائے ایک اصولی بات بیان کی اور پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’اصل میں تم ابھی تک انسانی دنیا کے اثرات سے نہیں نکلے ہو۔ پچھلی دنیا آزمائش کی دنیا تھی۔ اس لیے وہاں مثبت جذبوں کے ساتھ منفی جذبے بھی رکھ دیے گئے تھے۔ یہ منفی جذبے انسانی شخصیت کے اندر سے اٹھتے تھے۔ ہر مومن مرد و عورت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ہر طرح کے منفی حالات اور ماحول میں رہنے کے باوجود اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات پر قابو پائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پسینہ، بول و براز، پیشاب اور پاخانہ وغیرہ انسانی جسم سے نکلنے والی گندگیاں تھیں۔ مگر حکم تھا کہ ہر گندگی سے اپنے وجود کو پاک رکھو تو تم لوگ پانی سے غسل و طہارت کرتے تھے۔ اسی طرح منفی جذبے بھی اندر سے پیدا ہونے والی گندگیاں تھیں۔ غصہ، نفرت، جھوٹ، حسد، تکبر، کینہ، ظلم اور ان جیسی تمام گندگیوں کے بارے میں حکم تھا کہ صبر کے پانی سے انہیں دھو ڈالو۔ مومن مرد و عورت زندگی بھر یہ مشقت اٹھاتے رہے۔ مگر آج کے دن انہیں ہر ایسی مشقت سے پاک کردیا جائے گا۔‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’مطلب یہ کہ اب نہ ان کے جسم سے گندگیاں نکلیں گی اور نہ ان کے ذہن میں منفی جذبے اور خیالات ہی پیدا ہوں گے۔ جنت خوبصورت لوگوں کے رہنے کی ایک خوبصورت جگہ ہے جہاں کوئی بدصورت جذبہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘
’’لیکن میرے خیال میں اس بحث میں اصل بات یہ سامنے آئی کہ حوریں جنت کی خواتین سے کمتر ہیں اور بس گزارے کے قابل ہیں۔ تبھی وہ ان سے حسد نہیں کریں گی۔‘‘
پھر میں نے ہنستے ہوئے اپنی بات میں اضافہ کیا:
’’مسلمان خوامخواہ حوروں کے حسن کا چرچا سن کر ان کے دیوانے بنے اور بلاوجہ لوگوں کے طعنے سنتے رہے۔‘‘
میرے مذاق کے جواب میں صالح نے سنجیدگی سے کہا:
’’یہ دونوں تمھاری غلط فہمیاں ہیں۔ بات یہ ہے کہ جنت میںتم مرد، عورتوں کے لیے کوئی ایسا قیمتی اثاثہ نہیں رہوگے جس کی وجہ سے وہ کسی سے حسد کریں۔ رہی حوریں تو ان کی اتنی تحقیر مت کرو کہ ان کے لیے ’کم تر‘اور ’گزارے کے قابل‘کے الفاظ بولو۔ وہ جنتی خواتین جیسی تو نہیں، مگر بہرحال ایسی بھی نہیں ہیں کہ تم ان کو کم تر سمجھو۔‘‘
’’اچھا تو وہ کیسی ہیں؟‘‘
’’میں بتاتا ہوں وہ کیسی ہیں۔ وہ حوریں نسوانی جمال کا آخری نمونہ اور جسمانی خوبصورتی کا آخری شاہکار ہیں۔ ان کا بے مثال حسن اور باکمال روپ؛ سرخی پاؤڈر کے سنگھار، گجروں کے تار، موتیوں کے ہار اور زیب و زینت کی جھنکارکا محتاج نہیں ہوتا۔ ان کے وجود کی تشکیل کے لیے کائنات اپنا ہر حسن مستعار دیتی ہے۔ پھول اپنے رنگ، ہوا اپنی لطافت، دریا اپنا بہاؤ، زمین اپنا ٹھہراؤ، تارے اپنی چمک، کلیاں اپنی مہک، چاند اپنی روشنی، سورج اپنی کرنیں، آسمان اپنا توازن، چوٹیاں اپنی بلندی اور وادیاں اپنے نشیب جب جمع کردیتے ہیں تو ایک حور وجود میں آتی ہے۔
