کتنے سادہ ہیں طبیعت میں ہموطن میرے
جنکو لیڈر بھی سدھائے ہوئے مل جاتے ہیں
اب تو چپ چاپ، یوں زنجیر پہن لیتے ہیں
گویا احساس کے لاشے ہیں یہ چلتے پھرتے
خونِ غیرت تو کئی بار ہواہے لیکن
اِن کا ایمان یذیدوں پہ ابھی قائم ہے
میر جعفر کے عزیزوں میں گھری قوم مری
مدتیں گزریں، کرشموں کی تمنا کرتے
جانے کب ہوش میں آؤ گے ہمقدم میرے
یہ گِدیں نوچ کے اُڑ جائیں نہ سانسیں اپنی