کچھ ایسی شمعیں جلائی گئ ہیں*محفل میں*
کہ روشنی بھی نگاہوں کو روشنی نہ لگے

اک ایسے شخص*سے بھی راہ و رسم ہے اپنی
جو بے رُخی سے ملے اور اجنبی نہ لگے

عجیب حال ہے کچھ ان دنوں طبیعت کا
کہ غم بُر انہ لگے اور خوشی، خوشی نہ لگے

کہاں سے سیکھی ہے ظالم نے یہ سُبُک دستی
کہ دل کا خون بھی ہوجائے چوٹ بھی نہ لگے

کچھ اپنا حال بھی ہم آپ کو سنا دیتے
ہماری بات اگر آپ کو بری نہ لگے

کوئی بتاؤ کہ وہ جائے تو کہاں*جائے
خود اپنے گھر میں بھی جس آدمی کا جی نہ لگے

کچھ ایسے دوست بھی اکثر ملے ہمیں*وجہی
کہ جن کی تلخ نوائی بھی دشمنی نہ لگے