یہ جہاں اس جہاں سے ملتا ہے

لا مکاں بھی مکاں سے ملتا ہے

 

کتنا محدود کر لیا خود کو

اب خدا بھی ازاں سے ملتا ہے

عشق میں ہارنا ضروری ہے

سود اسکا زیاں سے ملتا ہے

یہ تو ہوتا ہی ہے محبت میں

ہر سرا درمیاں سے ملتا ہے

مر کے شاید یہ راز کھل جائے

ہر نسب خاکداں سے ملتا ہے

جسکو کہتے ہیں ہجر اور وصال

یہ تماشہ کہاں سے ملتا ہے

کر رہا ہوں تلاش۔ رزق وفا

وہ بھی کیا آسماں سے ملتا ہے

شہر کے شہر ہیں کے جنکا پتہ

اب صف۔رفتگاں سے ملتا ہے

کیوں ہمیشہ ترا پتہ نقاش

بزم۔اہل۔زباں سے ملتا ہے