ان کا حسن خوبصورتی کے ہر معیار پر آخری درجہ میں پورا اترتا ہے۔ ان کا قد لمبا اور رنگ زردی مائل گورا ہے۔ پورے جسم کی جلد بے داغ اور شفاف ہے۔ آنکھیں بڑی بڑی اور گہری سیاہ ہیں، مگر ہر لباس کی مناسبت سے اس کے رنگ میں ڈھل سکتی ہیں۔ ان کی بھنویں ہموار اور پلکیں دراز ہیں۔ ان کی نظر عام طور پر جھکی رہتی ہے، مگر جب اٹھتی ہے تو تیر کی طرح دل تک جاپہنچتی ہے۔ ان کا چہرہ کتابی، پیشانی کشادہ، رخسار سرخی مائل، ناک ستواں، زبان شیریں اور ہونٹ گلاب کی طرح نازک اور دانت موتیوں کی طرح چمکدار ہیں۔ ان کے بال ریشم کی طرح نرم اور چمکدار اور ان کے سفید رنگ کے برعکس گہرے سیاہ اور پنڈلیوں تک لمبے ہیں۔ ان کی آواز سریلے نغمے کی طرح کان میں رس گھولتی، باتوں سے موتی جھڑتے اور مسکراہٹ سے رُت حسین ہوجاتی ہے۔ ان کے وجود میں حیا کا عطر اور سانسوں میں خوشبوؤں کی مہک ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی، چلنے کے انداز میں دلربائی اور بولنے کے طریقے میں شان و وقار ہے۔ ان کے معطر وجود پر مخملی لباس اور چمکتے زیور بادلوں سے چھپتے کھلتے بدرِ کامل کا منظر پیش کرتے ہیں۔‘‘
’’تم نے حوروں کو دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں! انہیں کسی نے نہیں دیکھا۔ صرف ان کا احوال سنا ہے۔ وہی تمھیں سنارہا ہوں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے سلسلہ بیان جاری رکھا ۔
’’تمھاری باتیں واقعی مبالغہ، کہانیاں اور خواب لگ رہی ہیں۔ لیکن یہ اگر خواب ہے تو بہت دلکش خواب ہے۔‘‘
’’یہ خواب ابھی ختم نہیں ہوا۔ سنو! ایک حور کا وجود بل کھاتی ندی کی طرح ڈھلتا ہے جو آسمان کی سیاہ گھٹاؤں سے برف کی صورت اپنے سفر کا آغاز کرتی، چوٹیوں پر ڈیرہ ڈالتی، جھرنوں اور آبشاروں کی صورت نکلتی، ڈھلانوں میں اترتی، میدانوں میں ٹھہرتی، بلندیوں کو چھوتی، نشیب کی طرف بڑھتی، ٹیلوں کو عبور کرتی ہوئی وادیوں تک پہنچتی ہے اور آخر کار نیکی، پارسائی اور تقوی کے اس سمندر پر اپنا وجود نچھاور کردیتی ہے جس نے زندگی صبر اور تقویٰ کے ساتھ گزاری۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہ ندی اپنے پورے سفر میں کسی نجاست، کسی آلودگی کا شکار نہیں ہوتی۔ ہر نامحرم نگاہ کو اپنی دید اور لمس سے دور رکھتی ہے۔ یہ ہزاروں میل کا سفر پاکدامنی کے ساتھ طے کرتی ہے اس لیے پاکدامن سے کم کسی شخص کو قبول نہیں کرتی۔ اور آخر کار سیلِشباب کی چڑھتی گھٹتی موج کا سا ان کا وجود اپنے سمندر میں ہمیشہ کے لیے ضم ہوجاتا ہے۔‘‘
’’مجھے سمجھ ہی نہیں آتا کہ تعریف حوروں کی کروں یا تمھارے بیان کی۔‘‘
’’تعریف تو صرف اللہ کی ہونی چاہیے۔‘‘
’’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تعریف و توصیف تو صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے۔ مگر یہ بتاؤ کہ کیا یہ انسان ہوں گی؟‘‘
’’ہاں یہ بھی انسان ہیں۔ اسی طرح اہل جنت کے وہ خدام جنہیں غلمان کہا جاتا ہے، وہ بھی انسان ہی ہیں۔ یہ وہ لڑکے ہیںجو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔‘‘
’’یہ لڑکے کیوں رہیں گے، ملازم اور خادم تو وہ بہتر ہوتا ہے جو زیادہ عمر کا ہو اور زیادہ سمجھ رکھتا ہو؟‘‘، میں نے ذہن میں آنے والا ایک اعتراض جڑ دیا۔
