تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی

یہاں ہانگ کانگ میں ایک صاحب ہیں جن کی ٹریول ایجنسی ہے ۔چونکہ وہ صاحب نہایت ہی معقول انسان ہیں اس لیے میں ہفتے میں ایک مرتبہ ان کے پاس حاضری ضرور دیتا ہوں ۔جس دن پاکستان کی ٹیم انگلینڈ میں ٹونٹی ٹونٹی کا مقابلہ جیتی تھی ۔اس سے اگلے دن میں ان کے ہاں گیا تھا۔ اس روز وہاں پر ٹاک آف دی ڈے کرکٹ ہی تھا۔ وہاں پر موجود سبھی پاکستانی جوشیلے ہو رہے تھے۔ جب میری رائے پوچھی گئی تھی تو میں نے ایک واقعہ سنانے کے بعد کہا تھا کہ اس جیت میں انڈیا کا ہاتھ ہے۔ اس وقت تو سبھی صاحبان میرے سے ناراض ہوگئے تھے ۔اب جب کہ پاکستانی ٹیم کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ سبھی صاحبان مجھے کہتے ہیں کہ آپ درست ہی کہتے تھے۔کرکٹ سے وابستہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرے عام کلاس فیلوز تو مجھے میرے اصل نام سے ہی پکارا کرتے تھے۔مگر چند بے تکلف قسم کے کلاس فیلوزنے میرے چند الٹے سیدھے نام ڈال رکھے تھے اوروہ یہ نام صرف نجی دوست احباب کی موجودگی میں ہی پکارا کرتے تھے۔ایم بی بی ایس کے بعد ان میں سے کچھ دوست تو امریکہ چلے گئے اور کچھ کلاس فیلو یورپ سیٹل ہو گئے تھے۔میری ایک کلاس فیلو بریٹن میں مقیم تھی ۔جب میں نے سکاٹ لینڈ یونی میں داخلہ لیا اور بریٹن پہنچا تو اس نے مجھے مزید دو نئے نام دے دئیے تھے۔پہلا نام تو شاہ جی تھا اور دوسرا تھا مسٹر شاءان دونوں ناموں کا مجھے یہ فائدہ ہوا تھا کہ ایک بوڑھی گوری مائی مجھے اپنے بچے کی طرح سے ٹریٹ کرنے لگی تھی کیونکہ اس مائی کا فیمیلی نیم شائ تھا۔ دوسرے میری دوست کے پاس پڑوس میں ایک انڈین شاہ جی (Shah Jee) مجھے اپنا ہم قوم سندھی ہندو ہی سمجھنے لگے تھے۔ میری کلاس فیلو کے شوہر ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ اس لیے وہ لندن کی پیریفری (Periphery) میں ایک امیروں کی بستی میں ہی رہتے ہیں۔
میں تقریباً ہر اتوار اور پبلک ہالیڈے کی رات کو اپنی فیمیلی سمیت ان کے ہاں جاتا تھا اور ہم لوگ سنڈے وہیں پر اکٹھے ہی گذارتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے میں جوگنگ کر رہا تھا ۔ظاہر ہے کہ جب لندن میں صبح ہوتی ہے اس وقت پاکستان اور ہندوستان میں دوپہر ہوتی ہے ۔ جوگنگ کرتے کرتے میرا آمنا سامنا اس شاہ جی سے ہوا تو وہ مجھے پوچھنے لگا۔ شاہ جی سکور کیا ہے ؟ سچی بات کہوں مجھے کرکٹ میں دلچسپی نہیں ہے ۔اس لیے میں نے حیرانی سے پوچھا تھا ۔شاہ جی ! کس کا سکور پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا تھا کمال ہے، پاکستان کی ٹیم کھیل رہی ہے اور آپ کو پتہ تک نہیں۔ پھر کہنے لگا۔ رام کرے پاکستان کی ٹیم میچ جیت جائے ۔میں نے مذاقاً کہا تھا ۔رام کو کیا پڑ ی ہے کہ پاکستان کو جیت دلوائے ۔رام جی تو انڈیا کو جتوائیں گے۔اس وقت اس انڈین کی شکل دیکھنے کے لائق تھی ۔ بڑی رونی سی صورت بنا کر کہنے لگا کہ تم نہیں سمجھو گے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب پاکستانی ٹیم دنیا کی کسی بھی ٹیم سے کرکٹ کھیل رہی ہوتی ہے تو ان دنوں کشمیری مجاھدین اپنی کاروائیوں میں کمی کردیتے ہیں اور جب ان کی ٹیم کا مقابلہ ہندوستان کی ٹیم سے ہوتا ہے تو ان دنوں میں، ان کا سارا دھیان میچ میں ہونے کی کارن کشمیر میں امن امان کی سی صورت حال ہو جاتی ہے اور اگر پاکستان کی جیت ہو جائے تو یوں سمجھو کہ کشمیری مجاھدین ہفتہ بھر جشن منائیں گے اور بھارتی سینا سکھ کا سانس لے سکے گی۔اس لیے میری تو یہی تمنا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم پورا سال کسی نہ کسی ملک سے میچ کھیلتی ہی رہے اور جیتتی ہی رہے۔
اس کے بعد اس نے ایک طویل اور ٹھنڈی سانس لی تھی اور کہا تھا۔ جب بھی پاکستان کا مقابلہ بھارت سے ہوتا ہے تو اس دوران میں تو عام ہندووں کے برعکس رام جی سے یہی پراتھنا کیا کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کو جتوا دے۔کیونکہ اگر پاکستان کی کرکٹ یا ہاکی ٹیم بھارت سے ہار جائے ،تو غصے میں بھرے ہوئے ناراض کشمیری اس شکست کا بدلہ ہماری انڈین سینا سے کشمیر کے جنگلوں میں ہی لے لیتے ہیں اور مار مار کر ہمارا برا حشر کر دیتے ہیں ۔ اس دن میرے پر یہ عقدہ کھلا تھا کہ اس انڈین کا ایک داماد انڈین آرمی میں کمیشنڈ آفیسر ہے اور ان دنوں اس کے بریگیڈ کی تعیناتی کشمیر میں ہی تھی۔اس ہندو کی پراتھنا قبول نہ ہوئی تھی اور پاکستان وہ سیریز نہ جیت سکا تھا اور پھر اس ہندو کا خدشہ بھی سو فیصد درست ہی ثابت ہوا تھا ۔ کیونکہ اس میچ کے بعد ایک ماہ تک کشمیری مجاہدوں نے انڈین فورسز کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔جس دن پاکستان انگلینڈ میں کھیلا جانے والا ٹونٹی ٹونٹی کا فائنل جیت گیا تھا تو پاکستان کے طول عرض میں ہر چھوٹے اور بڑے شہر میں جشن کا سا سماں تھا لوگ باگ ساری رات مجموں کی صورت سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے تھے اور ایک بھی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ اس رات کو امن و امان کی صورت حال ایک مثالی صورت حال تھی ۔ بے پناہ رش اور ہجوم سڑکوں اور بازاروں میں جمع ہوگیا تھا مگر ایک بھی لڑائی جھگڑا نہ ہوا تھا۔بلکہ کئی ایک مقامات پر چھوٹے موٹے ایکسیڈنٹ بھی ہوئے تھے مگر لوگوں نے کھلے دل سے ایک دوسرے کو معاف کر دیا تھا۔اس بات کو بنیاد بنا کر میں یہی کہتا ہوتا ہوں کہ لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کسی ملک دشمن نے کروایا تھااگر یہ کام کسی کشمیری جہادی تنظیم کا ہوتا تو اس رات پاکستان کے ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ مذہبی اور جہادی تنظیموں کے افراد جیت کے جشن میں حصہ کبھی بھی نہ لیتے ۔ بلکہ دھماکے کرتے اور جشن منانے والوں کو ہلاک کرتے۔ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیری مجاہدین پاکستان کی ٹیم کے دیوانے تو ہیں ہی ۔ وہ انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی بھی دل سے قدر کرتے ہیں۔ایسے لوگ کسی دوست ملک کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کریں گے۔یہ بات میں تو تسلیم نہیں کرتا۔
