جو ہم ہی سادہ وضع رہیں گے
تو بندے بن کے خُدا رہیں گے

گر ہم نے اپنی نہ آنکھ کھولی
یہ گھپ اندھیرے سدا رہیں گے

یوں ایک دوجے سے شاکی رہ کے
غریب بے آسرا رہیں گے

ہم کب تلک ان عطائیوں سے
اُمیدوارِ شفا رہیں گے

ہم اپنے گھر میں ہی کب تک آخر
یوں بن کے نا آشنا رہیں گے