میدان حشر کا ماحول انتہائی سخت اور تکلیف دہ تھا۔ ایک طرف ماحول اور حالات کی سختی تھی تو دوسری طرف لوگوں کو یہ اندیشہ کھائے جارہا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ مایوسی اور پریشانی کے علاوہ لوگوں میں شدید غصہ بھی تھا۔ یہ غصہ اپنی ذات پر بھی تھا اور اپنے لیڈروں اور گمراہ کرنے والے رہنماؤں پر بھی تھا۔ چنانچہ جو لیڈر اپنے پیروکاروں کے ہاتھ آجاتا وہ بے دریغ اس کی پٹائی شروع کردیتے۔ یہ گویا عذاب سے قبل ایک نوعیت کا عذاب تھا۔

ایسے تماشے اس وقت میدان حشر میں جگہ جگہ ہورہے تھے۔ پیروکار اپنے لیڈروں کو، اصاغرین اپنے اکابرین کو، عقیدت مند اپنے علما اور درویشوں کو بے دردی سے پیٹ رہے اور اپنا غصہ نکال رہے تھے۔ مگر اب کیا فائدہ! البتہ اس طرح پریشان اور افسردہ حال لوگوں کو ایک طرح کا تماشہ دیکھنے کو ضرور مل رہا تھا۔

ہم اس طرح کے تماشے دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ راستے میں میں نے صالح سے کہا:

’’میں تو یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ دنیا میں کچھ دیر کی لوڈ شیڈنگ اور گرمی سے ہماری حالت انتہائی ابتر ہوجاتی تھی۔ یہاں تو اتنا طویل عرصہ ہوچکا ہے مگر لوگوں کو اس مصیبت سے نجات نہیں مل رہی۔ تمھارے ساتھ کی وجہ سے مجھے تو یہاں کے مصائب و شدائد بالکل محسوس نہیں ہورہے، مگر جو لوگ یہاں ہیں ان کے ساتھ تو واقعی بہت برا معاملہ ہورہا ہے۔‘‘

’’اپنے الفاظ کی تصحیح کرلو۔ برا نہیں ہورہا عدل ہورہا ہے۔ ہاں معاملہ بلاشبہ شدید ہے اور اسی وجہ سے ساری مخلوقات نے اختیار اور اقتدار کے اس بارِ امانت کو اٹھانے اور سزا جزا کے اس کڑے امتحان میں کھڑے ہونے سے انکار کردیا تھا۔‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگوں کے ساتھ اتنی مشکل ہے تو جن لوگوں نے سارے انسانوں کی طرف سے اقتدار اور اختیار کا بار اٹھایا ان کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔‘‘

اس بات سے میرا اشارہ ظالم حکمرانوں اور بددیانت اہلکاروں کی طرف تھا۔

’’دیکھنا چاہتے ہو کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟‘‘

میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ صالح ایک سمت بڑھتے ہوئے بولا:

’’ ابھی تک ہم صرف اس علاقے میں گھوم رہے تھے، جہاں وہ لوگ تھے جن کا حساب کتاب ہونا ہے۔ جس طرح سابقین کا معاملہ ہے کہ وہ عرش کے نیچے خدا کے انعامات میں کھڑے ہیں اور ان کا حساب کتاب نہیں ہونا صرف رسمی طور پر ان کی کامیابی کا اعلان ہونا ہے، اسی طرح کچھ بدبخت ہیں جن کی بد اعمالیوںکی بنا پر ان کی جہنم کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ہم انہی کی سمت چل رہے ہیں۔‘‘

ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے گرمی کی حدت اور شدت بہت تیزی سے بڑھتی جارہی تھی۔ مجھے اس کا اندازہ اس بڑھتے ہوئے پسینے سے ہوا جو لوگوں کے جسم سے بہہ رہا تھا۔ لوگوں کے جسموں سے پسینہ قطروں کی صورت میں نہیں بلکہ دھار کی شکل میں بہہ رہا تھا، مگر زمین اتنی گرم تھی کہ یہ پسینہ تپتی زمین پر گرتے ہی اس میں جذب ہوجاتا۔ پیاس کے مارے لوگوں کے ہونٹ باہر نکل آئے تھے اور وہ کسی تونس زدہ اور پیاسے اونٹ کی طرح ہانپ رہے تھے، مگر پانی کا یہاں کیا سوال؟