جن دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹونٹی ٹونٹی کا مقابلہ جیتی تھی انہی دنوں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ سات برس قبل کراچی میں آگسٹا آبدوز بنانے والے جو گیارہ فرانسیسی انجینئیر شہید کر دئیے گئے تھے ۔ ان کے قتل کی تفتیش اب اس شک کی بنیاد پر کی جائے گی کہ کمیشن کے لین دین کے چکر میں کہیں ان کو پاکستانی حکام نے خود ہی نہ مروا دیا ہو اور الزام اسلامی تنظیموں کے سر منڈھ دیا ہو۔ یہ خبر سنانے کے بعد ایک صاحب میری رائے پوچھنے لگے تھے تو میں نے کہا تھا میں آپ کو ایک واقعہ سنا دیتا ہوں ۔ میری رائے آپ کے سامنے خود ہی آ جائے گی۔جو واقعہ میں نے ان صاحب کو سنایا تھا وہ کچھ یوں تھا۔یوکے جانے سے قبل مجھے یہ علم نہ تھا کہ یورپین اور امریکن ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے کلائنٹس کو کمیشن میں نقد رقوم کے علاوہ سیکس بھی آفر کرتی ہیں۔یہ راز کی بات مجھے ایک دوست لیزانے بتائی تھی۔جو کہ لندن کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں کال گرل تھی۔آپ اس کو کوئی گئی گذری قسم کی رنڈی خیال نہ کر لیجیئے گا ۔ان دنوں وہ ایک رات کے پانچ چھ ہزار پونڈ لیا کرتی تھی۔ اسے یہ علم تھا کہ میں ہر دوسرے یاتیسرے مہینے پاکستان جایا کرتا ہوں ۔ میرے پاکستان جانے کے ایام نزدیک ہی تھے کہ ایک دن وہ مجھے پوچھنے لگی۔ تم اپنا شیڈول ایک یا دو دن آگے پیچھے نہیں کر سکتے؟ اگر تم میرے ٹائم فریم کے مطابق ایڈجسٹ کر لو گے ، تو میں تمہیں آنے جانے کا فسٹ کلاس ٹکٹ دوں گی ۔چونکہ اس کے ساتھ میری اچھی خاصی بے تکلفی تھی دوسرے اس کی آفر بھی نہایت ہی اچھی تھی ۔اس لیے میں نے اپنی بیوی اور بچے تو پروگرام کے مطابق ہی پاکستان بھجوا دئیے تھے کیونکہ ایک شادی میں ان سب کی شرکت لازمی تھی۔
میرے ساتھ جو لڑکی کراچی تک جا رہی تھی۔اس کا پورٹ فولیو کچھ یوں تھا کہ وہ یہودی تھی اور ایک ایسی فرم کی طرف سے پاکستان جا رہی تھی جو کہ یہودیوں کی ہی ملکیت تھی اور وہ فرم ملٹری ایکویپمنٹ(Equipments) بناتی ہے۔مجھے یہ جان کر حیرانگی بھی ہوئی تھی کہ ایک طرف تو یہودی خود ہی ہمارے ملک پر پابندیاں لگواتے ہیں اور پھر خود ہی ہمیں اسلحہ بھی فروخت کرتے ہیں ۔میری حیرانگی پر میری دوست مجھے سمجھانے لگی تھی کہ حیران نہ ہو! یہ تجارت اور منافقت کی دنیا بہت الجھی ہوئی ہے۔ اب جب کہ پاکستان پابندیوں کی زد میں ہے تو دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ کے ڈر اور خوف سے تمہیں کچھ بھی فروخت نہیں کرے گا ۔جب کہ یہودی تو کسی سے بھی نہیں ڈرتے اور کسی کی بھی مخالفت کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ کیونکہ وہ توخود ہی اس دنیا کے مالک ہیں دوسرے وہ اس سودے میں اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ طلب کریں گے اور جو خطیر منافع ان کو ملے گا۔وہ اس سے اسرائیل کے دفاع کو مزید مضبوط بنائیں گے۔