بھنور لپیٹ کے پاؤں، سفر میں رکھا ھے
سوائے ذات کے سب کو نظر میں رکھا ھے

غاصب کی تنی رات کو ہم چاک کریں گے
چھُپا کے زہر کا خنجر، جگر میں رکھا ھے

ہماری نسلیں وہ جھیلیں گی، ہم جو بوئیں گے
اِس ایک فکر نے مجھ کو، اثر میں رکھا ھے

جنوں کو تھام رہی ھے، ہر ایک محرومی
نشہ عجیب سا اوجھل سحر میں رکھا ھے

فرعونِ وقت کو اِک دن ڈبو کے چھوڑیں گے
قہر سا لاوہ، سکوتِ لہر میں رکھا ھے