ان کے چہروں پر پریشانی سے کہیں زیادہ خوف کے سائے تھے۔ یہ خوف کس چیز کا تھا یہ بھی تھوڑی ہی دیر میں معلوم ہوگیا۔ اچانک لوگوں کے درمیان ایک عجیب ہلچل مچ گئی۔ لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ مجمع چھٹا تو دیکھا کہ ایک آدمی کے پیچھے دو فرشتے دوڑ رہے ہیں۔ یہ ویسے ہی فرشتے تھے جیسے عرش کے سائے کی طرف جاتے ہوئے ہمیں نظر آئے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا تھا اور دوسرے کے ہاتھ میں ایسا کوڑا تھا جس میں کیلیں نکلی ہوئی تھیں۔

وہ آدمی ان سے بچنے کے لیے سر توڑ کوشش کررہا تھا، مگر یہ فرشتے اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ صاف نظر آرہا تھاکہ فرشتے جان بوجھ کر اسے تھکارہے ہیں۔ وہ اس کے قریب پہنچ کر اسے ایک کوڑا مارتے اور کہتے جارہے تھے کہ اے حکمران اٹھ اور اپنی مملکت میں چل۔ کوڑا پڑتے ہی وہ شخص چیختا چلاتا گرتا پڑتا بھاگنے لگتا۔ پھر وہ فرشتے اس کے پیچھے دوڑنے لگتے۔

مجھے ان موصوف کا تعارف حاصل کرنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ صالح نے خود ہی بتادیا:

’’یہ تمھارے ملک کے سربراہ مملکت ہیں۔‘‘

کچھ ہی دیر میں سربراہ مملکت آگ اور کیلوں والے کوڑے کھاکر زمین بوس ہوچکے تھے۔ جس کے بعد فرشتوں نے انہیں ایک لمبی زنجیر میں باندھنا شروع کیا جس کی کڑیاں آگ میں دہکا کر سرخ کی گئی تھیں۔ سربراہ مملکت بے بسی سے تڑپ رہے اور رحم کی فریاد کررہے تھے، مگر ان فرشتوں کو کیا معلوم تھا کہ رحم کیا ہوتا ہے۔ وہ بے دردی سے انہیں باندھتے رہے۔ جب ان کا پورا جسم زنجیروں سے جکڑ گیا تو اتنے میں کچھ اور فرشتے آگئے۔ پہلے فرشتے ان سے بولے:

’’ہم نے سربراہ مملکت کو پکڑ لیا ہے۔ تم جاؤ اور ان کے سارے حواریوں، درباریوں، خوشامدیوں اور ساتھیوں کو پکڑلاؤ جو اس بدبخت کے ظلم اور بدعنوانی میں شریک تھے۔‘‘

چنانچہ مجمع میں بڑے پیمانے پر وہی ہلچل، بھاگ دوڑ اور مار پیٹ شروع ہوگئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک گروہ کثیر جس میں وزرا، امرا،مشیر، بیوروکریٹ، وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار اور ہر طرح کے ظالم جمع تھے، گرفتار ہوگیا۔ اس کے بعد ان فرشتوں نے سب کو سر کے بالوں سے پکڑ کر چہرے کے بل گھسیٹنا شروع کردیا۔ وہ ہمارے قریب سے گزرے تو ان کی کھالوں کے جلنے کی بدبو ہر طرف فضا میں بکھری ہوئی محسوس ہوئی۔ اس بدبو کا احساس ہوتے ہی صالح نے میری کمر پر ہاتھ رکھا تو میری جان میں جان آئی۔ وہ ان کو ہمارے سامنے سے کھینچتے ہوئے مزید بائیں جانب لے گئے۔ میں ان کے گھسیٹے جانے کے سبب زمین پر بن جانے والی لکیروں اور ان پر پڑے خون کے دھبوں کو دیکھتا رہا جو ان کے جسموں سے رس رہا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر بے اختیار میرے لبوں سے ایک آہ نکلی۔ میں نے دل میں سوچا:

