ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ بڑی سخت گرمی پڑی اور برسات کا موسم بھی صاف نکل گیا۔ تالاب اور جھیلیں خشک ہونے لگیں۔ جھیلوں میں مچھلیاں تڑپ تڑپ کر مرنے لگیں۔ بگلوں نے اب دریا کا رخ کیا جہاں بےشمار مچھلیاں رہتی تھیں۔ ایک بگلے نے ایک موٹی تازی مچھلی پکڑی اور چونچ میں دبا کر لے اڑا کہ کسی درخت پر بیٹھ کر مزے سے کھاؤں گا، مگر مچھلی بھی طاقتور تھی، زور سے پھڑپھڑائی اور یوں بگلے کی چونچ سے آزاد ہو کر نیچے گری۔ اتفاق سے بگلا اس وقت ایک کنویں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ مچھلی آزاد ہو کر گری تو کنویں میں آن پڑی۔
اس کنویں کے اندر کئی چھوٹے بڑے مینڈک بہت دنوں سے رہتے تھے۔ مچھلی کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ایک بڑا سا مینڈک ہمّت کر کے آیا اور مچھلی سے پوچھنے لگا، “تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟”
مچھلی نے اسے بتایا، “میں پانی کی مخلوق ہوں۔ مجھے مچھلی کہتے ہیں۔ میں دریا میں رہتی تھی اور دریا ہی میرا گھر ہے۔”
مینڈک نے حیرانی سے پوچھا “دریا کیا ہوتا ہے؟”
مچھلی نے بتایا، “دریا بہت لمبا چوڑا ہوتا ہے۔ اس میں گہرا پانی ہوتا ہے جو بہتا رہتا ہے۔ بہت لمبا چوڑا۔ جب پانی بہتا ہے تو لہریں اٹھتی ہیں اور ہمیں جھولا جھلاتی ہیں۔”
مینڈک اچھل کر کنویں کے ایک کنارے پر پہنچا اور وہاں سے تیرتا ہوا آیا اور مچھلی سے پوچھا، ” کیا دریا اتنا چوڑا ہوتا ہے؟”
مچھلی نے کہا، “نہیں بھائی مینڈک! یہ فاصلہ تو کچھ بھی نہیں۔ دریا تو کہیں زیادہ چوڑا ہوتا ہے۔”
مینڈک پھر اچھلا اور اچھل کر کنویں کے دوسرے کنارے پر گیا۔ پھر وہاں سے تیرتا ہوا آیا اور مچھلی سے پوچھنے لگا، “دریا کیا اتنا لمبا ہوتا ہے؟”
مچھلی کو ہنسی آگئی اور وہ کہنے لگی، “نہیں نہیں میاں مینڈک! یہ فاصلہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ دریا تو میلوں لمبا ہوتا ہے۔”
مینڈک بڑی بڑی آنکھیں نکال کر مچھلی کو دیکھنے لگا اور بولا، “تم ضرور مجھ سے مذاق کر رہی ہو۔ بھلا کوئی دریا ہمارے کنویں سے بھی بڑا ہو سکتا ہے۔ تم یا تو میرا مذاق اڑا رہی ہو یا تم نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہے۔ بھلا سوچنے کی بات ہے کہاں یہ لمبا چوڑا کنواں اور کہاں تمہارا دریا!”
مچھلی بےچاری کیا جواب دیتی ۔ خاموش ہوگئی اور آہستہ سے مینڈک سے کہنے لگی، “بھائی مینڈک! بات دراصل یہ ہے کہ جب تک تم نے کنویں سے نکل کر باہر کی دنیا نہیں دیکھو گے، تمہیں کسی بات کا یقین نہیں آئے گا۔ دنیا دیکھنی ہے اور نئی نئی چیزیں دیکھنی ہیں تو کنویں سے نکلو، مگر مشکل یہ ہے کہ تمہارا کنواں سچ مچ بہت گہرا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ بگلے کی چونچ سے تو نکل آئی، مگر اس کنویں سے کس طرح نکلوں گی۔”
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کچھ بچے پانی کی تلاش میں اس طرف آ نکلے۔ ان کے ہاتھ میں ڈول اور لمبی سی رسی تھی۔ ایک لڑکے نے ڈول کو رسی سے باندھ کر کنویں میں ڈالا۔ ڈول میں پانی کے ساتھ مچھلی اور مینڈک بھی آ گئے۔
ایک لڑکا خوشی سے چلّا اٹھا، “دوستو! ڈول تو ہم نے پانی نکالنے کے لیے ڈالا تھا۔ یہ مچھلی اور مینڈک کہاں سے آ گئے۔”
دوسرا لڑکا بولا، “یہ بےچاری مچھلی اس کنویں میں کہاں سے آ گئی۔ چلو اسے دریا میں چھوڑ آئیں۔ ہمیں تو پانی چاہیے۔”
بڑے رحمدل بچے تھے کہ انہیں مچھلی کے حال پر ترس آ گیا۔ دوڑتے ہوئے دریا پر گئے اور مچھلی اور مینڈک کو دریا میں چھوڑ آئے۔ اگر دریا کا پانی بھی کنویں کے پانی کی طرح شفاف ہوتا تو دریا میں سے پانی لے جایا کرتے۔
مینڈک نے جب دریا دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اب اسے مچھلی کی باتوں پر یقین آنے لگا اور سوچنے لگا کہ اب میں واپس کنویں میں جا کر دوسرے مینڈکوں کو بتاؤں گا کہ مچھلی جو کچھ کہہ رہی تھی وہ سچ تھا۔ میں وہ سب دیکھ کر آ رہا ہوں!

اُمرائی انوری