’’نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ کم عمر ہونے کے باوجود بلا کے مزاج شناس ہوں گے۔ اہل جنت کی مجلسوں میں جب کسی جنتی کا مشروب ختم ہوگا تو یہ اس کی نظر دیکھیں گے اور بلا کچھ کہے سنے اس کے گلاس میں مطلوبہ شراب اتنی ہی مقدار میں ڈالیں گے جتنی اسے ضرورت ہوگی۔ اس لیے ان کی سمجھ بوجھ اور مزاج شناسی کی تو کوئی حد نہیں ہوگی البتہ انہیں لڑکوں کی شکل میں اس لیے رکھا جائے گا کہ جسمانی طور پر مستعد رہیں اور لمحہ بھر میں ہر خدمت بجالائیں۔ ان کا لباس، شکل اور حلیہ انہیں ایسا بنادے گا گویا محفل میں قیمتی موتی بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کے ابدی طور پر کم عمر لڑکے بنائے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کو کبھی ازدواجی تعلق کی ضرورت نہ ہو۔ جبکہ حوریں مکمل شباب کی عمر کو پہنچی ہوئی لڑکیاں ہوں گی اور اہل جنت کی بیویاں ہوں گی۔‘‘
’’کیا حوریں اور غلمان اہل جنت کے لیے خاص طور پر تخلیق کیے جائیں گے؟‘‘
’’یہ ایک لمبی کہانی ہے۔‘‘
’’ہمارے پاس وقت کی کون سی کمی ہے۔ یہ لمبی کہانی بھی سناتے جاؤ۔‘‘
’’سنو! آج کا دن انسانوں کا پہلا محشر نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب! کیا قیامت پہلے بھی آچکی ہے؟‘‘
’’قیامت تو پہلے نہیں آئی البتہ اول تا آخر سارے انسان ایک دفعہ پہلے بھی پیدا کیے جاچکے ہیں۔‘‘
’’یہ کب ہوا تھا؟‘‘
’’یہ تو تم اللہ تعالیٰ سے جنت میں جاکر خود پوچھنا۔ مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ یہ ہوا تھا۔ دراصل جس آزمائش میں انسان کو ڈالا گیا تھا، یہ پہلا محشر اس کہانی کا دوسرا واقعہ ہے۔ پہلا واقعہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے سامنے یہ موقع رکھا تھا کہ وہ جنت میں اللہ تعالیٰ کی ابدی رفاقت کا شرف حاصل کرلیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں دنیا میں کچھ وقت ایسے گزارنا ہوگا کہ خدا ان کے سامنے نہیں ہوگا۔ صرف اس کے احکام ان کے سامنے آئیں گے اور انہیں بن دیکھے رب کی عبادت اور اطاعت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ زمین کی بادشاہی عارضی طور پر امانتاً اس مخلوق کو دے دی جائے گی اور اپنی بادشاہی کے زمانے میں اس مخلوق کو اپنے بارے میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ صاحب اختیار بادشاہ ہونے کے باوجود بن دیکھے خد اکی اطاعت کے لیے تیار ہے۔ جس کسی نے اقتدار اور اختیار کی اس امانت کا درست استعمال کیا اس کا بدلہ جنت میں خدا کی ابدی رفاقت ہوگی اور ناکامی کی صورت میں جہنم کا عذاب۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’یہ ہوا کہ ساری مخلوقات ڈر کے پیچھے ہٹ گئیں۔ اس لیے کہ جنت جتنی حسین ہے، جہنم اتنی ہی بھیانک جگہ ہے۔ حشر کی سختی کو تو ابھی تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس کے بعد کون عقل مند اس امتحان میں کودنے کی کوشش کرتا۔‘‘
’’اور غالباً ہم جذباتی انسان اس امتحان میں کود پڑے۔‘‘، میں نے لقمہ دیا۔