’’کہاں گیا ان کا اقتدار؟ کہاں گئے وہ عیش و عشرت کے دن؟ کہاں گئے وہ عالیشان محل، مہنگے ترین کپڑے، بیرونی دورے، شاندار گاڑیاں، عظمت ، کروفر اور شان و شوکت؟ آہ! ان لوگوں نے کتنے معمولی اور عارضی مزوں کے لیے کیسا برا انجام چن لیا۔‘‘

صالح بولا:

’’یہ سب ظالم، کرپٹ اور عیاش لوگ تھے جن کی ہلاکت کا فیصلہ دنیا ہی میں ہوچکا تھا۔ تاہم یہ ان کی اصل سزا نہیں۔ اصل سزا تو جہنم میں ملے گی۔ جس طرف فرشتے انہیںلے جارہے ہیں وہاں سے جہنم بالکل قریب ہے۔ اسی مقام سے انہیں حساب کتاب کے لیے لے جایا جائے گا جہاں ان کی دائمی ذلت اور عذاب کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ پھر انھیں دوبارہ بائیں طرف لایا جائے گا۔ جہاں سے گروہ در گروہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘

حساب کتاب کے ذکر سے مجھے بے اختیار وقت کا خیال آیا تو میں صالح سے پوچھا:

’’صالح! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول ہوئے طویل عرصہ گزرگیا ہے۔ مگر اب تک یہ حساب کتاب کیوں نہیں شروع ہوا؟‘‘

’’یہ تم سمجھتے ہو کہ طویل عرصہ ہوا ہے۔ میدان حشر میں وقت بہت آہستگی کے ساتھ گزر رہا ہے۔ جس کی بنا پر یہ طویل عرصہ لگتا ہے۔ مگر عرش تلے بہت ہی کم وقت گزرا ہے۔ تم جاننا چاہتے ہو کہ اتنا وقت بھی بہرحال کیوں لگ رہا ہے؟‘‘

’’تمھی نے بتایا تھا کہ جن لوگوں کو معاف کیا جانا ہے اس سختی کو ان کی معافی کا ایک عذر بنادیا جائے گا۔‘‘

’’ہاں یہ ایک وجہ ہے۔ مگر دوسری وجہ لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ یہاں سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بات یہ ہے عبد اللہ! انسانوں نے اپنے کریم اور مہربان آقا کی قدر نہیں کی۔ آج وہ آقا لوگوں کو یہ احساس دلارہا ہے کہ انسان کس درجے میں اس کے محتاج اور اس کے سامنے بے وقعت ہیں۔

اس کی طاقت و عظمت کا پہلا اظہار قیامت کا دن تھا جب انسانوں کی دنیا برباد ہوگئی اور ان کا سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ انسان کی ساری طاقت اسے قیامت کے ہولناک حادثے سے نہیں بچاسکی۔ دوسرا موقع آج حشر کا دن ہے جب سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ خدا کے سامنے کسی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ تیسرا موقع اب آرہا ہے یعنی حساب کتاب کا جب اللہ تعالیٰ براہ راست آسمانوں اور زمین کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔‘‘

’’تو کیا ابھی تک ایسا نہیں ہوا؟‘‘

’’نہیں ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ ابھی تک نظام کائنات بظاہر فرشتے چلارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ صرف ان کو احکامات دے رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ سارے معاملات براہِ راست خود سنبھال لیں گے۔ تاکہ جنوں، انسانوں اور فرشتوں سمیت ہر مخلوق جان لے کہ سارا اختیار اور اقتدار صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ سردست سارے آسمانوں میں بکھری ہوئی کائنات جو انگنت فاصلوں پر پھیلی ہوئی تھی، اس کو سمیٹا جارہا ہے۔ تمھیں تو معلوم ہے کہ پچھلی دنیا میں یہ کائنات لمحہ بہ لمحہ پھیل رہی تھی۔ اب اللہ کے حکم پر فاصلے سمٹ رہے ہیں اور یہ بے شمار کہکشائیں، ستارے اور سیارے جو پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں، دوبارہ قریب آرہے ہیں۔‘‘