اس لیے تم اپنے چھوٹے سے ذہن کو مت تھکاو۔ کیونکہ اس دنیا کی سیاست اتنی الجھی ہوئی ہے کہ جب ایک طاقتور ملک کوئی قدم اٹھاتا ہے ۔ تب اس کا ظا ہر ی شکار تواس کا دشمن ہی نظر آتا ہے ۔ مگر حقیقت میں اس کی زد کسی دوست ملک پر پڑتی ہے۔اس کے بعد میری دوست مجھے اس لڑکی کے متعلق سمجھانے لگی تھی کہ وہ لڑکی پہلی مرتبہ کسی ایشین ملک جا رہی ہے اور اسے لمبے سفر میں سونے کی عادت بھی نہیں ہے ۔پھر اگر وہ سفر میں بات چیت نہ کرے تو اسے جیٹ لیگ بھی ہو جاتا ہے ، پھر اس کے نتیجے میں اس کی پرفارمینس میں فرق بھی آجاتا ہے ۔اس کے ساتھ جانا تو میںنے ہی تھا ۔اس لیے میرا ٹکٹ اور سامان بالکل تیار تھا۔ مگر مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ میرے ایک بڑے کلائنٹ کا بہت ہی اہم افریقن کلا ئنٹ آرہا ہے اور ان کا اصرار یہی ہے کہ میں ہی اسے انٹر ٹین کروں۔اس لیے اب اس لڑکی کو تمہارے ساتھ بھیج رہی ہوں ۔ جب کہ واپسی کے سفر میں اس لڑکی کے ہمراہ اس اسلحہ ساز کمپنی کا ایک اہم شخص ہوگا۔مجھے اس بات پر بالکل ہی حیرت نہ ہوئی تھی کہ ہر مرتبہ لیزا کا گاہک کوئی نہ کوئی افریقن وی آئی پی ہی کیوں ہوتا ہے اور یہ کہ صرف اس یہودی لڑکی کوہی بطورِ خاص پاکستان کیوں بھیجا جا رہا ہے؟
دراصل ہماری دوستی کے ابتدائی ایام میں ہی لیزا نے مجھے یہ بتا یا تھاکہ جس طرح سے دنیا کے مختلف علاقوں کے افراد کے چہرے اوررنگ مختلف ہوتے ہیں ۔اسی طرح سے ہر علاقے اور خطے کے مردوں کی پسند اور ذائقہ بھی الگ الگ ہی ہوتا ہے ۔اسی لیے اگر ایک لڑکی کی ادائیں اور نخرے یورپین کو بھاتے ہیں تو لازمی نہیں کہ وہی لڑکی ایشین یا افریقن کو بھی اتنی ہی اچھی لگے اور جس لڑکی کو ا فریقن پسند کرتے ہیں، لازم نہیں کہ اس کے اسی سٹائل کو ایشین بھی پسند کریں۔ لیزا نے تو مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ ہمارے ہوٹل کے پاس تو ایسی ایسی سپیشیلسٹ لڑکیاں ہیں جو کہ کسی ایک ملک کے خاص خطے یا نسل کے مردوں کو اتنی زیادہ بھاتی ہیں کہ اس خاص خطے یا خاص نسل کے مرد صرف اسی خاص لڑکی کو ہی باربار طلب کرتے ہیں، جبکہ دوسرے خطے یا علاقے کے مردوں کو اس لڑکی میں کوئی خاص کشش نظر نہیں آتی۔اب ہوا یوں تھا کہ جب جہاز نے ہیتھرو ائیر پورٹ کے رن وے پر بھاگنا شروع کیا تھا۔ تب اس لڑکی نے تو یہودیوں کی مذہبی اور اسرائیل کی سرکاری زبان ہیبرو میں دعاء مانگی تھی اور میں نے اپنے سینے پر کراس بنایا تھا۔ کیونکہ میں تو سفر کی مسنون دعائیں اس سے قبل ہی اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی مانگ چکا تھا۔
ارے تم کرسچیئن ہو ؟ اس لڑکی نے حیرانگی سے مجھے یہ سوال کیا تھا۔میں نے جواب میں کہا تھا میں تو یعقوب(علیہ السلام) کے دادا ابراہیم (علیہ السلام ) کے دوسرے بیٹے کی نسل میں پیداہونے والے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کا پیروکار ہوں ۔
