مال اور کمزور
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قارون نام کا ایک بہت بڑا مالدار شخص تھا۔سورہ قصص میں بیان ہوا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اتنے خزانے عطا کررکھے تھے کہ ان کی کنجیاں اٹھانا ہی آدمیوں کی ایک جماعت کے لیے بہت بھاری بوجھ تھا۔مگر ان نعمتوں پر شکر گزاری کے بجائے فخر وغرور اور نمائش ودکھاوا اس کا معمول تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ مال اسے اس کی علم و صلاحیت کی بنا پر ملا ہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں کی پاداش میں اسے اس کے مال سمیت زمین میں دھنسادیا۔

مال بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ لیکن اس نعمت کی حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کوبطور آزمائش دیا جاتاہے۔وہ آزمائش کیا ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوبی سے اس طرح بیان کیا ہے کہ تمھارے کمزوروں کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھیں رزق دیا جاتا ہے،(بخاری رقم ،2896)۔

اس دنیا میں جس کو جو ملا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی عطاسے ملاہے۔عام مشاہدہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے ذہین
اورباصلاحیت لوگ جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور بے ہنر لوگ دیکھتے ہی دیکھتے مالدار ہوجاتے ہیں۔ لوگ اسے قسمت کہتے ہیں، درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم ہمیشہ غیر متوازی کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پیسے والے لوگ مال پاکر قارون بنتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ جان لیتے ہیں کہ یہ مال اصل میں انہیں ضعیفوں کی وجہ سے ملا ہے۔

جو لوگ قارون بنتے ہیں ان کا انجام بھی قارون جیسا ہوگا۔ لیکن جو لوگ اسے عطیہ الہی سمجھ کر غریبوں پر خرچ کرتے ہیں، انہیں اللہ کے نبی کے ساتھ بسادیا جائے گا