’’ہاں یہی ہوا تھا۔ لیکن خدائی امانت اٹھانے کا یہ عزم روح انسانی نے اجتماعی طور پر کیا تھا۔ اس لیے خد اکے عدل کا تقاضا یہ تھا کہ ہر ہر انسان کوپیدا کرکے براہ راست اس سے یہ معلوم کیا جائے کہ وہ کس حد تک اس امتحان میں اترنے کے لیے تیار ہے۔
عبد اللہ! یہ اس لیے ہوا کہ تمھارا رب کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ سو اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ سب کے سامنے اپنے پورے منصوبے کو رکھا۔ ظاہر ہے انسانوں کی اکثریت پہلے ہی اس مقصد کے لیے تیار تھی۔ اسی لیے وہ پورے شعور کے ساتھ اس امتحان میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے۔ البتہ جن لوگوں نے یہ خطرہ مول لینے سے انکار کردیا، ان سب کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ انسانی گھروں میں جو بچے پیدا ہوتے اور بلوغت سے پہلے ہی مرجاتے ہیں، ان لوگوں کو یہی کردار سونپ دیا جائے۔ اور یہی بچے بچیاں جنت کی بستی میں حور و غلمان بنادیے جائیں گے۔‘‘
’’اور باقی لوگ اس کڑے امتحان میں اترنے کے لیے تیار ہوگئے؟‘‘
’’اس میں بھی خدا کی کریم ہستی نے کمال عنایت کا مظاہرہ کیا تھا۔ تم جانتے ہو کہ دنیا میں سب کا امتحان یکساں نہیں ہوتا۔ یہ امتحان بھی اس روز ہر شخص نے اپنی مرضی سے چن لیا تھا۔ جو بہت زیادہ حوصلہ مند لوگ تھے انہوں نے نبیوں کا زمانہ چن لیا۔ ان لوگوں کا امتحان یہ تھا کہ ہر سو پھیلی گمراہی کے دور میں انبیا کی تصدیق کرکے ان کا ساتھ دیں۔ ان کی کامیابی کے لیے اصل شرط یہ تھی کہ بدترین مخالفت میں بھی ثابت قدم رہیں، اس راہ میں ہر مشکل کو برداشت کریں اور انبیا کا پیغام آگے پہنچائیں۔ اس لیے ان کا اجر بھی بڑا رکھا گیا، مگر انہیں انبیا کی براہ راست رہنمائی کی سہولت کی بنا پر کفر و انکار کی صورت میں عذاب بھی اتنا ہی شدید ہوتا۔ انہی لوگوں میں ایک طرف ابوبکر ؓ جیسے لوگ تھے اور دوسری طرف ابولہب جیسے دشمنانِ حق۔
آزمائش کی دوسری سطح وہ تھی جس میں لوگوں نے امت مسلمہ اور نبیوں کے بعد ان کی امت میں شامل ہونے کا پرچۂ امتحان چنا۔ ان لوگوں کا امتحان یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والی گمراہیوں، فرقہ واریت، بدعت اور غفلت سے بچ کر شریعت کے تقاضوں کو ہر حال میں نبھاتے رہیں اور معاشرے کے خیر و شر سے لاتعلق ہونے کے بجائے لوگوں میں نیکی کو پھیلائیں اور انہیں برائی سے روکیں۔ یہ ذمہ داریاں ان پر اس لیے عائد کی گئیں کہ ان کے پاس انبیا کی تعلیمات تھیں اور وہ پیدائشی مسلمان تھے جنھیں قبول اسلام کے لیے کسی کڑی آزمائش سے نہیں گزرنا پڑا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عام انسانوں کے مقابلے میں ان کی رہنمائی زیادہ کی گئی، انھیں زیادہ اجر کمانے کے مواقع دیے گئے، لیکن غفلت کی صورت میں ان کا حساب کتاب اتنا ہی سخت ہونا طے پایا۔‘‘
’’میرا اور دیگر مسلمانوں کا تعلق اسی گروہ سے تھا نا؟‘‘