جب میں یہ کہہ رہا تھا تو اسی دوران جہاز دھاڑتا ہوا ٹیک آف کر رہا تھا۔ اس لیے وہ لڑکی صرف اورصرف یعقوب کا لفظ سن پائی تھی اور باقی کے الفاظ تو جیٹ انجنوں کی چنگھاڑ کی نذر ہو گئے تھے۔بہر حال اس لڑکی کو یہ سو فیصد یقین ہو گیا تھا کہ میں وہابی یہودی ہوں۔ جس طرح سے ہمارے دین میں چند لوگ ایسے ہیں۔ جو کہ صرف قرآن کریم اور حدیث رسول ﷺ پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور خود کو کسی بھی فرقے سے یا فقہی امام سے منسوب نہیں کرتے۔ اسی طرح سے قوم یہود میں بھی ایک اقلیت خود کو ڈائریکٹ یعقوب علیہ السلام سے ہی منسوب کرتی ہے اور ان کے بعد میں آنے والے انبیاءکرام یا اولیاءکرام سے خود کو منسوب نہیں کرتی۔ ایسے لوگ خود کو جیوز یا یہودی بھی نہیں کہلاتے بلکہ خود کو یعقوبی یا جیقوبی کہلواتے ہیں۔میں پاکستان اور ہندوستان کے عام مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے ان یہودیوں کو وہابی یہودی کہتا ہوتا ہوں۔بہر حال وہ لڑکی مجھے ایک کٹر یہودی سمجھی تھی اور اس نے میرے متعلق یہی خیال کیا تھا کہ میں بظاہر تو ایک مسلمان ہوں مگر حقیقت میں ایک فنڈامنٹلسٹ یہودی ہوں ۔ اس لیے وہ تو میرے پر بے حد زیادہ مہربان ہو گئی تھی اور آٹھ گھنٹے کی فلائٹ کے دوران میرے پر مہربان ہونے کا آٹھ بار عملی ثبوت بھی دیا تھا اور جب فلائٹ کے کراچی ائیرپورٹ پر اترنے کی اناونسمنٹ ہوئی تھی تو مجھے کہنے لگی ۔تم میرے ساتھ چلو ! میں تمہیں اپنے ساتھ فائیو سٹار ہوٹل کے سوئیٹ میں ٹھہراوں گی ۔ اس منسٹر کے ساتھ تو میری دورات کی بکنگ ہے باقی کی تین راتیں ہم دونوں اکٹھے ہی انجوائے کریں گے ۔اس دور میں ہمارے ملک کی وفاقی کا بینہ میں رنگیلے وزراءکی کوئی بھی کمی نہ تھی اور موجودہ دور میں بھی ہم اس نعمت سے محروم نہیں ہیں۔اس کی یہ آفر سن کر میں نے اپنے دل میں یہ کہا تھا کہ پاک فورسز میں اور سندھ پولیس میں میرے جاننے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔وہ اس لڑکی کو میرے ساتھ دیکھیں گے ، تو اپنے دل میں یہی خیال کریں گے ،کہ اس شخص نے ڈاکٹری چھوڑ کر دلالی شروع کر دی ہے اور جو مجھے نہیں جانتے وہ تو مجھے اس لڑکی کا بھائی خیال کریں گے۔ میں نے اس لڑکی کو یہ بات تو نہیں کہی تھی البتہ میں نے اس لڑکی کو یوں کہا تھا ۔ جہاں تک فائیو سٹار میں ٹھہرانے کا تعلق ہے ۔لیزا (میری دوست ) مجھے کئی مرتبہ لنڈن کے ٹاپ ٹن ہوٹلز میں ٹہرا چکی ہے۔ رہی بات کراچی کی ۔ میری ایک بیوی یہاں پر رہتی ہے اور ایک لاہور میں ۔اس لیے تم مجھے معاف ہی رکھو ! (میں باقیوں کا ذکر گول ہی کر گیا تھا) ۔

البتہ ایڈنبرا میں میں اکثر اکیلا ہی ہوتا ہوں ۔یہ لو وہاں کا ٹیلیفون نمبر۔ جب تمہارا دل چاہے انٹر سٹی پر بیٹھ کر آجانا ۔میں تمہیں ہے مارکیٹ (Heymarket) سے لے لوں گا۔
آپ میری بات کو سچ جانئے گا ۔اس لڑکی کو لینے کے لیے فلیگ والی کار آئی تھی اور جس شخص نے اس لڑکی کے لیے بڑے ہی احترام سے کار کا دروازہ کھولا تھا ۔ وہ وفاقی حکومت میں اٹھارہویں گریڈ کا ایک آفیسر تھا۔ہمارایہ حال کل بھی تھا اور آج بھی ہے اور اگر ہم نے نظام کی بجائے چہرے بدلے تو آنے والے کل کو بھی ہمارا یہی حال ہوگا۔