’’ایسا کیوں ہے؟‘‘، میں نے حیرت سے پوچھا۔

’’یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اہل جنت میں بطور انعام تقسیم کردیں گے۔ پھر ان جگہوں پر اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی بادشاہی اور اقتدار قائم ہوجائے گا۔ کائنات کو واپس سمیٹنے کا عمل ہی وہ چیز ہے جسے قرآن کریم نے آسمانوں کو خدا کے داہنے ہاتھ پر لپیٹ لینے سے تعبیر کیا ہے۔‘‘

پھر صالح نے آسمان کی طرف نظر کی۔ اس کی پیروی میں میں نے بھی اوپر دیکھا۔

سورج بدستور دہک رہا تھا۔ میں نے پہلی دفعہ یہ بات نوٹ کی کہ چاند بھی سورج کے قریب موجود تھا، مگر وہ بے نور ہوچکا تھا اور بہت آہستگی کے ساتھ سورج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر صالح نے کہا:

’’آج آسمان و زمین بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکے ہیں۔ زمین پھول کر بہت بڑی ہوچکی ہے اور یوں اس کے رقبے میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔‘‘

’’مجھے یاد ہے کہ زمین کا قطر پچیس ہزار کلو میٹر تھا۔‘‘

’’مگر اب اس میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی یہ زمین اب اس سے کہیں زیادہ حسین اور خوبصورت ہے جتنی پہلے تھی۔ اسرافیل نے دو دفعہ صور پھونکا تھا۔ پہلی دفعہ سب کچھ تباہ ہوگیا تھا جبکہ دوسرے صور پر انسانوں کو زندہ کردیا گیا۔ ان دونوں کے بیچ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین بڑی ہوئی اور فرشتوں نے اس پر اہل جنت کے لیے اعلیٰ ترین گھر، محلات، باغات اور ان کے سکون و تفریح کے لیے بہترین چیزیں اور تمھارے لیے ناقابل تصور حد تک حسین ایک نئی دنیا بنادی ہے۔ ہر جنتی کو اس کا گھر اسی زمین میں دیا جائے گا اور اسے رہنے بسنے کے لیے بڑے بڑے رقبے دیے جائیں گے۔ زمین کے وسط میں دہکتے ہوئے آتش فشاؤں اور کھولتے پانی کے چشموں کے درمیان میں اہل جہنم کا ٹھکانہ ہوگا۔‘‘

میں نے اس کی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:

’’تم نے جو کچھ کہا ہے قرآن کریم کے بیانات سے مجھے اس کا پہلے ہی اندازہ تھا۔ قرآن کریم کے بیانات سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے اور سطح زمین جنت میں بدل دی جائے گی جہاں اہل جنت کا ٹھکانہ ہوگا۔ زمین کے بیچ میں اہل جہنم ہوں گے۔ جبکہ آسمانوں میں موجود ستارے اور کہکشائیں بطور انعام و بادشاہی اہل جنت میں تقسیم ہوں گے۔ ویسے ان میں کیا ہوگا؟‘‘

’’اس کی تفصیل دربار والے دن سامنے آئے گی۔ دربار والی بات یاد ہے نا؟‘‘

’’ہاں تم نے بتایا تھا کہ حساب کتاب کے بعد اہل جنت کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو نشست ہوگی اس کا نام دربار ہے۔ اس نشست میں تمام اہل جنت کو ان کے مناصب اور مقامات رسمی طور پر تفویض کیے جائیں گے۔ یہ لوگوں کی ان کے رب کے ساتھ ملاقات بھی ہوگی اور مقربین کی عزت افزائی کا موقع بھی ہوگا۔‘‘

’’ہاں اس روز انعام بھی دیا جائے گا اور کام بھی بتایا جائے گا۔‘‘

اتنی دیر میں بے نور چاند سورج میں ضم ہوچکا تھا۔ یہ دیکھ کر صالح بولا:

’’آسمان پر موجود نشانیاں بدل رہی ہیں۔ چاند کا سورج میں ضم ہوجانا اسی کی ایک علامت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے آسمان سمیٹ لیے گئے ہیں۔ اب کسی بھی لمحے پروردگار عالم کا ظہور ہوگا اور وہ عدالت شروع ہوجائے گی جس کا انتظار تھا۔ اس وقت تمھیں اور ساری دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ جل جلالہ کس عظیم و اعلیٰ ہستی کا نام ہے۔‘‘