’’ہاں تم ٹھیک سمجھے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے اپنا پرچۂ امتحان بہت سادہ رکھا۔ یہ سارے لوگ نبیوں کی براہ راست رہنمائی کے بغیر پیدا کیے گئے اور ان کا پرچۂ امتحان فطرت میں موجود ربانی ہدایت تھی۔ یعنی توحید اور اخلاق کا امتحان۔ انہیں عام مسلمانوں کی طرح نہ شریعت کے امتحان میں ڈالا گیا نہ نبیوں کی رفاقت کے کڑے امتحان میں۔ ظاہر ہے کہ ان کا حساب کتاب سب سے ہلکا ہوگا، ان کے لیے شدید عذاب کا اندیشہ بھی کم ہے اور اجر کے مواقع بھی اسی تناسب سے کم ہیں۔‘‘
’’اور انبیا کا معاملہ کیا تھا؟‘‘
’’انہوں نے امتحان کا سب سے سخت پرچہ چنا۔ اس لیے ان کی رہنمائی براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی اور اسی لیے ا ن کے احتساب کا معیار بھی سب سے زیادہ سخت تھا۔ تمھیں تو معلوم ہے کہ حضرت یونس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ صرف ایک اجتہاد تھا ۔ لیکن دیکھو ان کو کس طرح اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں بند کردیا۔‘‘
پھر اس نے اس طویل گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
’’اصل اصول جوتمام اقسام کے گروہوں میں کام کررہا ہے وہ ایک ہی ہے۔ زیادہ رہنمائی، زیادہ سخت حساب کتاب اور زیادہ بڑی سزا جزا۔ کم رہنمائی، ہلکا حساب کتاب، کم سزا جزا۔ مگر کسی انسان کا تعلق کس گروہ سے ہے اس کا انتخاب انسانوں نے خود کیا ہے،اللہ تعالیٰ نے نہیں۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا میں میری رہنمائی بہت زیادہ کی گئی تویہ دراصل میری اپنی درخواست کے نتیجے میں کی گئی تھی۔‘‘
’’ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ اسی وجہ سے تم آج اتنا اونچا درجہ پانے میں کامیاب ہوگئے۔ اگر تم اس رہنمائی کی قدر نہ کرتے تو تمھیں اتنا ہی شدید عذاب دیا جاتا۔‘‘
’’یار میں نے کتنا بڑا رسک لے لیا تھا۔‘‘
’’یہی تمھاری دنیا کا اصول تھا۔ No Risk No Gain‘‘
مجھے اس لمحے میں احساس ہوا کہ میں نے کیا پالیا ہے اور کس خطرے سے نکل گیا ہوں۔ میں بے اختیار سجدے میں گرگیا۔ دیر تک میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہا جس نے مجھے اس عظیم امتحان میں سرخرو کردیا تھا۔ اتنے میں صالح نے میری پیٹھ تھپکتے ہوئے مجھ سے کہا:
’’عبد اللہ! اٹھو۔‘‘
میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور صالح کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بولا:
’’صالح اب میں کبھی نہیں مروں گا۔ میری زندگی میں کبھی کوئی بیماری، بڑھاپا، خوف، غم، حزن، اداسی اور مایوسی نہیں آئے گی۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اچھلوں، کودوں، ناچوں، قہقہے لگاؤں اور پوری دنیا کوچیخ چیخ کر بتاؤں کہ لوگو! میں کامیاب ہوگیا۔ لوگو! میں کامیاب ہوگیا۔ آج سے میری بادشاہت شروع ہوتی ہے۔ آج سے میری زندگی شروع ہوتی ہے۔‘‘
صالح خاموشی سے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ میرے خاموش ہونے پر وہ بولا:
’’زندگی تو شروع ہوگی۔ ابھی تو ہمیں واپس حشر میں لوٹنا ہے۔ بہت سے احوال دیکھنے ہیں۔ خدا نے تمھیں بڑا غیر معمولی موقع دیا ہے۔ آؤ میدان حشر میں چلتے ہیں۔‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