ابھی صالح کا جملہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ سب لوگ لرز کر رہ گئے۔ آواز چونکہ آسمان کی جانب سے آئی تھی اس لیے ہر نگاہ اوپر کی طرف اٹھ گئی۔

میں اور صالح بھی لوگوں کے ساتھ اوپر دیکھنے لگے۔ ایک حیرت انگیز منظر سامنے تھا۔ آسمان میں شگاف پڑچکا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بادلوں کی طرح پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ان شگافوں کو دیکھ کر ایسا لگا کہ آسمان میں دروازے ہی دروازے بن گئے ہیں۔ ہر شگاف سے فرشتوں کی فوج در فوج زمین کی طرف اترنے لگی۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ کسی قسم کی گنتی اور اندازہ محال تھا۔ فرشتوں کے مختلف گروہ تھے اور ہر گروہ کا انداز اور لباس بالکل مختلف تھا۔ وہ فرشتے میدان حشر کے وسط میں ایک جگہ پر اترنے لگے اور انہوں نے درمیان میں موجود ایک بڑی اور بلند خالی جگہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فرشتے آسمان سے اترتے جاتے اور دائرہ در دائرہ ہاتھ باندھ کر مؤدب انداز میں کھڑے ہوتے جاتے۔ ہر لمحہ ان کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ اس دوران میں لوگوں کی چیخ و پکار بھی تھم چکی تھی۔ ہر شخص پھٹی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے اسی سمت دیکھے جارہا تھا۔ اب فضا میں بس کچھ سرگوشیوں کی سرسراہٹ ہی باقی رہ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر شخص اپنے برابر والے سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟

مجھے قدرے اندازہ تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے، لیکن پھر بھی میں نے صالح سے وضاحت چاہی۔ اس نے حسب توقع جواب دیا:

’’حساب کتاب شروع ہورہا ہے۔ بارگاہِ احدیت کا دربار سجایا جارہا ہے۔ یہ اس کا پہلا مرحلہ ہے۔ فرشتے مسلسل اتر رہے ہیں اور کافی دیر تک اترتے رہیں گے۔ اس کے بعد سب سے آخر میں حاملین عرش اتریں گے۔ تم تو ان سے مل چکے ہو۔ وہ اُس وقت چار تھے۔ اب چار مزید ان میں شامل ہوجائیں گے۔ کل آٹھ فرشتے عرش الٰہی کے ساتھ نازل ہوں گے۔‘‘

’عرش الٰہی‘۔ میں نے زیر لب ان الفاظ کو دہرایا۔ صالح نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:

’’تم تو سمجھ سکتے ہو، اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھتے نہیں ہیں۔ وہ اس طرح کے تمام انسانی تصورات سے پاک ہیں۔ یہ عرش اصل میں مخلوق کے رجوع کرنے کی جگہ ہے۔ جیسے دنیا میں بیت اللہ ہوا کرتا تھا بطور قبلہ۔ اللہ کے گھر کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ وہاں رہتے تھے۔ لیکن انسان اس کی طرف جب رخ کرتا تھا تو اس کے لیے وہ ایک مقامِ رجوع بن جاتا تھا۔ اسی طرح آج عرش الٰہی کے ذریعے سے لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ کریں گے۔‘‘

میں نے پوچھا:

’’گویا لوگ اللہ تعالیٰ کی بات سنیں گے؟‘‘

صالح نے کہا:

’’ہاں، ویسے ہی جیسے حضرت موسیٰ نے طور کی وادی میں ایک درخت کے اندر سے اللہ تعالیٰ کی آواز آتے ہوئے سنی تھی۔ اور ہاں عبداللہ ایک بہت خاص بات بھی سن لو۔‘‘

میں پوری طرح متوجہ تو تھا ہی لیکن اب یکسوئی سے اسے دیکھنے لگا۔

’’حاملینِ عرش کے نزول کے ساتھ ہی عرش نور الٰہی کی تجلی سے جگمگا اٹھے گا۔ جس کے ساتھ پوری زمین پر اس نور کا اثر پھیل جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی اور معاملات اب براہِ راست اللہ تعالیٰ کی اپنی نگرانی میں انجام پانا شروع ہوجائیں گے۔ یہ مطلب ہے قرآن کریم کی اس بات کا کہ زمین کو خدا اپنی مٹھی میں لے لے گا۔ اس وقت پہلا حکم یہ دیا جائے گا کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرجائے۔ عبد اللہ! اس وقت بہت عبرت ناک منظر سامنے آئے گا۔ تم دیکھو گے کہ سارے فرشتے سجدے میں ہوں گے۔ عرش کے داہنے ہاتھ کی طرف عرشِ الٰہی کے مامون سائے میں موجود سارے انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین، سب سجدے میں ہوں گے۔‘‘

میں نے بے اختیار پوچھا:

’’اور یہاں حشر کے میدان میں موجود لوگ؟‘‘

’’اہم اور عبرت ناک بات یہی ہے۔ یہاں موجود کوئی کافر، منافق، خدا کا نافرمان اور مجرم سجدے میں نہیں جاسکے گا۔ یہ لوگ لاکھ کوشش کریں گے کہ سجدے میں گرجائیں، مگر ان کی کمر اور گردن تختہ ہوجائے گی۔ زمین انہیں اپنی طرف آنے سے روک دے گی۔‘‘

’’اور باقی لوگ؟‘‘، میں نے پوچھا۔

صالح بولا:

’’وہ لوگ جن کے اعمال ملے جلے اور گناہ کم ہوں گے وہ سجدے میں چلے جائیں گے۔ اور اسی وجہ سے ان سب کو فوراً حساب کتاب کے لیے بلالیا جائے گا۔ باقی جس کا ایمان جتنا پختہ اور اعمال جتنے اچھے ہوں گے وہ اتنا ہی جھک سکے گا۔ کوئی رکوع میں ہوگا، کوئی آدھا جھکا ہوگا۔ کوئی بس گردن ہی جھکا سکے گا۔ جو جتنا کم جھکے گا وہ اتنا ہی خوار ہوگا۔‘‘

میں بات سمجھتے ہوئے سر ہلاکر بولا:

’’اچھا اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو اس وقت اپنے مستقبل کا کسی قدر اندازہ ہوجائے گا۔‘‘

صالح نے کہا:

’’نہیں، تمھیں یہ باتیں میں بتارہا ہوں، انہیں یہ اندازہ نہیں ہوگا۔ البتہ سجدہ نہ کرنے پر ذلت کا احساس اور کرنے پر ایک نوعیت کا اطمینان ہوجائے گا۔ البتہ لوگ یہ اچھی طرح جان لیں گے کہ خدا کون ہے؟ جس ہستی کو بھلاکر زندگی گزاری تھی وہ کون ہے؟ آج لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ بادشاہوں کا بادشاہ کون ہے؟ شہنشاہوں کا شہنشاہ کون ہے؟ کون معبود برحق ہے؟ کون ہے جس کا اقتدار اس کائنات پر قائم ہے؟ کون ہے جس کے ہاتھ میں کل بھلائی اور تمام خیر ہے؟ کون ہے جس کے اشارے سے تقدیر بن اور بگڑ سکتی ہے؟ کون ہے جو ہر شخص سے ہر عمل کے بارے میں پوچھ سکتا ہے مگر اُس سے اس کے کسی فیصلے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جاسکتا؟ کون ہے جو ہر حمد، ہر شکر، ہر قیام، ہر رکوع، ہر سجدے، ہر نیاز، ہر عاجزی، ہر محبت، ہر تسبیح اور ہر ہر تکبیر کا مستحق ہے؟ تعالیٰ شانہ۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔‘‘

یہ الفاظ کہتے ہوئے صالح کے جسم پر ایک لرزہ طاری ہوگیا اور آخری اللہ اکبر کہتے ہوئے وہ سجدے میں گرگیا۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ زمین پر ایک خاص نوعیت کی روشنی پھیل چکی ہے۔ ماحول ایک خاص قسم کے نور سے جگمگا اٹھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانوں میں فرشتوں کی تسبیح و تہلیل، حمد و شکر اور تمجید و تکبیر کی صدائیں آنے لگیں۔

مجھے اندازہ ہوگیا کہ عرش الٰہی کی تجلیات سے ماحول منور ہوچکا ہے۔ مگر میں اس پورے عمل میں نظر جھکاکر کھڑا رہا تھا۔ ڈر کے مارے میں نے عرش کی طرف دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔

کچھ دیر نہ گزری تھی کہ میرے کانوں نے جبریل امین کی مانوس مگر انتہائی بارعب آواز بلند ہوتی سنی:

’’لمن الملک الیوم (آج کے دن بادشاہی کس کی ہے؟)۔‘‘

جواب میں سارے فرشتے پکار اٹھے:

’’للہ الواحد القہار (تنہا غالب رہنے والے اللہ کی)۔‘‘

جبریل امین یہ سوال بار بار دہراتے اور ہر بار فرشتے بآواز بلند یہی جواب دیتے۔ اس عمل نے میدان حشرمیں ایسا حشر برپا کردیا کہ دل لرزنے لگے۔ آخر کار ایک صدا بلند ہوئی:

’’الرحمن کے بندے کہاں ہیں؟ پروردگار عالم کے غلام کہاں ہیں؟ اللہ جل جلالہ کو اپنا معبود، اپنا بادشاہ اور اپنا رب ماننے والے کہاں ہیں؟ وہ جہاں بھی ہیں خداوند سارے جہان کے رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں۔۔۔‘‘

یہ سننا تھا کہ میں کچھ دیکھنے کی کوشش کیے بغیر ہی صالح کے برابر میں سجدہ ریز ہوگیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میدان حشر میں یک دم خاموشی چھاگئی۔ ایسا سناٹا تھا کہ سوئی زمین پر گرے تو اس کی آواز بھی سنائی دے جائے ۔ میں نے سجدے کے عالم میں جتنی عافیت اس لمحے محسوس کی، زندگی میں کبھی محسوس نہ کی تھی۔ دوسروں کا تو نہیں معلوم کہ وہ سجدے میں کیا کہہ رہے تھے، مگر میں اس لمحے زار و قطار اللہ تعالیٰ سے درگزر اور معافی کی درخواست کررہا تھا۔

نہ جانے کتنی دیر تک ہُو کا یہ عالم طاری رہا۔ اس کے بعد اچانک ایک صدا بلند ہوئی:

’’ھو اللہ لا الہ الا ھو۔‘‘

مجھے پہلے بھی اس کا تجربہ تھا کہ حاملینِ عرش کے اس اعلان کا مطلب مخاطبین کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب صاحبِ عرش کلام کررہا ہے۔ آواز آئی:

’’میں اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

یہ الفاظ وہی تھے جو میں نے عرش کے قریب سجدے میں پہلی دفعہ سنے تھے، مگر یہ آواز اُس آواز سے قطعاً مختلف تھی۔ اِس آواز میں جو جلال، تحکم اور سختی تھی وہ اچھے اچھوں کا پتہ پانی کرنے کے لیے بہت تھی۔ لمحہ بھر کے لیے ایک وقفہ آیا جو چار سو پھیلے ہوئے مہیب سناٹے سے لبریز تھا۔ اس کے بعد بادلوں کی کڑک سے بھی کہیں زیادہ سخت اور گرجدار آواز بلند ہوئی:

’’انا الملک این الجبارون؟ این المتکبرون؟ این الملوک الارض؟‘‘

’’میں ہوں بادشاہ۔ کہاں ہیں سرکش؟ کہاں ہیں متکبر؟ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟‘‘

یہ الفاظ بجلی بن کر کوندے۔ لوگوں نے اس بات کا جواب تو کیا دینا تھا ہر طرف رونا پیٹنا مچ گیا۔ اس آواز میں جو سختی، رعب اور ہیبت تھی اس کے نتیجے میں مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ مجھے زندگی کا ہر وہ لمحہ یاد آگیا جب میں خود کو طاقتور، بڑا اور اپنے گھر ہی میں سہی، خود کو سربراہ سمجھتا تھا۔ اس لمحے میری شدید ترین خواہش تھی کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سماجاؤں۔ میں کسی طرح خدا کے قہر کے سامنے سے ہٹ جاؤں۔ انتہائی بے بسی کے عالم میں میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے:

’’کاش میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا۔‘‘

اس کے ساتھ ہی میرے دل و دماغ نے میرا ساتھ چھوڑدیا اور میں بے ہوش ہو کر زمین پر گرگیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